Sunday, April 12, 2020

قرآن حکیم اور اطاعتِ رسول ﷺ 13-20


قرآن حکیم اور اطاعتِ رسول ﷺ

تحریر: جناب مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ
قرآن حکیم نے متعدد مقامات پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس میں تشریع و قانون کے تمام گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ان تمام بنیادی مسائل کو بیان کیا گیا ہے جو انسانی زندگی کے لیے ضروری ہیں:
’’اور ہم نے آپؐ پر ایسی کتاب نازل کی جس میں ہر شیٔ کی وضاحت ہے۔‘‘  (النحل: ۸۹)
’’حالانکہ اس نے تمہاری طرف واضح المطالب کتاب بھیجی۔‘‘  (الانعام: ۱۱۴)
’’یہ کتاب وہ ہے جس کی آیتیں محکم ہیں اور خدائے حکیم و خبیر کی طرف سے یہ باتفصیل بیان کر دی گئی ہیں۔‘‘ (ہود: ۱)
آئیے ان آیات کی رو سے دیکھیں کہ آنحضرتe کی اطاعت اور اتباع کس درجہ ضروری ہے، اور آپ کے منصب یا فرائض کار میں کیا کیا چیزیں داخل ہیں تا کہ ہر مسلمان صحیح خطوط پر اپنی دینی زندگی کے نقشے کو ترتیب دے سکے، قرآن حکیم کے مطالب و معانی کو سمجھ سکے اور ان کو اپنی عملی زندگی میں سمو سکے…!! قرآن حکیم نے اس سلسلے میں دو انداز اختیار کیے ہیں۔ اکثر تو اپنی اطاعت کے ساتھ رسولؐ کی اطاعت کو بھی ضروری ٹھہرایا ہے اور کہیں صرف رسولؐ کی اطاعت و پیروی ہی کا ذکر کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ دینی نقطہ نظر سے قرآن کے پہلو بہ پہلو، اسلام اور فقہ و تقنین کا دوسرا سرچشمہ یا مصدر ثانی جس سے ایمان و عمل کے تقاضے مکمل ہوتے ہیں، سنتِ رسولؐ ہے:
’’کہہ دو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم مانو، اگر نہ مانیں تو اللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ (اٰل عمران: ۳۲)
’’اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحمت کی جا سکے۔‘‘ (اٰل عمران: ۱۳۲)
’’مومنو! اللہ اور اس کے رسولؐ کی فرمانبرداری کرو اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف پیدا ہو تو اگر اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں اللہ اور رسولؐ اور اپنے اولی الامر کے حکم کی طرف رجوع کرو، یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے۔‘‘ (النساء: ۵۹)
’’اور اللہ کی فرمانبرداری‘ رسولؐ کی اطاعت کرتے رہو اور ڈرتے رہو۔ اگر منہ پھیرو گے تو جان رکھو کہ ہمارے رسولؐ کے ذمہ تو صرف پیغام کو کھول کر پہنچا دینا ہے۔‘‘ (المائدہ: ۹۲)
’’اگر ایمان رکھتے ہو تو اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم پر چلو۔‘‘  (الانفال: ۱)
’’ایمان دارو! اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو، اور اس سے روگردانی نہ کرو اور تم سن رہے ہو۔‘‘ (الانفال: ۲)
’’اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا، ایسا کرو گے تو بزدل ہو جاؤ گے۔‘‘ (الانفال: ۴۶)
’’کہہ دیجئے کہ اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسولِ اللہe کے حکم پر چلو، اگر منہ موڑو گے تو رسولؐ پر اس چیز کا ادا کرنا ہے جو ان کے ذمہ ہے اور تم پر اس چیز کا ادا کرنا ہے جو تمہارے ذمے ہے اور اگر تم ان کے فرمان پر چلو گے تو سیدھا راستہ پا لو گے اور رسولؐ کے ذمے تو صاف صاف احکامِ الٰہی کا پہنچا دینا ہے۔‘‘(النور: ۵۴)
’’مومنو! اللہ کا ارشاد مانو اور پیغمبر کی فرمانبرداری کرو اور اپنے عملوں کو ضائع نہ ہونے دو۔‘‘ (محمد: ۳۳)
’’اور اللہ اور اس کے پیغمبر کی فرمانبرداری کرتے رہو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔‘‘ (مجادلہ: ۱۳)
’’اور اللہ کی اطاعت کرو‘اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو، اگر تم منہ پھیر لو گے تو ہمارے پیغمبر کے ذمے تو صرف پیغام کا کھول کھول کر پہنچا دینا ہے۔‘‘ (التغابن: ۱۲)
یہ وہ آیات ہیں جن میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت و فرمانبرداری کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ان میں دونوں کی اطاعت و پیروی کو یکساں طور سے ضروری ٹھہرایا گیا ہے، یعنی جو اسلوب، انداز اور پیرایۂ اظہار، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے اختیار کیا گیا ہے، بعینہٖ وہی نہج اور طریق اطاعتِ رسولؐ کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔ اب ان آیات پر ایک نظر ڈالتے چلیے جن میں اطاعتِ رسولؐ کو مستقل بالذات اور منفرد دین کی اساس اور بنیاد قرار دیا گیا ہے:
’’جو شخص رسولؐ کی پیروی کرے گا تو بیشک اس نے اللہ کی پیروی کی۔‘‘ (النساء: ۸۰)
’’اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے۔‘‘ (النساء: ۶۴)
’’لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا، اللہ بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘  (اٰل عمران: ۲۱)
’’تو جو لوگ آپ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ ایسا نہ ہو ان پر کوئی آفت آ پڑے یا تکلیف والا عذاب نازل ہو۔‘‘  (النور: ۶۳)
’’آپؐ کے پروردگار کی قسم! یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں آپؐ کو منصف نہ بنائیں اور جو آپؐ فیصلہ کر دیں اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے تسلیم کر لیں تب تک مومن نہیں ہونگے۔‘‘(النساء: ۶۵)
یہ آیات اپنے مفہوم و معنی میں اس درجہ واضح ہیں کہ ہم نے ان کی تشریح و تفسیر کو غیر ضروری سمجھ کر چھوڑ دیا ہے، البتہ ان آیات سے جو نکات نکھر کر فکر و نظر کے سامنے آتے ہیں‘ ان پر ایک نظر ڈال لینا چاہیے:
1       اطاعت رسولؐ، دین کی اتنی اہم اساس ہے کہ اس سے انکار کفر کا مستوجب ہے۔
2       اللہ کے رسولؐ کی اطاعت رحمت الٰہی کے حصول کا واحد ذریعہ ہے۔
3       کسی بھی فقہی و دینی مسئلے میں اختلاف رائے کی صورت میں اللہ اور اس کے رسولؐ کا فیصلہ ہی آخری فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
4       اللہ اور اس کے رسولؐ کے پیغام پر ایمان کے تقاضے اسی وقت پورے ہو سکتے ہیں‘ جب کہ حضورؐ کی اطاعت و فرمانبرداری کو حرز جاں بنایا جائے۔
5       اطاعتِ رسولؐ کی روگردانی سے حبطِ اعمال کا اندیشہ ہے۔
6       رسولؐ کی اطاعت‘ اللہ کی اطاعت کے مترادف ہے۔
7       ہر پیغمبر اسی لیے مبعوث ہوا ہے کہ لوگ اس کے نقش قدم پر چلیں۔
8       محبت الٰہی صرف ایسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے کہ آنحضرتؐ کے ارشادات و اعمال کی پیروی کی جائے۔
9       جو لوگ آپؐ کی تعلیمات کی مخالفت میں سرگرم ہیں‘ ان کو اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔
0       ایمان اس وقت تک تکمیل پذیر نہیں ہوتا جب تک آنحضرتؐ کے احکام و اوامر کو پورے اخلاص سے تسلیم نہ کیا جائے۔
رہا یہ سوال کہ قرآن نے آنحضرتe کے منصب اور فرائض کار کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے تو اس کو سمجھنے کے لیے نامناسب نہ ہو گا کہ پہلے تصور نبوت سے متعلق ان خیالات و افکار کا اختصار کے ساتھ ذکر کر دیا جائے جو یکسر ملحدانہ اور غلط ہیں۔ درحقیقت اس موضوع میں اصل اشکال یہ ہے کہ نبوت کا مسئلہ خالص دینی ہے اور جب اس کو حل کرنے کے لیے عقل و خرد کی داماندگی پر اعتماد کیا جائے گا تو اس سے لازماً نبوت کی عظمت و حقیقت پر روشنی نہ پڑ سکے گی اور نہ یہ بات واضح ہو سکے گی کہ انبیاء کی تعلیمات میں، جو ایک طرح کا توافق اور ارتقاء و تسلسل پایا جاتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ جس طرح سائنس کے مسائل کو غیر سائنسی اصولوں کی روشنی میں حل نہیں کیا جا سکتا، ٹھیک اسی طرح وہ مسائل جن کا تعلق خالصۃً دین سے ہے، ان کو غیر دینی وسائل و ذرائع کے بل بوتے پر حل کرنا ناممکن ہے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے! بعض لوگوں نے اس کے باوجود اسرار نبوت تک پہنچنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ مثلاً کچھ لوگوں نے اسے کہانت کی ترقی یافتہ شکل قرار دیا، حالانکہ نبوت اور کہانت میں کوئی مماثلت نظر نہیں آتی۔ جن لوگوں نے عربی ادبیات میں کاہنوں کے منقولہ اقوال کا مطالعہ کیا ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جہاں ارشاداتِ انبیاء میں حکمت و دانائی اور رشد و ہدایت کے موتی ضوء فگن ہیں، گہرائی اور عمق ہے، وہاں کہانت میں ڈھلے ڈھلائے، بے معنی، اور سطحی جملوں کے سوا کوئی چیز پائی نہیں جاتی۔ کاہن کو انبیاء و رسل سے وہی نسبت حاصل ہے جو ذرہ کو آفتاب سے‘ ان کے اقوال میں نہ صحت و بصیرت کی کوئی جھلک ہے… نہ زندگی کے مسائل سے متعلق کوئی پیغام و دعوت کا نظام پایا جاتا ہے، نہ اخلاق کو سنوارنے کی تعلیم ہے اور نہ اللہ تعالیٰ سے رشتۂ عبودیت استوار کرنے کا کوئی طریق مذکور۔کیونکہ یہ ساری چیزیں انبیائؑ ہی کے ساتھ مخصوص ہیں۔
بعض حضرات نے کہا کہ نبوت اس شدید احساس و تاثر کا نتیجہ ہے جو معاشرے میں فکر و نظر کی گمراہیوں کو دیکھ کر ایک ذہین اور حساس مصلح انسان کے دل میں ابھرتا ہے۔ ہم اس امکان کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ معاشرے میں مروجہ برائیوں کے خلاف، اصلاح کا جذبہ بعض حضرات کو اس حد تک مجبور کر دیتا ہے کہ وہ ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں لیکن ان کے لیے کیا یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے کو فرستادہ تصور کرنے لگیں اور اپنے خیالات و افکار کو وحی تنزیل کا نتیجہ قرار دیں۔
نبوت کی ایک توجیہ نفسیات کے ماہرین نے یہ بیان کی ہے کہ یہ ایک نوع کی ذہنی بیماری ہے۔ اس پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک شخص جو ذہنی و فکری لحاظ سے عدم توازن کا شکار ہے۔ متوازن و معقول اور قابلِ عمل نظامِ حیات پیش کر سکے، اعلیٰ اخلاقی و روحانی قدروں کو بیان کر سکے، تہذیب و تمدن کے سانچوں کو ترتیب دے سکے، اور ان تمام گتھیوں کو سلجھا سکے، جن سے معاشرہ دوچار ہے۔ یہی نہیں، خود بھی ایسی پاکیزہ اور بلند زندگی بسر کر سکے، جو دوسروں کے لیے نمونے کی حیثیت رکھتی ہو۔
نبوت کے بارے میں یہ ان لوگوں کی توجیہات تھیں جو ادیان کی صداقت اور سچائی پر یقین نہیں رکھتے اور محض ظن و تخمین کی بنا پر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس کی حقیقت کیا ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دینی ذہن رکھتے ہیں، لیکن اس کے باوصف انہوں نے ٹھوکر کھائی ہے اور اس مسئلے کی تہہ تک نہیں پہنچ پائے۔ مثال کے طور پر بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ نبوت ولایت ہی کے اس مقام سے متعلق ایک حقیقت ہے جہاں پہنچ کر مجاہد و ریاضت سے سالک کا قلب اس لائق ہو جاتا ہے کہ اس پر وحی و تنزیل کی تجلیات کا انعکاس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں نبوت اور ولایت میں جو فرق ہے وہ نوعیت کا نہیں‘ درجے کا ہے۔
ہمارے نزدیک نبوت کی یہ متصوفانہ تعبیر اس وجہ سے غلط ہے کہ قرآن حکیم سے ہر گز یہ ثابت نہیں ہو پاتا کہ منصب نبوت سے بہرہ مند ہونے سے پہلے ہر نبی نے سلوک و معرفت کی وہ تمام منزلیں طے کی ہوں، جن کی صوفیاء نے نشان دہی کی ہے۔ مزید برآں اس سے عقیدہ ختم نبوت کی نفی ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبوت کسبی ہے وہبی نہیں۔ یعنی اگر آج بھی کوئی شخص تعلق باللہ کی اس منزل تک رسائی حاصل کر لے جس کو معرفت و سلوک کی اصطلاح میں آخری منزل کہا جا سکتا ہے تو وہ نبوت و رسالت کے عہدۂ جلیلہ پر فائز ہو سکتا ہے۔ حالانکہ کوئی بھی صحیح العقیدہ مسلمان اس کا قائل نہیں۔ نبوت و ولایت میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ نبی وحی و تنزیل کے ذریعے جن حقائق تک رسائی حاصل کرتا ہے وہ تمام تر معروضی ہوتے ہیں اور ولی کے قلب و ذہن پر جو نقوش مرتسم ہوتے ہیں وہ موضوعی ہوتے ہیں اور ان کا تانا بانا، معاشرے کے حالات، اقدار اور تعلیم و تربیت کے اسلوب و نہج سے تیار ہوتا ہے‘ اور ان میں جو تھوڑی بہت معروضیت پائی جاتی ہے، وہ بھی صاف اور واضح نہیں ہوتی بلکہ تعبیر طلب ہوتی ہے۔ ان نقوش و تاثرات کو ہم کشوف تو کہہ سکتے ہیں، وحی نہیں۔ کشوف کی شرعی حیثیت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ سالک کے ذاتی تجربات ہیں۔ لہٰذا ہر حال میں ان کی صحت کا معیار یہ ہے کہ آیا یہ کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے مطابق ہیں یا نہیں؟ جس طرح ایک مجتہد کا استدلال و استنباط صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی، اسی طرح کشوف میں بھی خطا و صواب دونوں کا امکان موجود ہے، بلکہ علامہ ابن تیمیہؒ کی زبان میں یہ کہنا چاہیے کہ کشف بھی ایک طرح کے اجتہاد ہی سے تعبیر ہے۔
دینی حلقوں میں ایک نہایت محدود اور برخود غلط حلقہ ایسا بھی ہے جو نبوت و وحی کو اس سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کی تنزیل کے لیے کسی شخص کو منتخب کر لیتا ہے، تا کہ وہ اس کتاب کے متن اور الفاظ و حروف کو من و عن لوگوں تک پہنچا دے، لیکن اس کے اقوال و تشریحات اور عمل و کردار کے لیے ضروری نہیں کہ وہ بھی وحی و تنزیل کا نتیجہ ہوں۔ لہٰذا حجت و استدلال کا جہاں تک تعلق ہے اس کا سرچشمہ صرف وہ کتاب ہو گی جو اس پر نازل ہوئی ہے۔ پیغمبر کا عمل اور ارشادات نہیں۔ ان کے نقطہ نظر سے پیغمبر کی حیثیت محض مبلغ اور شارح کی ہے‘ شارع کی نہیں۔ ان کے ہاں ہر دور کے اہل علم کو یہ حق ہے کہ وہ معاشرے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنے طور پر کتاب اللہ کی تشریح کریں، شرع و تقنین کے سانچوں کو ڈھالیں۔ دین کی جزئیات اور تفصیلات کو متعین کریں‘ اور لوگوں کی رہنمائی کا فرض انجام دیں۔
نبوت و رسالت کا یہ گمراہ کن تصور دراصل اس مفروضے پر مبنی ہے کہ وحی الٰہی کا دائرہ صرف کتاب اللہ تک سمٹا ہوا ہے اور اس کی وسعتیں اور ضوفشانیاں نبی کے اعمال اور ارشادات کو متاثر نہیں کر پاتیں۔ حالانکہ وحی ایسا عمل ہے جو پیغمبر کی پوری زندگی کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے، اس لیے پیغمبر دینی حقائق کی تبیین و تشریح کے ضمن میں جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں، اس سے منشائے الٰہی کی پوری پوری ترجمانی ہوتی ہے، قرآن حکیم میں ہے:
’’اور وہ کوئی بات خواہش نفس سے منہ سے نہیں نکالتا، وہ تو وحی الٰہی ہے جو ان کی طرف بھیجی جاتی ہے۔‘‘ (النجم: ۳-۴)
’’تمہارے لیے پیغمبر خدا کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘  (احزاب: ۲۱)
اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسولe کی متابعت کو دو مختلف اور متضاد خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ یہ ایک ہی حقیقت کے دو مختلف اظہار یا پرتو ہیں۔ اللہ تعالیٰ کتب و صحائف کے ذریعے معاشرے کے مسائل کا حل نازل فرماتا ہے اور رسول اپنے عمل، کردار اور تشریحات سے وحی و تنزیل ہی کی روشنی میں ان کو عملی جامہ پہناتا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ براہِ راست وحی کو علماء کی اصطلاح میں وحی جلی کہا جاتا ہے اور اسی کی روشنی اور تاثیر کو وحی خفی… اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیغمبر تو بھیجا گیا مگر اس پر کوئی متعین کتاب نہیں نازل کی گئی، لیکن اس کے باوجود اس کی پیروی کو ضروری ٹھہرایا گیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پیغمبر کی ذات بجائے خود حجت و دلیل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نبی نے اپنے دور میں کتاب اللہ کی پیروی کے پہلو بہ پہلو اپنی پیروی کی بھی دعوت دی اور لوگوں سے کہا کہ اگر تم نجاتِ اخروی کے طالب ہو تو ہمارے نقش قدم پر چلو۔ حضرت نوحu نے فرمایا:
’’میرا صلہ تو خدائے رب العٰلمین ہی پر ہے‘ تو اللہ سے ڈرو اور میرے کہنے پر چلو۔‘‘ (الشعراء: ۱۰۹-۱۱۰)
حضرت ہودu نے کہا:
’’میں تو تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں‘ تو اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔‘‘ (الشعراء: ۱۲۵-۱۲۶)
حضرت صالحu کا ارشاد ہے:
’’سو اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔‘‘ (الشعراء: ۱۴۴)
حضرت لوطu کا کہنا ہے:
’’سو اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔‘‘ (الشعراء: ۱۶۲)
حضرت شعیبu نے اسی پیرایۂ بیان میں بن کے رہنے و الوں سے فرمایا:
’’میں تو تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں‘ سو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘ (الشعراء: ۱۷۸-۱۷۹)
حضرت مسیحu نے ان الفاظ میں بنی اسرائیل کو اپنی بعثت کے مقصد سے آگاہ کیا:
’’میں تمہارے پاس دانائی لے کر آیا ہوں‘ نیز اس لیے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو، تم کو سمجھا دوں۔‘‘ (الزخرف: ۶۳)
آئیے! اب یہ دیکھیں کہ ان توجیہات و تصورات کے مقابلے میں قرآن حکیم نے نبوت کا کیا تصور پیش کیا ہے؟ ہم پوری ذمہ داری سے کہہ سکتے ہیں کہ قرآن حکیم نے واضح اور غیر مبہم انداز میں اس حقیقت کی پردہ کشائی کی ہے کہ رسالت و نبوت کا تعلق یکسر فیضانِ ربوبیت سے ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کر کے یوں ہی نہیں چھوڑ دیا ہے کہ عقل و خرد کی وادیوں میں بھٹکتا پھرے‘ بلکہ انبیاء و رسل کو بھیج کرا س کی رہنمائی کی ہے:
’’(موسیٰ نے) کہا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی‘ پھر راہ دکھائی۔‘‘(طہٰ: ۵۰)
اس لیے کہ انسانی عقل و تجربہ بہرحال محدود و ناقص ہے‘ اس میں یہ استعداد نہیں پائی جاتی کہ وحی و تنزیل کی روشنی سے بے نیاز رہ کر تہذیب و تمدن کی گتھیوں کو کامیابی سے سلجھا سکے اور اپنے لیے ایسی راہِ عمل کا تعین کر سکے، جس پر گام فرسا ہو کر یہ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکے اور اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کر سکے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا یہ طریق رہا ہے کہ ہر دور میں تسلسل کے ساتھ ایسے اشخاص منتخب کر کے مبعوث فرمائے جو ذہنی، اخلاقی اور روحانی طور سے اس طرح کامل ہوں اور اس لائق ہوں کہ انسان کو ضلالت اور گمراہی کی پستیوں سے نکال کر رشد و ہدایت کے فرازوں تک پہنچا سکیں‘ قرآن حکیم میں ہے:
’’اس کو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ وہ کسے منصبِ نبوت سے نوازے۔‘‘  (الانعام: ۱۲۴)
نبوت و رسالت کی ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کی جاتی ہیں تا کہ یہ لوگ خیر و خوبی کے قافلوں کو آگے بڑھا سکیں اور شر و برائی کے قلع قمع کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکیں۔ اس مضمون کو قرآن نے متعدد مقامات پر بیان کیا ہے، جس سے یہ بات نکھر کر فکر و نظر کے سامنے آ جاتی ہے کہ نبوت و رسالت کا تعلق اللہ کی تدبیر اور نظامِ ربوبیت سے ہے۔ انسانی ماحول، معاشرے، استعداد یا مجاہدہ و ریاضت سے نہیں۔
’’پہلے تو سب لوگوں کا ایک مذہب تھا لیکن وہ آپس میں اختلاف کرنے لگے تو اللہ نے ان کی طرف بشارت دینے والے اور ڈرانے والے پیغمبر بھیجے۔‘‘ (البقرہ: ۲۱۳)
’’اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں اور انہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا۔‘‘ (آل عمران: ۱۶۴)
اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے انبیاء کے لیے رسل کا لفظ بھی استعمال کیا ہے:
’’ہم نے بنی اسرائیل سے عہد بھی لیا اور ان کی طرف پیغمبر ارسال کیے۔‘‘ (المائدۃ: ۷۰)
آنحضرتe کے بارے میں خصوصیت سے ارشاد فرمایا:
’’وہی ذات تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تا کہ اس کو تمام دینوں پر غالب کر دے اور حق ظاہر کرنے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔‘‘(الفتح: ۲۸)
اسی نظامِ ربوبیت کی آخری کڑی آنحضرت کی ذاتِ گرامی ہے اور آپ کے فرائض کار میں تین چیزیں داخل ہیں:  1 تعلیم و تبلیغ   2 تزکیہ  3 تبیین
جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بیک وقت معلم و مبلغ بھی ہیں اور کتاب اللہ کے شارح اور مفسر بھی۔ تعلیم و تبلیغ سے مراد یہ ہے کہ آپ امت کو دین کے بنیادی حقائق سے آگاہ کریں۔ اس کے ذہنی افق کو بلند کریں اور فکر و نظر کی صلاحیتوں کو اس طرح جلا دیں کہ اللہ کی کائنات اور انسان سے متعلق امت ان تمام معلومات سے بہرہ مند ہو سکے، جس پر تہذیب و تمدن کا ارتقاء اور تعمیر منحصر ہے۔
تزکیہ سے یہ مقصود ہے کہ آپؐ اپنے روحانی فیوض اور اسوۂ حسنہ سے امت کے اخلاق و کردار کو سنواریں، ان میں انسانی فرائض کا احساس پیدا کریں۔ ہمدردی، محبت اور تعاون و خیرسگالی کے جذبات کی پرورش کریں اور یہ بتائیں کہ انفرادی و اجتماعی سطح پر تقویٰ، پرہیز گاری اور تعلق باللہ کی منزلوں کو کیونکر کامیابی سے طے کیا جا سکتا ہے ؟
اس کو پڑھیں:   نیک بیوی کی صفات
تبیین کے معنی یہ ہیں کہ قرآن حکیم میں فرائض و اعمال کے بارے میں جو کچھ بھی مذکور ہے اس کی وضاحت اپنے قول و عمل سے کریں اور جہاں جہاں بھی تشریح طلب اوامر و احکام مذکور ہیں وہاں ان کی تشریح کریں اور امت کو پوری پوری تفصیلات سے آگاہ فرمائیں۔ مثلاً یہ کہ مسلمانوں پر شب و روزمیں کتنی نمازیں فرض ہیں‘ قیام‘ رکوع اور سجود میں کیا پڑھنا چاہیے، مناسک حج کیا کیا ہیں، نکاح، طلاق اور بیوع یا معاملات سے متعلقہ آیات کا کیا مفہوم ہے……؟؟
رسول اللہe کے منصب اور فرائضِ کار کے بارے میں ہم نے جو تجزیہ پیش کیا ہے اس کی تائید ان آیات سے ہوتی ہے:
’’منجملہ اور نعمتوں کے جس طرح ہم نے تم میں، تم ہی میں سے ایک رسول بھیجے ہیں جو تم کو ہماری آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور تمہیں پاک بناتے اور کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں۔‘‘ (البقرۃ: ۱۵۱)
’’اے رسول! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پرنازل کیا گیا ہے سب کا سب پہنچا دیجئے۔‘‘(المائدۃ: ۶۷)
’’اے اہل کتاب! تمہارے پاس ہمارے پیغمبر آ گئے ہیں کہ جو کچھ تم کتاب الٰہی میں سے چھپا رکھتے تھے‘ وہ اس میں سے بہت کچھ تمہیں کھول کر بتا دیتے ہیں۔‘‘ (المائدۃ: ۱۵)
’’اور ہم نے آپؐ پر کتاب نازل کی ہے تا کہ جو ارشادات لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر کھول کر بیان کر دیں اور تا کہ وہ غوروفکر سے کام لیں۔‘‘ (النحل: ۴۴)
’’پھر اس کے (یعنی قرآن) کے معانی کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے۔‘‘ (القیٰمۃ: ۱۹)
قرآن حکیم نے جس طرح تصورِ نبوت و رسالت کو نکھارا اور بیان کیا اور جس انداز سے آنحضرتؐ کی اطاعت و اتباع کو ضروری ٹھہرایا، اسی کا یہ نتیجہ اور فیض تھا کہ مسلمانوں نے ہر دَور میں نہ صرف آپؐ کے نقوش قدم کی پیروی کی سعادت حاصل کی بلکہ ان نقوش کو اُجاگر بھی کیا اور ان کی حفاظت و صیانت کا اہتمام بھی کیا۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)