23 مارچ ... ہماری قومی تاریخ کا سنگل میل
تحریر: جناب حکیم راحت
نسیم سوہدروی
۲۳ مارچ کا دن ہماری
ملی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس دن مسلمانان برصغیر نے اپنے لیڈر قائد اعظم محمد
علی جناح ؒکی زیر قیادت آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اقبال پارک (اس وقت کی
منٹو پارک) میں مینار پاکستان کے مقام پر قرارداد
لاہور کی صورت میں جسے بعد میں قرارداد پاکستان
کا نام دے دیا گیا ، یہ تاریخی فیصلہ کیا کہ اب
ہندوستان کے سیاسی مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ بر صغیر کوتقسیم کرکے شمال مغربی
حصے کو ملا کر مسلمانوں کی ایک الگ مملکت قائم کی جائے جو آزاد اور خود مختار ہو۔مسلمان
اس خود مختار اور آزاد مملکت کے ذریعے اپنے تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو تحفظ اور فرو
غ دینے کے علاوہ اس کے ذریعے دنیا کو پھر سے اسلام کے آفاقی پیغام سے روشناس کرانا
چاہتے تھے ، جس سے عرب کے صحرا نشین جہاں بان و جہاں آرا بن گئے اور دنیا کفرو جہالت
کے اندھیروں سے نکل کر اسلام کی نورانی روشنی سے جگمگا اُٹھی۔
دنیا نے دیکھا کہ اس فیصلے کے سات سال بعد ہی اسلامیان برصغیر
نے اتحاد و اتفاق کی بدولت قائد اعظم کی قیادت میں مملکت اسلامیہ پاکستان حاصل کرکے
نہ صرف دنیا کا نقشہ بدل دیا بلکہ تاریخ کا دھارا بھی موڑ دیا۔ مادی قوت و اختیار رکھنے
والی دو اقوام انگریزوں اور ہندوئوں کو بغیر اسلحہ اور جنگ و جدل کے پر امن اور آئینی و جمہوری جدوجہد سے شکست دے کر تاریخ کا نیا باب
رقم کیا ۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر مقاصد نیک ہوں ،منزل واضح ،قیادت دانا
اور مخلص ہو ،قوم میں اتحاد ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کی نصرت پر یقین ہو تو اسے منزل
مقصود مل ہی جاتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحفظات و مراعات مانگنے والے الگ مملکت
کا مطالبہ کیوں کرنے لگے؟اور اپنے لئے الگ ملک کے لئے اپنی جانوں کو ہتھیلی پر لے کر
کیوں نکل کھڑے ہوئے؟ یہ لمبی داستان ہے اور اس کا ایک طویل اور تاریخی پس منظر ہے۔ا س فیصلے کے پیچھے ایک صدی کا سفر ہے۔ہر
وہ صاحب دانش جو تاریخ پر تھوڑی بہت نظر رکھتا ہے وہ مسلمانوں کو اس مطالبے میں حق
بجانب قرار دے گا۔
مسلمان گیارہ سو برس قبل برصغیر پاک و ہند میں فاتح کی حیثیت
سے وارد ہوئے اور اپنے دور اقتدار میں انہوں نے روشن خیالی اور رواداری کی شاندار مثالیں
قائم کیں۔ انگریز تجارت کی غرض سے آئے اور مسلمانوں کی گروہ بندی اور باہمی نفاق سے
فائدہ اُٹھا کر اقتدار پر قابض ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمان غلامی کے عمیق گڑھوں میں
دھکیل دیے گئے۔ان پر روزگار اور معاش کے دروازے بند کر دیے گئے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد تو انگریزوں نے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کردی جو ان کی انتہائی ظالمانہ کارروائیوں کا رد عمل
تھی۔اس کے ساتھ ہی ہندوئوں نے بھی مسلمانوںسے اپنی دشمنی کا اظہار اس طرح کیا کہ وہ مسلمانوں سے اپنی دیرینہ دشمنی کا بدلہ لینے کے
لئے انگریزوں سے مل گئے۔ سکھوں نے پہلے ہی جنگ آزادی کو ناکام بنانے میں انگریزوں
کا ساتھ دیا تھا۔ انگریزوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ہندوئوں کا بھر پور ساتھ دیا
اور انہیں مالی ،معاشرتی اور تہذیبی طور پر مضبوط بنایا۔
مسلمان تو انگریزوں سے اقتدار واپس لینے کی خواہش رکھتے تھے،دوسری
طرف مضبوط اور انگریزوں کی حمایت یافتہ اکثریتی قوم ہندو تھی۔ طویل غلامی نے ہندوئوں
میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور ان کے فکر ونظر میں فساد پیدا کر دیا تھا۔وہ ہر حال
میں مسلمانوں کو ختم کرنے کے در پئے تھے۔ان حالات میں سرسید احمد خان نے مسلمانوں کی
بقاء اور ان کے قومی تشخص کے تحفظ کے لئے قدم بڑھایا اور علی گڑھ علمی تحریک کے ذریعے
مسلمانوں کو اپنی بقاء کی جنگ لڑنے کے قابل بنانے کا عزم کیا۔ اس تحریک نے علی گڑھ
یونیورسٹی کی شکل میں مسلمانوں میں قومی تشخص اجاگر کیا اور انہیں انگریزوں سے مل کر
ان کے علوم سیکھ کر انہیں زیر کرنے کا گر سیکھنے کا طریقہ بتلایا جو کامیاب رہا اور
مسلمانوں نے انگریزوں سے قطع تعلق کا سلسلہ چھوڑ کر ان سے روابط کے ذریعے خود کو منظم
کرنا شروع کر دیا۔اس کے بعد مسلمانوں کو ان کی جدا گانہ حیثیت کا احساس ہوا اور مسلمانوں میں مسلم قومیت کا احساس پیدا ہوا۔تعلیمی
پیش رفت سے ان کی معاشی اور معاشرتی پوزیشن بھی مضبوط ہوئی۔اسی علمی تحریک کے نتیجے
میں مسلم لیگ بھی بنی جو بہت جلد ہندوستان کے مسلمانوں کی آواز بن گئی۔اس کے پس منظر
میں سرسید احمد خان کی یہ سوچ تھی کہ ہندو مسلم دو الگ الگ قومیں ہیں، دونوں اکٹھی
نہیں رہ سکتیں، انہیں جلد یا بدیر الگ ہونا پڑے گا۔ سرسید احمد خان کی اسی سوچ کے زیر
اثر مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد کے نئے دور کا آغاز ہوا۔مسلم لیگ کا قیام ،اردو ہندی
جھگڑا، تقسیم بنگال اور ۱۹۰۹ء کی اصلاحات یہ وہ واقعات ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو اپنے مستقبل
کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا ۔مسلمانوں کی ہر کوشش اور زبردست خواہش کے باوجود
ہندوئوں نے مل کر جدو جہد آزادی کرنے اور مسلمانوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی بجائے
خود کو عددی اکثریت کی بنا پر انگریزوں کا جانشین سمجھنا شروع کر دیا۔یہ بات مسلمانوں
کو گوارا نہ تھی۔مسلمانوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ ہندو مسلم اتحاد کی فضا قائم رہے اور
دونوں قومیں مل کر آذادی کے لئے کام کریں، مگر ہندئوں نے ان کی ہر کوشش ناکام بنا
دی۔قائد اعظم کے چودہ نکات،میثاق لکھنئواور لارڈ ولنگٹن کے خلاف مظاہرہ اس کی واضع
مثالیں ہیں۔یہ سب کچھ اقلیتی قوم کی جانب سے تھا،مگراس کے جواب میں اکثریتی قوم نے
جو سلوک کیا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہ تھا۔ہندوئوں نے نہ صرف مسلمانوں کے حقوق کو نظر
انداز کیا بلکہ تاجدار مدینہe کی
شان میں بھی گستاخی کرنے سے باز نہ آئے۔اس نے مسلمانوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں
سوچنے پر مجبور کر دیا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی
کے بعد مسلمانوں نے تحریک خلافت و عدم تعاون میں قربانی کی جو شاندار مثالیں قائم کی
تھیں، اس کے نتیجے میں انگریزی اقتدار کی چولیں ڈھیلی پڑ گئیں۔
اس صورت حال میں بعض راہنمائوں نے اس مسلسل اذیت سے نجات کے
لئے الگ وطن کے منصوبے پیش کئے ۔سب سے اہم تجویز۱۹۳۰ء میں الہ آباد کے مقام پر علامہ اقبال ؒنے پیش کی‘ اس وقت اسے ان کا شاعرانہ
تخٰیل قرار دیا گیا۔ اس اہم بات پر قوم نے بھی کوئی توجہ نہ دی۔۱۹۳۵ء کے ایکٹ کے تحت پہلے صوبائی انتخابات میں کامیابی کے بعد جب کانگرس نے سات صوبوں
میں اپنی وزارتیں قائم کیں تو اس کی ہندوٗوانہ ذہنیت کھل کر سامنے آگئی۔اس کے ساتھ
ہی ہند ہندی اور رام راج کے پروگرام پر عمل اور اس کے ساتھ ہی مسلمانوں پر مظالم کا
سلسلہ شروع ہو گیا۔انہی دنوں پنڈت نہرو نے ظاقت کے نشے سے سرشار ہو کر نعرہ لگایا کہ
ہندو ستان میں صرف دو ہی طاقتیں ہیں،ایک انگریز حکومت اور دوسری کانگریس۔قائد اعظم
نے اس پر اسے دو ٹوک جواب دیا کہ دو نہیں تین طاقتیں ہیں اور تیسری طاقت مسلمان بھی
ہیں۔انگریز اس وقت دوسری جنگ عظیم میں الجھا ہوا تھا، جس کا کانگریس نے بھر پور فائدہ
اٹھانا چاہا اور عدم تعاون کی دھمکی دے دی۔ اس پر قائد اعظم نے برملا اعلان کیا کہ
کوئی آئینی ڈھانچہ ہر دو اقوام کی رضا مندی کے بغیر ممکن نہیں۔اس سے کانگریس کی بلیک
میلنگ ناکام ہو گئی۔پیر پور کمیٹی کی رپورٹ آنے پر کانگریسی حکومتیں ختم ہو گئیں،جس
پر مسلم لیگ نے یوم نجات منایا۔اب مسلم لیگ ایک عوامی جماعت بن چکی تھی اور الگ مملکت
کے قیام پر سوچ بچار شروع ہو گیا تھا۔ قائد اعظم نے ان دنوں ’’ٹائم اینڈ ٹائیڈ‘‘ میں
لکھا کہ ان حالات میں مسلم لیگ اب الگ وطن کے قیام کے مطالبے پر غور کرے گی۔ان حالات
میں ۲۲ تا۲۴ مارچ۱۹۴۰ء لیگ کا خصوصی اجلاس منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) لاہور میں ہونے کا اعلان ہوا۔
اجلاس سے قبل لاہور میں خاکساروں پر گولیاں چلنے کا افسوس ناک واقعہ ہوا۔مگر اس کے
باوجود قائد اعظم کے اعلان کردہ پروگرام کے مطابق جلسہ مقررہ مقام پر ہوا۔ قائد اعظم
بذریعہ ٹرین لاہور تشریف لائے ۔قائد اعظم نے خاکساروں کی تیمارداری کی اور اخبار نویسوں‘
سے کہا کہ لاہور کا اجلاس نئی تاریخ رقم کرے گا۔۲۱ مارچ ۱۹۴۰ء کی سہ پہر پنڈال میں قائد اعظم نے رسم
پرچم کشائی کی۔ ۲۲مارچ کو لیگ کی کونسل کا اجلاس ہوااورقرار داد تقسیم ہند کا
مسودہ موضوعاتی کمیٹی کے سپرد ہوا،جس نے ضروری ترامیم کے بعد حتمی شکل دی ۔ ۲۳مارچ کو کھلا اجلاس ہوا، مسلمانان بر صغیر کا جم غفیر تھا۔میاں بشیر احمد کی نظم
انور غازی آباد نے پڑھی، شاہنواز ممدوٹ نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا پھر قائد اعظم نے
سو منٹ تقریر کی جس میں حالات کا تجزیہ پیش کیا ،قائد اعظم نے چند منٹ اردو میں تقریر
کی پھر انگریزی میں خطاب کیا مگر جلسہ ہمہ تن گوش تھا۔اس کے بعد قرارداد پیش ہوئی جو
اے کے فضل الحق نے پڑھی۔اس کے بعد تمام صوبوں کے نمائندگان نے تائیدی تقاریر کیں ۔مولانا
ظفر علی خان نے اردو ترجمہ کیا اور پنجاب سے تائیدی تقریر کی ۔شام ہونے کے باعث اجلاس
اگلے روز کے لئے ملتوی ہوگیا۔ چنانچہ ۲۴ مارچ کو قرارداد منظور ہوئی جسے قرار داد پاکستان کے نام سے
تاریخ میں شہرت حاصل ہوئی ۔مولانا ظفر علی خان نے منظوری پر فرمایا’’میں دیکھ رہا ہوں
کہ پاکستان وجود میں آگیا ہے اور میں اس کی آزاد فضائوں میں سانس لے رہا ہوں۔‘‘ جس
پر قائد اعظم نے فرمایا،مولانا! آپ نے تو پاکستان قائم کر دیا ہے۔
قرار داد کی منظوری کے بعد مسلمانوں میں جوش وولولہ پیدا ہو
گیا،اب منزل واضح تھی ۔قوم نے علامہ اقبال کا رستہ اپنا لیا تھا۔مگر ہندو پریس اس کے
خلاف سرگرم عمل ہو گیا اور تقسیم ہند کو گئو ماتا کی تقسیم سے تشبیہ دینے لگا۔اس قرارداد
کو ناکام بنانے کے لئے ہر حربہ استعمال ہوا مگر یہ قرار داد تو ہر مسلمان کے دل کی
آواز بن گئی تھی۔اسلامیان برصغیر لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد ہو چکے تھے۔پھر دنیا نے
دیکھا کہ سن ۱۹۴۶ء کے انتخابات جو قیام پاکستان کے نام پر لڑے گئے کے نتائج کے
اعتبار سے لیگ مسلمانوں کی نمائندگی کی حقدار قرار پائی اور قیام پاکستان کے بعد بھی
ہندوئوں نے اس کے وجود کو کبھی دل سے گوارا نہیں کیا۔وہ اسے ختم کرنے کی مسلسل سعی
کرتے رہے اور اس زندہ حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ۱۹۴۸ء سے ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگیں اس کی
واضح مثالیں ہیں، المیہ مشرقی پاکستان اور کشمیر پر غیر قانونی اور غیر اخلاقی تسلط
بھی ہندوستانیوں کے عزائم کا صاف ثبوت ہے۔
پاکستان جسے ہم نے اسلام کے مقدس نام پر حاصل کیا ہے ، یہاں
اسلام کو نعرے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ہم نے قیام پاکستان کے بعد اس کے مقاصد کے
خلاف سمت سفرشروع کر دیا جس کی سزا ہم بھگت چکے ہیں مگر ہم نے اس سے سبق حاصل نہیں
کیا۔
No comments:
Post a Comment