کرونا وائرس
کرونا لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تاج کے ہیں۔ ماہرین اسے سارس وائرس کی
نئی شکل قرار دیتے ہیں۔ اس وائرس کے شکار افراد کو سانس کی دشواری اور دیگر امراض کا
سامنا رہتا ہے۔ کرونا وائرس پھیپھڑوں تک پہنچنے سے پہلے گلے میں چار دن گذارتا ہے۔
جس سے متأثرہ شخص کھانستا ہے اور گلے میں تکلیف محسوس کرتا ہے۔ اگر اسی دوران مریض
پانی زیادہ پیئے‘ نیم گرم پانی سے بار بار غرارے کرے تو وائرس وہیں فنا ہو جاتا ہے۔
ورنہ یہ وائرس پھیپھڑوں میں داخل ہو کر نظام تنفس کو مفلوج کر دیتا ہے۔ عموما اس وائرس
کے اثرات کم قوت مدافعت والے افراد خصوصا ۵ سال سے کم یا ۶۰ سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے خطرہ کا باعث
بنتا ہے۔ درمیانی عمر کے افراد جن میں قوت مدافعت اچھی ہو چند دن کے ہلکے پھلکے بخار
یا زکام تک محدود رہتا ہے۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق کرونا وائرس کا آغاز جنوبی چین کے گنجان آباد شہر ووہان
کی اینیمل فوڈ مارکیٹ سے ہوا جہاں ممالیہ یعنی دودھ پلانے والے جانور جن میں وہیل مچھلی
اور چمگادڑ وغیرہ بھی فروخت کیے جاتے تھے۔ اطلاعات کے مطابق چمگادڑ کے سوپ کو کرونا
کی ابتدائی وجوہات قرار دیا گیا ہے۔ چین نے اگرچہ اس مارکیٹ کو فوراً بند کر دیا لیکن
تب تک ایک کروڑ دس لاکھ آبادی والے شہر ووہان کے ایک تہائی افراد متاثر ہو چکے تھے۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے تا حال ۱۰۰ سے زائد ممالک کے شہری متأثر ہو چکے ہیں۔ دنیا
بھر میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد لاکۂں میں ہے۔ کئی ممالک لاک ڈاؤن ہو چکے
ہیں۔ ہر طرف افراتفری کا عالم ہے۔ لوگ خوف وہراس اور دہشت میں مبتلا ہیں۔ حفاظتی تدابیر
اختیار کی جا رہی ہیں۔ متأثرہ افراد کے لیے الگ علاج گاہ قرنطینہ کے نام سے قائم کی
گئی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اٹلی کی ۲۵ فیصد سے زائد آبادی کرونا وائرس کا شکار ہو چکی
ہے۔ نیوزی لینڈ‘ روس اور امریکہ جیسے ممالک میں بھی کرونا نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
ہے۔ سعودی عرب میں پہلی مرتبہ وائرس سے بچاؤ کے لیے عمرہ اور طواف کا عمل متأثر ہوا۔
ضیوف الرحمن کی سلامتی کے لیے تمام تر حفاظتی اقدامات اٹھائے گئے۔ حرم مکی اور مسجد
نبوی میں صفائی ستھرائی اور جراثیم کش سپرے کرنے کے بعد دوبارہ معتمرین اور زائرین
کے لیے مقدس مقامات کو کھول دیا گیا۔
کرونا وائرس کی بازگشت کئی دنوں سے سنائی دے رہی تھی۔ وطن عزیز میں اس وائرس سے
متأثر کوئی شخص بھی نہ تھا۔ کیونکہ ۲۳ فروری کے بعد چین سے زمینی اور فضائی راستے آمد
ورفت مکمل بند تھی۔ پاکستان میں کرونا وائرس کی آمد پڑوسی ملک ایران سے ہوئی۔ پاکستان
سے ایران جانے والے نام نہاد زائرین ڈر کر وہاں سے واپس بھاگے تو شرک کے ساتھ ساتھ
یہ غلیظ تحفہ بھی اپنے ہمراہ لائے۔ نہ جانے ایران میں کون سا مقدس مقام واقع ہے جس
کی زیارت کے لیے وہاں جاتے ہیں۔ یہ راز پہلے بھی افشاء ہو چکا ہے کہ زیارت کے نام پر
یہاں سے مخصوص فرقے کے لوگ وہاں جاتے ہیں اور وہاں سے تخریب کاری کی ٹریننگ لے کر واپس
آتے ہیں اور دہشت گردی کی مختلف کارروائیاں انجام دیتے ہیں۔ ریاست کو چاہیے کہ اس کی
روک تھام کرے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایران پلٹ افراد کو بارڈر پر ہی روک لیا جاتا۔
ان کے لیے وسیع عارضی علاج گاہ بنائی جاتی۔ انہیں وہاں ایک عرصہ تک رکھا جاتا پھر مکمل
سکریننگ کے بعد کلیئر کر کے متعلقہ شہروں اور علاقوں کو روانہ کیا جاتا۔ اب جس بھی
متاثرہ شخص کا پتہ چلتا ہے تو ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ ایران سے واپس آیا تھا۔
العیاذ باللہ! ایران سے آنے والا وائرس یہ پیغام دے رہا ہے کہ ’’مزار پر شفاء نہیں
بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس شفاء ہے اور وہی مشکل کشا ہے۔‘‘
وبائی امراض کے پھوٹ پڑنے اور ان کے پھیلاؤ سے تعلق شریعت محمدی میں ہدایات موجود
ہیں۔ اگر ان ہدایات پر عمل کر لیا جائے تو ان کا تدارک اور سد باب ہو سکتا ہے اور مزید
پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب کسی جگہ وباء پھوٹ پڑے تو کوئی شخص وہاں
سے نہ نکلے اور نہ ہی کوئی آدمی اس متأثرہ مقام کی طرف جائے۔ یعنی اس علاقے کی مکمل
ناکہ بندی کر دی جائے تو وہ وباء دوسرے علاقوں میں نہیں پھیل پائے گی۔ اب جبکہ کرونا
وائرس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے‘ اس سے نجات کے لیے پوری دنیا فعال
اور متحرک ہو چکی ہے۔ چین نے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جس کی بناء پر وہاں اس
وائرس پر قابو پا لیا گیا ہے۔ کل تک اس کی ویکسین دستیاب نہ تھی تا ہم اب کرونا سے
متأثر مریض صحت یاب ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی کچھ مریض تندرست ہو کر ہسپتال سے
اپنے گھروں کو جا چکے ہیں۔
مقامی اور عالمی سطح پر حفاظتی تدابیر سے آگاہ کیا جا رہا ہے جن پر عمل کرنے کی
ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق صفائی کی طرف خاص توجہ دی جائے۔ ہاتھ بار بار دھوئے جائیں‘
پانی پیا جائے۔ ہمارے میڈیا کو چاہیے کہ اس نازک موقع پر لوگوں کو ڈرانے کی بجائے اس
سے بچاؤ کی تدابیر اور آگاہی پروگرام نر کرے۔ علماء کرام بھی اپنے وعظ اور خطبات میں
لوگوں کو آگاہ کریں۔ وبائی امراض بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب کی ایک صورت ہیں۔ حفاظتی
تدابیر کے ساتھ ساتھ رجوع الی اللہ کریں۔ کثرت سے توبہ واستغفار کریں۔ نافرمانی والے
کام چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں آجائیں۔ مسنون اذکار کا ورد جاری رکھیں۔
رب ذوالجلال ناگہانی آفات‘ وبائی امراض‘ ہر قسم کی پریشانیوں اور مصائب وآلام سے محفوظ
رکھے۔ آمین!
ہمیں کرونا وائرس سے ڈرنا نہیں بلکہ احتیاطی تدابیر اپنا کر اسے شکست دینا ہے۔
یہ وائرس ۲۵ ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت میں بچ نہیں
پاتا۔ چند دنوں میں پاکستان کے اکثر علاقوں میں درجہ حرارت اس حد کو پار کر جائے گا
تو جس طرح یہ وائرس جلد پھیلتا ہوا محسوس ہو رہا ہے اس سے کہیں زیادہ تیزی سے معدوم
ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ!
No comments:
Post a Comment