درسِ قرآن
ہیبت کفار کی
حقیقت
ارشادِ باری ہے:
﴿لَا يَغُرَّنَّكَ
تَقَلُّبُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِي الْبِلَادِؕ۰۰۱۹۶ مَتَاعٌ قَلِيْلٌ١۫ ثُمَّ مَاْوٰىهُمْ
جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمِهَادُ﴾ (ال عمران)
’’تجھے کافروں کا
شہر میں چلنا پھرنا فریب میں نہ ڈال دے، یہ تو بہت ہی تھوڑا فائدہ ہے اس کے بعد تو
اُن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بری جگہ ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نعمتیں انسانوں کے لیے پیدا فرمائی ہیں،
ان سے مسلم اور غیر مسلم ہر کوئی مستفید ہوتا ہے _البتہ مسلم اس سے بقدر ضرورت فائدہ
اٹھاتا ہے جبکہ غیر مسلم دنیا ہی کو اپنا مستقل ٹھکانہ سمجھ کراسی کو جمع کرنے میںمگن
رہتاہے۔ کافروں کا تسلط ، مادی ذرائع کی فراوانی، افواج کی قوت اور ان کا جدیدٹیکنالوجی
سے لیس ہونااور اپنی ثقافت کو عام کرنے کے لیے ترقی یافتہ اقوام کی طرح تمام وسائل
بروئے کار لانا اور امت مسلمہ کا اقوام عالم میں ایک کمزور امت کے طور پر موجود ہونا
یہ تمام چیزیں آج کے مسلمان کے دل میں ایک مایوسی اور ناامیدی کی جھلک پیدا کرنے کا
باعث بنتی ہیں۔ ایسے حالات میں مذکورہ آیت چراغ روشن کی طرح ہمار ی رہنمائی کرتی ہے
اور اس حقیقت کی نقاب کشائی کرتی ہے کہ کافروں کی تعیش پرستی اور ذرائع و وسائل کی
فراوانی عارضی ہے جب کہ ایک مسلمان کے پاس ایمان کی دولت اور تو حید کی نعمت ہے جس
سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں اور اسی کی بدولت انہیں ابدی راحت اور فرحت میسر ہونےوالی
ہے:
﴿لٰكِنِ الَّذِيْنَ
اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ
فِيْهَا نُزُلًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ؕ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ لِّلْاَبْرَارِ﴾
’’لیکن جو لوگ اپنے
رب سے ڈرتے رہے ان کے لیے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں
گے یہ مہمانی ہے‘ اللہ کی طرف سےاور نیک لوگوں کےلیے جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہت
بہتر ہے۔‘‘ (آل عمران)
اب اگر ایک مسلمان‘ دنیا کی نعمتوں اور اس فراوانی دولت کا جو
کافروں کے پاس ہے موازنہ ان نعمتوں سے کرے جو آخرت میں اس مسلمان کو توحید اور تقویٰ
کی بنا پر ملنے والی ہیں تو اسے کافروں کی ترقی ہیچ معلوم ہوگی کیونکہ عنقریب یہ سب
کچھ ختم ہونے والا ہے اور جماعت کفار اپنے کفر کی وجہ سے اپنی شان وشوکت کھو دے گی
اور دنیاوی مال ومتاع اور جدید اسباب کی فراوانی ان کے کچھ کام نہ آئے گی:
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ
كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِهِمْ مِّلْءُ
الْاَرْضِ ذَهَبًا وَّ لَوِ افْتَدٰى بِهٖ﴾ (ال عمران)
’’بےشک وہ لوگ جو
کفر کریں اور مرتے دم تک کافر رہیں ان میں سے کوئی اگر فدیہ کے طورپر (نجات کے لیے)زمین
بھر سونا دے تو بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘
ان سب حالات کا موازنہ کرلینے کے بعد کسی بھی ذی شعور کو کفار
کی ترقی،تسلط اورعارضی قوت و ہیبت پر رشک نہیں آئے گا بلکہ ایک مومن کے لیے حقیقت
کو پہچاننے میں مزید سہولت ہوگی کہ کافر اللہ کو بھول کر دنیا میں مگن رہ کر اپنی آخرت
تباہ کررہا ہے۔ جبکہ مسلمان دنیا اور اس کی متاع کو بھول کراپنی آخرت کی فکر میں لگاہے
اور آخرت کی کامیابی ہی حقیقی کامیابی ہے۔
درسِ حدیث
دین کی حفاظت
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
[عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ
اللّٰهِﷺ: "يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِيهِمْ عَلىٰ دِينِهٖ
كَالقَابِضِ عَلَى الجَمْرِ".] (الترمذی)
سیدنا انس بن مالکt
سے روایت ہے‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہe
نے ارشاد فرمایا: ’’لوگوں پر ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب دین پر
قائم رہنا یوں مشکل ہو گا جیسا کہ آگ کے انگارے کو پکڑنا ہے۔‘‘
سیدنا انس بن مالکt
کا شمار فقہاء صحابہ کرام] میں ہوتا ہے۔ آپt
92ھ میں فوت ہوئے۔
آپt کی کنیت ابوحمزہ ہے۔ آپt
رسول اکرمe کے خادم خاص تھے‘ بیان فرماتے
ہیں کہ رسول اللہe نے فرمایا: قرب قیامت ایک ایسا
وقت بھی آئے گا جب دین پر قائم رہنا انتہائی مشکل ہو گا۔ رسومات اور بدعات عام ہو
جائیں گی‘ خود ساختہ اعمال کو ثواب سمجھ کر ادا کیا جائے گا۔ بھلائی بہت کم اور برائی
عام ہو گی‘ اس وقت دین پر قائم رہنے والے کم ہوں گے اور انتہائی مشکلات اور سختیوں
میں گھرے ہوں گے۔ فتنے عام ہوں گے اور لوگوں کا ایمان بھی کمزور ہو جائے گا۔ اکثر لوگ
اللہ کو چھوڑ کر اس کی مخلوق کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھیں گے۔ ان حالات میں ایمان
پر قائم رہنا بڑا مشکل ہو گا مگر اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو استقامت عطا فرمائیں گے
اور ان کے لیے بڑا اجر وثواب ہو گا۔ یہ مقام ومرتبہ ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے مشقت
اور تکلیف اٹھا کر بھی اپنے ایمان کو قائم رکھا۔ ایسے لوگوں کی مثال رسول اللہe
نے اس حدیث میں بیان فرمائی کہ جس طرح آگ کا دہکنے والا انگارہ ہاتھ
پر رکھنا مشکل ہے ایسے ہی ان حالات میں ایمان پر قائم رہنا مشکل ہو گا۔ ہمارا یہ دور
حضور اکرمe کی پیشگوئی کے کس قدر قریب
ہے۔ آج لوگوں کا ایمان کمزور ہو چکا ہے۔ دل نفرتوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اخلاقی حالت
ابتر ہو چکی ہے۔ میڈیا کی آزادی نے ہر شخص کو دین سے دور کر دیا ہے۔ محافل موسیقی
اور اخلاق سوز ٹی وی پروگرامز لوگوں کے ایمان کو مزید کمزور کر رہے ہیں۔ لوگ دین کا
راستہ چھوڑ کر برائی کی طرف مائل ہیں جو لوگ دین دار ہونے کے دعویدار ہیں وہ بھی باہم
دست وگریباں ہیں‘ ایک دوسرے کو کافر کہنا عام عادت ہو چکی ہے۔ محبت وپیار کہیں نظر
نہیں آتا۔ قتل وغارت گری عام ہو چکی ہے۔ ان حالات میں دین پر قائم رہنے والے دنیا
وآخرت میں کامیاب ہوں گے اور کامیابی مشکلات کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ ہمیں اپنا
دین بچانے اور دین پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment