سود ... صدقات کی ضد
(پہلی قسط) تحریر: جناب مولانا محمد اقبال
سود حرام ہے:
سود
حرام ہے اور جو اس کو حلال سمجھے وہ مسلمان نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اگر تم
سود نہیں چھوڑتے تو اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کیلئے تیار ہو جائو۔‘‘ (البقرہ)
احادیث
پاک میں بھی سود کے لینے اور دینے پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔ سیدنا جابرt
سے روایت ہے کہ حضورe نے لعنت کی سود کھانے والے
پر، سود کھلانے والے پر اور لکھنے والوں پر اور گواہوں پر اور فرمایا: وہ سب برابر
ہیں۔ (صحیح مسلم)
سیدنا
علیt سے روایت ہے کہ انہوں نے حضورe
سے سنا، آپe نے سود دینے والے، سود لینے
والے اور اس کے لکھنے والے اور زکوٰۃ روک لینے والے پر لعنت فرمائی اور آپe
نوحہ کرنے سے منع کرتے تھے۔ (نسائی، مشکوٰۃ)
سیدنا
عبداللہ بن حنظلہt سے روایت ہے کہ رسول اللہe
نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو کوئی آدمی کھاتا ہے جبکہ وہ جانتا
ہے، چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔ (احمد، دارقطنی، بیہقی، مشکوٰۃ)
سود کیا ہے اور اس کی تحقیق ضروری ہے:
لیکن
کیا چیز سود ہے اور کیا نہیں اس کا جائزہ قرآن شریف اور احادیث کی روشنی میں لینا
ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے ایمان والو! ان چیزوں کو حرام مت ٹھہرائو
جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے اور حد سے مت بڑھو، اللہ تعالیٰ حد سے
بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (المائدہ: ۸۷)
خاص
طور پر جس معاملہ کی وعید بہت سخت ہو تو اس کا باریک بینی سے جائزہ لینا اور ضروری
ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس میں تھوڑی سی کوتاہی بہت بڑے نقصان کا باعث ہو سکتی ہے۔
قرآن اور حدیث کی طرف رجوع:
کسی
معاملہ کی حقیقت کو جاننے کے لیے سب سے پہلے قرآن شریف سے رجوع ہو گا اور اگر قرآن
میں اس کا حل نہ مل سکے تو پھر حدیث نبوی کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ یہی اصول اسلامی
فقہ کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اور جو اللہ کے
احکام کے مطابق نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو ایسے لوگ کافر ہیں۔‘‘ (المائدہ:
۴۴)
’’اور جو لوگ اللہ
کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو ایسے لوگ ظالم ہیں۔‘‘ (المائدہ: ۴۵)
’’اور جو اللہ کے
نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو وہی نافرمان ہیں۔‘‘ (المائدہ: ۴۷)
’’ہم نے آپ پر
مبنی برحق کتاب نازل کی ہے جو اس سے پہلے کتاب کی تصدیق کرتی ہے اور اس کی جامع اور
نگران بھی ہے۔ لہٰذا ان کے فیصلے اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق کیجئے۔ آپ کے پاس
حق آ چکا ہے تو ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلئے۔ (المائدہ: ۴۸)
اس
کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا سب سے اہم اور پہلا منبع معاملات سمجھنے کا قرآن کریم ہے
اگر ہم اس کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے تو ہمارا شمار بھی کافروں، ظالموں اور نافرمانوں
میں ہوگا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے فرمان اور نبی کریمe کی احادیث مبارکہ کی روشنی
میں ہمیں سود کی حقیقت کا جائزہ لینا چاہیے۔
انسان کی زندگی کا مقصد اور اس کی ضرورت:
سود
کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم قرآن اور حدیث کی روشنی میں انسان کی
زندگی کا مقصد اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے جو اس کی ضرورت ہے اس کا ذکر کریں‘
اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کو زندہ رکھنے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے
اس کی بھی ذمہ داری لی اور ایسا انتظام فرمایا کہ ہر جاندار کو روزی میسر ہو۔ انسان
سے بھی کہا گیا کہ ہم نے تجھے پیدا کیا ہے اور تمہاری روزی بھی ہمارے ذمہ ہے۔ فرمایا:
’’اللہ ہر چیز کا
پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہر چیز کا نگران ہے۔‘‘ (الزمر: ۶۲)
’’اور بہت سے جانور اپنا رزق اٹھائے نہیں
پھرتے، اللہ ہی ان کو روزی دیتا ہے اور تم کو بھی اور وہ سننے والا اور جاننے والا
ہے۔‘‘ (العنکبوت: ۶۰)
’’اللہ ہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔‘‘
(الجمعہ: ۱۱)
انسان
کی روزی وہ اشیاء ہیں جن کو استعمال کر کے وہ زندہ رہ سکے۔ اس میں سب سے پہلے ہوا ہے
جس کو ہر جگہ عام کر رکھا ہے پھر پانی ہے جو سمندر، دریا، بارش وغیرہ کی مختلف شکلوں
میں عام دستیاب ہے۔ پھر خوراک ہے جو کھا کر انسان زندہ رہتا ہے اور یہ سب سے اہم ضرورت
ہے۔ اس کے علاوہ انسان کو ستر ڈھانپنے، گرمی، سردی سے بچنے کیلئے لباس اور بارش، دھوپ
وغیرہ سے بچنے کیلئے چھت یعنی مکان کی ضرورت ہے۔ اگر یہ چیزیں انسان کے پاس ہوں تو
وہ زندہ رہ سکتا ہے لیکن خالی زندہ رہنا اور مر جانا اس کی زندگی کا مقصد نہیں ہے۔
جس نے اس کو پیدا کیا اسی نے بتایا:
’’میں نے جنوں اور
انسانوں کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ (الذاریات: ۵۶)
آگے فرمایا:
’’اور میں ان سے رزق نہیں چاہتا اور نہ ہی یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ (الذاریات:
۵۷)
اصل
مقصود اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے نہ کہ دنیا کی اشیاء ضرورت سے زیادہ جمع کرنا اور اپنی
خواہشات کو پورا کرنا جو کہ اس دنیا میں کبھی پوری نہیں ہونگی۔ کیونکہ دنیا میں اللہ
تعالیٰ نے ضرورت پوری کرنے کا ذمہ لیا ہے اور خواہشات کو پورا کرنے کا وعدہ جنت کی
زندگی میں کیا ہے اور یہی امتحان ہے جو انسان کو پاس کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان
ہے:
’’موت اور حیات
کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے؟‘‘ (الملک:
۲)
اچھے
اعمال سے مراد اللہ کی عبادت اور اللہ کی مرضی پر چلنا ہے۔
مال کا امتحان:
اللہ
تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’تمہارا مال اور
تمہاری اولاد تو آزمائش ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا اجر ہے۔‘‘ (التغابن: ۱۵)
اللہ
تعالیٰ نے امتحان لینے کیلئے کسی کو ضرورت سے زیادہ مال دے کر غنی کر دیا اور کسی کو
کم دیا اور اسے فقیر بنا دیا۔ مال والے کو حکم ہوا کہ جو ضرورت سے زیادہ ہے وہ اسے
دو جس کی ضرورت پوری نہیں ہو رہی اور اس عمل کا اسے اپنے پاس سے اجر دینے کا وعدہ فرمایا۔
غنی کے مال میں فقیر کا حق زکوٰۃ کی شکل میں رکھ دیا اور جو غنی مال کو جمع کرتا ہے
اور فقیر کو نہیں دیتا تو اس کو سخت وعید سے خبردار کیا۔ فرمایا:
’’اس کے لئے ہلاکت
ہے جو مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اس کا مال
ہمیشہ اس کے پاس رہے گا۔ ہر گز نہیں، وہ ضرور توڑ پھوڑ والی آگ میں ڈالا جائے گا۔‘‘
(الھمزہ: ۳-۴)
’’اور (مشرکوں کیلئے ہلاکت ہے) جو زکوٰۃ
ادا نہیں کرتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں۔‘‘ (حم سجدہ: ۷)
اللہ
تعالیٰ نے اپنے کلام میں ایمان کے بعد سب سے زیادہ انفاق فی سبیل اللہ کی تاکید فرمائی
ہے جہاں نماز کا ذکر آیا، تقریباً ساتھ ہی زکوٰۃ کا بھی ذکر ہوا۔ اس کے علاوہ بہت
ساری جگہوں پر صرف اللہ کی راہ میں خرچ پر زور دیا، فرمایا:
’’آپ سے پوچھتے
ہیں کہ کون سا مال خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجئے! جو ضرورت سے زیادہ ہو۔‘‘ (البقرہ: ۲۱۹)
ایک
اور جگہ فرمایا:
’’تم کبھی نیکی
حاصل نہ کر سکو گے جب تک ان چیزوں میں سے جو تمہیں عزیز ہیں (اللہ کی راہ میں) خرچ
نہ کرو۔‘‘ (آل عمران: ۹۲)
اور
اگر کوئی غنی کسی فقیر کو مطلقاً نہ دے تو ادھار ہی دے دے یہ قرض حسنہ ہو گا اور اس
کو اللہ تعالیٰ نے بہت اجر والا عمل بتایا ہے اور فرمایا:
’’جو لوگ صدقہ کرنے
والے ہیں، مرد بھی اور عورتیں بھی اور اللہ تعالیٰ کو قرض دینے والے ان کو دوگنا ادا
کیا جائے گا اور ان کیلئے عزت کا صلہ ہے۔‘‘ (الحدید:۱۸)
اور
اس قرض پر اگر کوئی غنی، فقیر سے اصل رقم سے زیادہ لیتا ہے تو اس کو سود کہا اور اس
پر بہت سخت وعید سے آگاہ کیا۔
سیاق و سباق کی اہمیت:
کسی
اصطلاح کا صحیح مطلب سمجھنے کیلئے اس کے سیاق و سباق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ قرآن
کریم میں سود کا ذکر جن آیات میں تفصیل سے آیا ہے اس سے قبل 14
آیات ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کی تاکید و تفصیل پر مشتمل ہیں۔ اس
طرح انفاق فی سبیل اللہ اور سود کے بارے میں ایک ساتھ سورہ البقرہ کے پورے دو رکوع
(۲۱
آیات) نازل فرمائی ہیں جن سے یہ بات
واضح ہو جاتی ہے کہ سود صدقات کی ضد ہے۔ یعنی اگر کسی کو مال دیا جائے تو صدقہ بن جائے
اور اگر اس سے (قرض پر زیادہ) مال لیا جائے تو سود ہو جائے۔ ان آیات کا مفہوم/ ترجمہ
کچھ یوں ہے:
’’جو لوگ اللہ تعالیٰ
کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور
ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالیٰ
کشادگی والا اور علم والا ہے۔ (۲۶۱) جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے
ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں اور نہ ایذا دیتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب
کے پاس ہے۔ ان پر نہ کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہونگے۔ (۲۶۲) نرم بات کہنا اور
معاف کر دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذا رسانی ہو اور اللہ تعالیٰ بے نیاز
اور بردبار ہے۔ (۲۶۳) اے
ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ
شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کیلئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ
قیامت پر۔ اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار
بارش برسے اور وہ اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے۔ ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے
کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالیٰ کافروں کی قوم کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔
(۲۶۴) ان
لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین
کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو اور زور دار بارش اس پر برسے
اور وہ اپنا پھل دوگنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور
اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ (۲۶۵) کیا تم میں سے کوئی بھی یہ چاہتا ہے کہ
اس کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس میں نہریں بہہ رہی ہوں اور ہر قسم کے پھل موجود
ہوں۔ اس شخص کا بڑھاپا آ گیا ہو، اس کے ننھے ننھے بچے بھی ہوں اور اچانک باغ کو بگولا
لگ جائے جس میں آگ بھی ہو پس وہ باغ جل جائے۔ اسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں بیان
کرتا ہے تا کہ تم غوروفکر کرو۔ (۲۶۶) اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں
سے اور زمین میں سے تمہارے لئے نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو۔ ان میں سے بری چیزوں
کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا جسے تم خود لینے والے نہیں ہو۔ ہاں اگر آنکھیں بند کر
لو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بے پروا اور خوبیوں والا ہے۔ (۲۶۷) شیطان تمہیں فقیری
سے دھمکاتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ تم سے بخشش اور فضل کا
وعدہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ وسعت والا اور علم والا ہے۔ (۲۶۸) وہ جسے چاہے حکمت
اور دانائی دیتا ہے اور جو شخص حکمت اور سمجھ دیا جائے وہ بہت ساری بھلائی دیا گیا
اور نصیحت صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں۔ (۲۶۹) تم جتنا کچھ خرچ
کرو یعنی خیرات اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے اور ظالموں کا
کوئی مددگار نہیں۔ (۲۷۰) اگر
تم صدقے خیرات کو ظاہر کرو تو بھی اچھا ہے اور اگر تم اس کو پوشیدہ مسکینوں کو دو تو
یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور اللہ تعالیٰ
تمہارے تمام اعمال کی خبر رکھنے والا ہے۔ (۲۷۱) انہیں ہدایت پر
لاکھڑا کرنا تیرے ذمہ نہیں بلکہ ہدایت اللہ تعالیٰ دیتا ہے‘ جسے چاہتا ہے اور تم جو
بھی چیز اللہ کی راہ میں دو گے اس کا فائدہ خود پائو گے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی
کی طلب کے لئے ہی خرچ کرنا چاہیے۔ تم جو کچھ مال خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ دیا
جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا۔ (۲۷۲) صدقات کے مستحق
صرف وہ غرباء ہیں جو اللہ کی راہ میں روک دئے گئے جو ملک میں چل پھر نہیں سکتے۔ نادان
لوگ ان کو سوال نہ کرنے کی وجہ سے مال دار خیال کرتے ہیں۔ آپ ان کے چہرے دیکھ کر قیافہ
سے انہیں پہچان لیں گے۔ وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے، تم جو کچھ مال خرچ کرو
تو اللہ تعالیٰ اس کا جاننے والا ہے۔ (۲۷۳) جو لوگ اپنے مالوں
کو رات دن چھپے اور کھلے خرچ کرتے ہیں ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے۔ نہ انہیں
خوف ہے نہ غمگینی۔ (۲۷۴) جو
لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہ کھڑے ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان
چھو کر خبطی بنا دے۔ یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود کی طرح ہے حالانکہ
اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام۔ جو شخص اپنے پاس آئی ہوئی اللہ
تعالیٰ کی نصیحت سن کر رک گیا اس کے لئے وہ ہے جو گزرا اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ
کی طرف ہے اور جو پھر دوبارہ لوٹا وہ جہنمی ہے‘ ایسے لوگ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ (۲۷۵) اللہ تعالیٰ سود
کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے اور گنہگار سے محبت
نہیں کرتا۔ (۲۷۶) بیشک
جو لوگ ایمان کے ساتھ نیک کام کرتے ہیں، نماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں،
ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے۔ ان پر نہ تو کوئی خوف ہے نہ اداسی اور نہ غم۔ (۲۷۷) اے ایمان والو!
اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ (۲۷۸) اور اگر ایسا نہیں
کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسولؐ سے لڑنے کے لئے تیار ہو جائو۔ ہاں اگر توبہ
کر لو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے۔ نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ (۲۷۹) اور اگر کوئی تنگی
والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دو اور اگر صدقہ کر دو تو تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے۔
اگر تم میں علم ہے (۲۸۰) اس
دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جائو گے اور ہر شخص کو اس کے اعمال
کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (۲۸۱)
صدقہ کی اہمیت:
آیات
(۲۶۱
تا ۲۷۴) میں صدقہ کی ترغیب،
حقیقت اور فضائل جس تفصیل سے بیان ہوئے ہیں کسی اور جگہ اس کی مثال نہیں ملتی اور جو
لوگ صدقات کو روک کر محتاجوں کو قرض دے کر اس پر زیادتی (سود) لیتے ہیں، اس کی وعید
بھی بعد کی آیات میں کھول کر بیان کی گئی ہے کیونکہ سود کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے
صدقات کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے، اس لئے صدقات کی وضاحت تفصیل سے بیان فرمائی۔ انسان
اپنا مال مختلف اغراض کے لئے خرچ کرتا ہے اگر مال صدقہ کر کے اللہ سے اجر لینا چاہتا
ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل حدود کے اندر رہ کر مال خرچ کرے، ورنہ اس کا
خرچ صدقہ شمار نہیں ہوگا۔
1
’’مال اللہ تعالیٰ
کی رضا حاصل کرنے کیلئے خرچ کیا جائے، کوئی اور مقصد نہ ہو۔‘‘ (آیت: ۲۷۲)
2
’’اس میں ریا کاری
نہ ہو۔‘‘ (۲۶۴)
3
’’مال ظاہر کر کے
بھی دے سکتے ہو لیکن اگر چھپا کر دو تو وہ زیادہ بہتر ہے۔‘‘ (۲۷۱)
4
’’مال پاکیزہ اور
عمدہ ہونا چاہیے۔‘‘ (۲۶۷)
5
’’اس خرچ پر نہ احسان
جتلایا جائے نہ ایذا دی جائے۔‘‘ (۲۶۲)
6
’’یہ مال فقراء پر
خرچ کیا جائے۔‘‘( ۲۷۳)
صدقات
جن لوگوں پر لگتے ہیں ان کی تفصیل سورۂ التوبہ (۶۰) میں بھی آئی ہے۔
ان میں فقیر، مساکین، صدقات اکٹھا کرنے والے لوگ، تالیف قلب، غلام آزاد کرنے میں،
قرض دار، اللہ کی راہ میں اور مسافر ہیں۔ ان تمام مدات میں جو چیز مشترک ہے وہ یہ کہ
ان لوگوں کو اگر مال نہ دیا جائے تو ان کی گزر اوقات مشکل ہو جائے۔ زندہ رہنے کیلئے
سب سے زیادہ ضروری چیز خوراک ہے جس کی ذمہ داری خود اللہ نے لے رکھی ہے۔ اسی لئے ذریعہ
کے طور پر جن کو اس نے زیادہ دیا ہے ان پر یہ بات فرض کر دی کہ تم اس رزق میں سے جو
میں نے تمہیں دیا ہے ان لوگوں پر خرچ کرو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اور نماز پڑھا
کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ کے آگے جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو۔‘‘ (البقرہ:
۴۳)
پھر
فرمایا:
’’اور نماز پڑھتے
رہو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور پیغمبر کے فرمان پر چلتے رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔
(النور: ۵۶)
ایک
اور جگہ فرمایا:
’’جو مال ہم نے
تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرو اس سے قبل کہ تم میں سے کسی کی موت آ جائے اور اس
وقت کہنے لگے، میرے پروردگار! تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت کیوں نہ دی تا کہ میں خیرات
کر لیتا اور نیک لوگوں میں داخل ہو جاتا۔‘‘ (المنافقون: ۱۰)
متقی
لوگوں کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’جو ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
(البقرہ: ۳)
فقیر کو کھانا کھلانا:
انفاق
فی سبیل اللہ کے ذیل میں جس بات پر بہت زور دیا گیا وہ ہے محتاج کو کھانا کھلانا اور
نہ کھلانے پر وعید قرآن پاک میں بہت جگہوں پر آئی ہے۔ فرمایا:
’’اور جب انہیں
کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو تمہیں رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرو تو کافر ایمان والوں
کو کہتے ہیں کہ کیا ہم اسے کھلائیں جسے اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا۔ تم تو کھلی
گمراہی میں مبتلا ہو۔‘‘ (یٰسین: ۴۷)
اس
آیت سے پتا چلتا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ میں سب سے اہم کام غریب کو کھانا کھلانا
ہے کیونکہ آیت کے پہلے حصہ میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا حکم ہے تو کافروں نے
خود بخود کہہ دیا کہ ہم غریب کو کھانا کیوں کھلائیں؟ (یعنی کیوں اللہ کے راستے میں
خرچ کریں) اسی طرح جو لوگ محتاج کو کھانا کھلاتے ہیں ان لوگوں کی تعریف اور اجر کا
بیان بہت خوبصورت انداز میں سورہ الدھر میں فرمایا:
’’بے شک نیک لوگ
شراب کے ایسے جام پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی۔ وہ ایک چشمہ ہے جس سے اللہ
کے بندے پئیں گے اور جہاں چاہیں گے اس کی شاخیں نکالیں گے (یہ وہ لوگ ہونگے) جو اپنی
نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر سو پھیلی ہوئی ہو گی (اور وہ)
خود کھانے کی حاجت کے باوجود مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور انہیں کہتے
ہیں کہ ہم تمہیں صرف اللہ کی رضا کی خاطر کھلاتے ہیں، ہم تم سے نہ تو کوئی بدلہ چاہتے
ہیں نہ شکریہ۔‘‘ (الدھر: ۵-۹)
حدیث
شریف کا مفہوم ہے‘ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپؐ سے پوچھا کہ
کون سا اسلام اچھا ہے؟ آپe نے فرمایا: ’’کھانا کھلانا
اور سلام کہنا جسے تم جانتے ہو اور جسے تم نہیں جانتے۔‘‘ (صحیح بخاری)
جو
لوگ نہ خود محتاج کو کھانا کھلاتے ہیں، نہ اس کی ترغیب دیتے ہیں ان کے لئے سخت وعید
بھی سنائی‘ فرمایا:
’’بھلا آپ نے اس
شخص کو دیکھا جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے، وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین
کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔‘‘ (الماعون: ۱-۳)
اس
کے علاوہ قسم کے پورا نہ کرنے اور روزہ نہ رکھنے کا کفارہ بھی مسکین کو کھانا کھلانا
رکھا۔ قربانی کے جانور میں بھی مسکین کو کھلانے کا حکم دیا اور حقیقت یہ ہے کہ انسان
کی بنیادی ضرورت خوراک ہے جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ صنعتی انقلاب سے پہلے صدیوں
پر محیط معاشرے کی بنیاد زراعت پر تھی اور جس شخص کے پاس کھانے کے لئے غلہ ضرورت سے
زیادہ ہوتا تھا اسے امیر خیال کیا جاتا تھا اور جس کے پاس ضرورت سے کم غلہ ہوتا تھا
وہ غریب تصور کیا جاتا تھا۔ پنجابی کی کہاوت مشہور ہے کہ ’’کہ جس دے گھر دانے اس دے
کملے وی سیانے‘‘ یعنی جس کے گھر میں کھانے کو میسر تھا وہی امیر شخص تھا اور اس کے
گھر کے افراد بے عقل بھی ہوں تب بھی سمجھدار ہی شمار ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ انسان کو
کپڑا اور رہنے کی چھت میسر ہو جائے تو وہ سکون کی زندگی گزار سکتا ہے اور جس مقصد کے
لئے دنیا میں آیا ہے اسے پورا کر سکتا ہے۔
صدقہ کی غرض محتاج کی بنیادی ضروریات
کو پورا کرنا ہے:
انہیں
اغراض کے لئے جو انسان کی بنیادی ضرورت ہے اگرمحتاج کو دیا جائے گا توہ صدقہ کہلائے
گا۔ اگر ان اغراض سے ہٹ کر محتاج کو دیا جائے گا تو وہ صدقہ نہ ہوگا۔ مثلاً اگر کوئی
فقیر یہ کہتا ہے کہ مجھے شراب پینے کیلئے یا زنا کرنے کیلئے یا ڈاکہ مارنے کیلئے مال
چاہیے اور اگر کوئی دیتا ہے تو نہ صرف یہ صدقہ نہ ہوگا بلکہ اس کے جرم میں مدد کرنے
کی وجہ سے مجرم ٹھہرایا جائے گا۔ اللہ کا فرمان ہے کہ نیکی کے کام میں ایک دوسرے کی
مدد کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں نہ کرو۔ (المائدہ: ۲) اور اگر کسی کے
پاس ضرورت سے زیادہ مال ہو تو نہ صرف اس پر صدقہ نہیں لگے گا بلکہ اس کے لیے اللہ کا
فرمان ہے کہ ضرورت سے زیادہ مال صدقہ کر دے‘ فرمایا: ’’آپe سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی
راہ میں) کیا خرچ کریں؟ آپe فرما دیجئے کہ جو کچھ بھی ضرورت
سے زائد ہو۔ (البقرہ: ۲۱۹)
صدقہ
اور سود ایک دوسرے کی ضد:
اب
جبکہ قرآن پاک کی واضح آیات کی روشنی میں ہمیں پتا چل گیا کہ محتاج کو اس کی بنیادی
ضروریات (جن میں اہم ترین خوراک ہے) کے پورا کرنے کیلئے صرف اللہ کی رضا کی خاطر جس
میں کوئی اور غرض (ریا کاری وغیرہ) نہ ہو، پاکیزہ مال خرچ کرنے کو صدقہ کہا جائے گا
تو سود کی حقیقت کو سمجھنا آسان ہو گیا کیونکہ اللہ نے سود کو صدقہ کی ضد بتایا اور
یہ بات واضح طور پر سورۂ البقرہ میں فرمائی۔ اس سورہ کی آیت نمبر ۲۷۴ میں
جہاں صدقہ کرنے والوں کیلئے بہترین اجر کا وعدہ فرمایا ساتھ ہی دوسری آیت ۲۷۵ میں
سود کھانے والوں کیلئے سخت وعید سنائی۔ اس سے اگلی آیت نمبر ۲۷۶ میں
صاف صاف بتا دیا کہ ’’اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔‘‘ (البقرہ:
۲۷۶)
اسی
طرح قرآن پاک میں دوسری جگہوں پر جہاں بھی سود کا ذکر فرمایا:ـ
ساتھ ہی اس کی ضد زکوٰۃ/ صدقات کا ذکر کیا۔ سورۂ الروم میں فرمایا:
’’اور جو تم سود
دیتے ہو تا کہ لوگوں کا مال بڑھے تو ایسا مال اللہ کے یہاں نہیں بڑھتا اور جو تم اللہ
کی رضا چاہتے ہوئے زکوٰۃ دیتے ہو تو ایسے ہی لوگ اپنے مال کو دگنا چوگنا کر رہے ہیں۔
(الروم: ۳۹)
اسی
طرح سورۂ آل عمران میں فرمایا:
’’اے ایمان والو!
سود مت کھائو، دوگنا چوگنا کر کے اور اللہ سے ڈرتے رہو (واتقو اللہ) تا کہ تم آخرت
میں نجات پا سکو۔ (۱۳۰) اور
اس آگ سے بچو جو کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے۔ (۱۳۱) اور اللہ اور اس
کے رسولؐ کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔ (۱۳۲) اور اپنے رب کی
بخشش اور جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے اور ان متقی لوگوں
کیلئے (للمتقین) تیار کی گئی ہے۔ (۱۳۳) جو خوشحالی اور تنگدستی میں (اللہ کی
راہ میں) خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں اور اللہ
ایسے ہی نیک لوگوں سے محبت رکھتا ہے۔ (۱۳۴)۔ ‘‘
یہاں
آیت نمبر (۱۳۰) میں
فرمایا کہ سود مت کھائو اور اللہ سے ڈرو اور آیت نمبر (۱۳۴) میں اللہ سے ڈرنے
والوں کی سب سے پہلی صفت اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بتائی۔ اگر کوئی غنی محتاج کو صدقہ
نہیں دیتا یعنی مطلقاً (ناقابل واپسی) مال نہیں دیتا تو اس کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے
اسے قرض دے۔ یعنی مال کی واپسی کے وعدہ پر مال دے، اس طرح کے قرض کو قرض حسنہ کہا گیا
اور اللہ تعالیٰ نے اس کا بہت اجر رکھا ہے۔قرض حسنہ دینے والے کو اپنے اوپر قرض قرار
دیا ہے فرمایا:
’’اگر تم اللہ کو
قرض حسنہ دو گے تو وہ تم کو اس کا دگنا دے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور اللہ
قدر شناس اور بردبار ہے۔‘‘ (التغابن: ۱۷)
ایک
اور جگہ فرمایا:
’’کون ہے جو اللہ
کو قرض حسنہ دے پھر اللہ اسے اس کے لئے بڑھاتا چلا جائے اور اسے عمدہ اجر عطا کرے۔
(الحدید:۱۱)
اس
قرض پر جو بڑھوتری لیتا ہے وہ سود ہوگا۔ لہٰذا سود کی تعریف قرآن پاک کی آیات کی
روشنی میں یہ ہو گی: ’’کسی محتاج، صدقات کے حقدار کو اس کی بنیادی ضرورت پورا کرنے
کیلئے جو قرض دیا جائے اس پر اصل سے زیادہ لینا سود ہے۔‘‘ یعنی اگر کسی معاملہ میں
یہ شرائط ہوں تو وہ سودی معاملہ ہوگا۔ قرض لینے والے کی مالی حیثیت یعنی محتاج ہو کیونکہ
صدقات جو سود کی ضد ہیں محتاج پر ہی لگتے ہیں۔ (البقرہ: ۲۷۳)
جس
غرض کیلئے قرض لے وہ غرض بنیادی ضرورت پورا کرنا ہو کیونکہ جس کے پاس ضرورت سے زیادہ
ہے وہ صدقہ لینے کا حقدار نہیں بلکہ اسے خود صدقہ دینا چاہیے۔ (البقرہ: ۲۱۹)
اور
اصل رقم پر اضافہ ہو، اللہ کا فرمان ہے کہ اگر تم توبہ کر لو تو اصل مال ہی تمہارا
ہے۔ (البقرہ: ۲۷۹)
یہ
ہے سود کی تعریف جو قرآن بتلا رہا ہے اور یہ ہیں شرائط اتنی عام فہم کہ صحابہ کرام
کو اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کہ مزید وضاحت کیلئے سوال کریں۔ اس تعریف سے ہٹ
کر اگر ہم کوئی تعریف کریں گے تو اللہ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کریں گے اور جو اللہ
کی حدود سے تجاوز کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا: ’’اے ایمان والو!
تم ان چیزوں کو حرام مٹ ٹھہرائو جن کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے اور حد سے مت
بڑھو۔ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (المائدہ: ۸۷)
اور
ایک دوسری جگہ پر فرمایا: جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اللہ کی حدود
سے آگے نکل جائے اللہ اسے جہنم میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اسے رسوا
کرنے والا عذاب ہوگا۔ (النساء: ۱۴)
اور
اپنے نبی سے بھی ہماری نصیحت کیلئے فرمایا: ’’اے نبی! آپ اس چیز کو کیوں حرام قرار
دیتے ہیں جسے اللہ نے حلال کیا۔ (التحریم: ۱)
پس
سود کی تعریف میں قرآن کی حدود معیار ہیں جو معاملہ ان حدود پر منطبق ہوگا وہ ہی سود
ہوگا اور اگر ہم نے اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کیا تو ہمارا شمار بھی
کافروں، ظالموں اور نافرمانوں میں ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل تورات اور اہل
انجیل کے بارے میں فرمایا: ’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں
تو وہی لوگ کافر ہیں۔ (المائدہ: ۴۴)، ظالم ہیں (المائدہ: ۴۵)، نافرمان ہیں۔
(المائدہ: ۴۶) ………(جاری)
No comments:
Post a Comment