خطابت کے شہسوار ... علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید
تحریر: جناب پروفیسر
عبدالعظیم جانباز (سیالکوٹ)
امت
محمدیہq میں بے شمار ایسی شخصیات پیدا
ہوئیں جنہوں نے اپنے بلند کردار، اخلاص وللہیت، جہد مسلسل اور علم وعمل سے تاریخ کے
دھاروں کا رُخ موڑ دیا۔ افراد کو بلند کردار بنانے کے لیے انہیں معاشرے کی خرابیوں
کو دور کرنا پڑا۔ اسلام کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی کردار
کو بلند اور انسانیت کو تکمیل وترقی کا درس دیتا ہے، کیونکہ افراد کے کردار ہی میں
اقوام کی ترقی اور انسان کی فلاح وبہبود مضمر ہے۔
مسلمانوں
کے دورِ انحطاط میں ہمیشہ ایسی بلند کردار شخصیات پیدا ہوتی رہی ہیں جنہوں نے امت کو
پستی سے نکال کر بلندی کی طرف گامزن کیا۔ حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ کا شمار
بھی ایسی ہی مقبول ترین شخصیتوں میں ہوتا ہے۔ حضرت علامہ شہیدؒ نے نہایت مختصر عرصے
میں ایسے عظیم کارنامے سر انجام دئیے جو بڑے بڑے ادارے طویل مدت میں بھی سر انجام نہیں
دے پاتے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت علامہ صاحب کو عظیم صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ بیک وقت
ماہر ادیب، بہترین صحافی، پختہ کار ماہر تعلیم، عظیم مبلغ، شُعلہ بیان خطیب، مدبر سیاست
دان اور مخلص مجاہد اسلام تھے۔ عام طور پر لوگ کسی ایک فن میں ہی کمال حاصل کرتے ہیں
مگر علامہ شہیدؒ کا معاملہ ہی کچھ اور تھا ’’ہر فن مولا‘‘ کا لفظ ان پر خوب صادق آتا
تھا۔ وہ مذکورہ تمام میدانوں کے عظیم شہ سوار تھے، یہ محض دعویٰ یا لفاظی نہیں بلکہ
آپ کے کارہائے نمایاں اس بات کے واضح ثبوت ہیں۔ آپ نے ان تمام میدانوں میں قائدانہ
کردار ادا کیا، مگر سب سے زیادہ وقت تحریک ختم نبوت کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ انہوں
نے ملک وبیرون ملک قادیانیوں کے ناپاک عزائم کا تعاقب کیا، ختم نبوت کی تحریک کو بین
الاقوامی سطح پر اُجاگر کرنے میں آپ کا بڑا کردار ہے۔ آپ نے اس عظیم کام کے لیے کئی
مرتبہ بیرون ممالک کا سفر کیا اور لوگوں کو قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں سے آگاہ کیا۔
آپ انتہائی بالغ نظر اور دور بین نگاہوں کے حامل انسان تھے۔
علامہ
احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ کی شخصیت ملکی وبین الاقوامی طور پر کسی تعارف کی محتاج نہیں۔
عوامی حلقوں میں وہ بلند پایہ، ممتاز اور منفرد خطیب کی حیثیت سے معروف تھے۔ ان کی
خطابت کا جاہ وحشم، رعب ودبدبہ، ولولہ، ہمہمہ اور طنطنہ ہر مخالف وموافق سے خراج تحسین
وصول کر چکا تھا۔ ان کی آواز کی گھن گرج سے عوامی اجتماعات میں دیدنی سی کیفیت ہوتی
تھی۔ علمی حلقوں میں آپ ایک قد آور (دینی وسیاسی) علمی شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ اردو
کے ساتھ ساتھ عربی کے ایک ممتاز اور قادر الکلام متکلم، ادیب اور عالمِ دین تھے۔ انہیں
علم دین کے ہر شعبہ میں دسترس حاصل تھی، بلکہ عربی زبان میں آپ کو تقریر اور گفتگو
کرتے ہوئے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا کہ آپ کی مادری زبان عربی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ
نے مختلف موضوعات پر تحقیق کر کے جو کتب شائع کیں، عرب ممالک میں ان کی بہت پذیرائی
ہوئی اور انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ آپ کی ان کتب کو دیکھ کر آدمی حیران رہ جاتاہے
کہ ایک عجمی آدمی کیونکر عربی زبان میں ایسے علمی جواہر پارے اور تحقیقی سرمایہ مہیا
کر سکتا ہے۔ آپ نے باطل فرقوں کے عقائد اور نظریات پر جس تحقیقات اور واقعاتی طور
پر روشنی ڈالی وہ قابل تحسین ہے۔
سیالکوٹ
کی یہ زرخیز زمین جس نے ہزاروں مردِ قلندر پیدا کیے ہیں، دینِ اسلام کے عبقری رجال
کی لہلہاتی فصل اور عظیم الشان کارناموں وکرداروں اور لافانی خوشبوئے اخلاص کی مہک
سے بھری پڑی ہے، جن کی بنا پر یہ رجال کار تا قیامت ذکر خیر کے زمزموں میں زندہ وجاوید
رہیں گے۔ جو شاہراہِ حیات کے مسافروں کے لیے روشن قندیل کا کام دیتے رہیں گے، جو حیاتِ
فانی کی پُر اسرار وپُر پیچ وادیوں میں گم گشتہ راہوں کے لیے تعینِ منزل کا کام دیتے
رہیں گے۔ آنے والی نسلیں ان کے افکار کو سامنے رکھ کر اپنی زندگیاں سنواریں گی، زندہ
قومیں ان کے کردار پر فخر کرتی رہیں گی۔ ان ہی عبقری شخصیات میں سے علمائے اہل حدیث
کے محب، مدینہ یونیورسٹی کے فرزند ارجمند، استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد
گوندلویؒ، شیخ الحدیث مولانا ابوالبرکات احمدؒ، فضیلۃ الشیخ علامہ ناصر الدین البانیؒ،
الشیخ محمد امین الشنقیطیؒ، فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن بازؒ کے شاگردِ خاص خطابت کے
شہسوار، ختمِ نبوت کے بہادر، دلیر، مخلص، نڈر اور عظیم مجاہد شہید ملت علامہ احسان
الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ وارثانِ نبیe کی محبت ان کی حیاتِ مستعار
کا عزیز ترین سرمایہ تھا، اسی وابستگی نے ان کے ارادوں کو توانائی اور حوصلوں کو تازگی
بخشی۔ ختم نبوت جو اسلام کی بنیاد ہے، اس اساس وبنیاد کے تحفظ کے لیے جنہوں نے اپنا
تن من دھن قربان کر دیا، قلعہ اسلام کی حفاظت کرتے کرتے اپنی قیمتی اور عزیز ترین متاع
جان تک اس کے لیے نذر کر دی اور اس صحرائے وحشت وغم اور دشتِ جنون کو اپنے لہو سے لالہ
زار وگل زار بنا کر چل دئیے۔
جہاں
تک حضرت علامہ شہید رحمۃ اللہ علیہ کی خطابت کا تعلق ہے بقول آغاز شورش کاشمیری مرحوم:
’’خطابت کا ایک حقیقی جوہر دلیری ہے، خطیب یا
مقرر میں جرأت نہ ہو تو خیالات کا گلا خود بخود گھٹ جاتا ہے، دلیری ہو تو مخالف مجمع
میں رُکی ہوئی طبیعت خود بخود کھل جاتی ہے، الفاظ خود بخود متعاقب چلے آتے ہیں، یوں
معلوم ہوتا ہے جیسے گلے کی گراریاں کھل گئی ہوں، جس تقریر سے کام ودُہن خود لذت محسوس
کریں، وہ خود بخود لوگوں کی سماعتوں میں اترتی ہے۔‘‘
بعینہٖ
یہی کیفیت حضرت علامہ شہید رحمۃ اللہ علیہ کی تھی، جب وہ خطابت کے میدان میں اترتے
اور دِل کی آنچ شعلۂ گفتار میں ڈھلتی تو ہزاروں کا مجمع دم بخود دکھائی دیتا، مخالفین
کا ہجوم ان کی خطابت کے ریلے میں بہہ جاتا، کیوں کہ خطابت ان کے لیے قدرت کا عطیہ تھی۔
ان کے لیے ہر موضوع گویا جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی تھا۔ مذہب پر بولتے تو عبقری
زبان محسوس ہوتے، مظاہروں اور جلسوں میں بولتے تو سراپا شعلۂ گفتار بن جاتے، ان کے
الفاظ میں دل سلگتا اور خون بولتا محسوس ہوتا، ایسی مفکرانہ ومدبرانہ گفتگو کرتے کہ
اس سے کئی مضامین اور کتابیں لکھی جا سکتیں۔
ان
کی خطابت کے اجزائے ترکیبی میں دلیری، خود داری، شعلہ بیانی اور اخلاصِ عمل کا ولولہ
جوش مارتا، ضرب ید اللّٰہی کا بانکپن ظاہر ہوتا، ان کے جملے دریائی لہروں کی مانند
رواں دواں ہوتے۔ جب وہ بولتے تو گویا وقت ٹھہر کر اور ہوائیں رک کر اور پرندے اپنی
آرام گاہوں میں بیٹھ کر سنتے تھے۔ جلسے اور جلوس میں شعلے کی طرح بھڑکتے اور رعد کی
طرح کڑکتے۔ آواز وانداز میں حسنِ فطرت اور وادیٔ سخن کا حسین امتزاج موجزن دکھائی
دیتا۔ ان میں للکار اور پکار دونوں تھے، اعتماد واعتقاد کے لہجے میں گونج کے مقرر تھے،
بڑی خوبی ان کا برجستہ پن تھا، خواہ وہ عمومی تقاریر ہوں، معلوماتی ہوں، سیاسی ہوں،
ادبی ہوں، رسمی ہوں، مذہبی ہوں۔ وہ تربیتی وفکری تقریر کے میدان میں ہوں یا فنی تقاریر
کی دشوار گھاٹیوں میں، جب وہ بولتے تو بولنے کا حق ادا کر دیتے اور موتی رولتے نظر
آتے۔
غرض
یہ کہ ان میں ایک بہترین خطیب ومقرر کے تمام اوصاف پائے جاتے تھے خواہ زبان وبیان کے
نشیب وفراز ہوں یا اظہار واسلوب کی نزاکت کی پہچان، آواز وتلفظ کی نزہتوں سے بہرہ
مندی ہو یا تاریخ کے وسعت مطالعہ کا معاملہ، متنوع مضامین سے آشنائی ہو یا سلاست،
متانت، وقار، ظرافت اور اشارات ہوں یا صراحت وتمثیلات، استدلالی حقائق ہوں یا تجربہ
ودلائل کے انبار…… کیونکہ سلاست کے بغیر قفل زدہ قلوب پر دستک دینا مشکل ہے، متانت
کے بغیر تقریر غیر مؤثر ہے، اشارات کے بغیر جذبۂ سامعین بیدار نہیں ہو پاتا، ظرافت
نہ ہو تو جیسے بے نمک کھانا، تمثیلات نہ ہوں تو خطابت بے وزن، استدلال نہ ہو تو خطابت
بے بنیاد، تجربہ نہ ہو تو خطابت جواں نہیں ہوتی، دلائل سے مزین نہ ہو تو بے معنی نظر
آتی ہے۔ خطابت کے یہ تمام جواہر واوصاف اس مردِ قلندر، مردِ مجاہد، شہید اسلام کی
خطابت میں پوری تابناکی کے ساتھ نمایاں تھے، لیکن افسوس کہ یہ خطیب بے بدل بھی ہم سے
چھین لیا گیا اور وہ مقامِ شہادت پر فائز ہو گیا، لیکن قاتلوں اور دشمنوں کو کون بتائے
کہ:
جسے
حقیر سمجھ کر تم نے بجھا دیا
وہی
دِیا جلے گا تو سحر ہو گی
علامہ
احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ کی موت وشہادت تنہا ایک عالمِ دین کی موت نہیں، ایک
مخلص مجاہد، بہترین منتظم، زبردست سیاست دان کی رحلت نہیں بلکہ پوری ایک نسل کی موت،
ایک مستقل دور کا اختتام ہے، ان کی رحلت علم وتحقیق کے ماتھے کا جھومر، تقریر وبیان
کے ماہر، ہمت واستقلال کے پہاڑ، امت مسلمہ کے لیے ناسور کی شکل اختیار کرنے والے فتنۂ
قادیانیت کے خلاف سیف بے نیام کی رحلت ہے۔ علامہ شہید نے 23 مارچ 1987ء
کے لاہور بم دھماکے سے کچھ عرصہ قبل جنت البیقع کے دامنِ شفقت میں دفن ہونا اللہ سے
مانگا تھا۔ بم دھماکے کے بعد حالات اس طرف موزوں ہوتے گئے، اسباب بنتے گئے، فاصلے مٹتے
گئے۔ سعودی عرب کے فرماں رواں کے دل میں اللہ تعالیٰ نے داعیہ ڈال دیا کہ میرے ایک
بندے نے مجھ سے جنت البقیع کا بسیرا مانگا، میں اسے دینا چاہتا ہوں۔ انہوں نے سعودی
عرب سے اسپیشل اپنا ایک جہاز بھیجا جس میں علامہ احسان الٰہی ظہیر کو لے جایا گیا اور
توحید وسنت کے مبلغ نے وہاں جا کر داعی اجل کو لبیک کہا‘ پھر وہی ہوا جو سب نے دیکھا
کہ دھماکہ لاہور میں اور قبر جنت البقیع میں۔
وہ
چاند طیبہ میں جا کے ڈوبا
جو
چاند میرے وطن سے نکلا
No comments:
Post a Comment