مفسر قرآن الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف a
تحریر: جناب مولانا
محمد بلال ربانی (سیالکوٹی)
زندگی
میں پہلی مرتبہ انتہائی خوشی اس وقت محسوس ہوئی کہ جب کسی مہربان نے قرآن مجید کی وہ
تفسیرمہیا کی جو سعودی حکومت کی جانب سے پاکستانی حجاج کرام میں تقسیم کی جاتی تھی۔
بین السطور تحریر کے وقت سے کوئی اٹھارہ سال پہلے ہم اس تفسیر کو بیش بہا خزانہ سمجھتے
تو تھے ہی ساتھ ہی ساتھ اس کے مفسر اور مترجم کے مقدر پر بھی رشک کیا کرتے ۔
یہ مضمون پڑھیں: پروفیسرحافظ ثناء اللہ خان رحمہ اللہ
شوق
دیداربھی پیدا ہوتا لیکن شومئی قسمت جانئے کہ یہ شوق پورا نہ ہوسکا‘ اس کی ایک وجہ
یہ بھی ہے کہ ممدوح ہماری نظر میں معروف عالم ہستی تھے اور ہم بڑے لوگوں کے رحمت کدوں
کے اصولوں سے نا آشنا۔ اس لیے یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اکثر عظمت کے میناروں کے سائے پر
ہی اکتفاء کرجاتے ہیں اور ان کے لمس اور دیدار سے محروم رہتے ہیں۔ واقفان حال کے مطابق
میرے ممدوح ایسے نہ تھے بلکہ عالمگیر شہرت کے باوجود سادگی اور ملنساری ان کی شخصیت
کا اہم وصف تھی۔ لیکن شاید غم روزگار کی مصروفیات ایسی ہیں کہ کم ہی فراغت کے لمحات
میسرآتے ہیں کہ بندہ کسی بزرگ کے عشرت کدے پر پہنچے اور ان کی دعائیں پائے۔ یہی بات
ہم سوچتے رہ گئے اور ہمارے ممدوح مفسر مکرم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ سانسیں
پوری کرکے ہمیشہ کے لیے اس جہان فانی سے منہ موڑ کر داربقاء جا پہنچے۔
ایسا
نہیں کہ ہم نے ان کو دیکھا نہیں‘ میڈیائی کمال ہے کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے ان
کے دیدار کا شرف حاصل ہے اور اس کے علاوہ حقیقت میں بھی ایک مجلس میں ان کے دیدار سے
فیضیاب ہوئے کہ جب وہ سیالکوٹ جناح کرکٹ سٹیڈیم سے قریب محمدی مسجد اہل حدیث میں ہونے
والی سہ شب یعنی تین راتوں کی کانفرنس اپنے انداز کی شہر سیالکوٹ میں ایک منفرد کانفرنس
ہوا کرتی تھی‘ پورے ملک سے خطباء بلوائے جاتے اور ان کے ساتھ علماء کرام کو بھی مدعو
کیا جاتا۔ اس کانفرنس کی خاص بات اس کے منتظمین حاجی نذیر مرحوم اور ان کے رفقاء کا
حسن انتظام ہر کسی کو داد تحسین دینے پر مجبور کرتا۔ اس کانفرنس کی خصوصیات میں سے
ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ مشہور علماء کرام کو اس کانفرنس میں مسند صدارت پیش کی جاتی
اور پھر ان صدور مجالس کے خطبات صدارت بھی کلیدی ہوا کرتے تھے۔ ایسی ہی انعقاد پذیر
کوئی کانفرنس تھی جس میں آپ تشریف لائے اور ایک نشست میں صدارتی خطاب فرمایا‘ اگرچہ
ہم اس کانفرنس کے سامعین میں سے تھے لیکن ان دنوں ہماری سماعت کی ترجیحات میں کچھ اور
شامل تھا اس لیے سامنے بیٹھ کران کاخطاب سنا مگر لوح دماغ پر اس کے اثرات محفوظ نہ
رکھ سکے اور وہ گردشِ ایام کے ساتھ ساتھ دماغ سے مندمل ہوگئے ۔
قد
و قامت انتہائی معتدل ، کسی تصنع اور بناوٹ سے آزاد کروشیے سے بنی جالی والی ٹوپی سرپر
سجائے ، کشادہ پیشانی ، چشمے کے پیچھے سے جھانکتے جہاں بان دیدے ، تیکھی ناک کے عین
نیچے ترشوائی ہوئی مونچھیں ، اور ان کے ساتھ تراش خراش سے محفوظ گھنی اور لمبی داڑھی
خوبصورت اور سادہ لباس‘ لکھنے پڑھنے اور ہمہ وقت تحقیق و تحریر میں مشغول کہ ایک زمانہ
گواہ۔ یہ تھے ہمارے ممدوح مفسر قرآن و شارح حدیث اور مصنف شہیر حضرت مولانا حافظ صلاح
الدین یوسف رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃـ
یہ مضمون پڑھیں: شیخالحدیث مولانا عبدالرشید راشد ہزاروی رحمہ اللہ
حضرت
اسحاق بھٹیa نے برصغیر کے اہل حدیث خدام
قرآن میں جناب حافظ صلاح الدین یوسفa کے سن پیدائش اور جائے پیدائش
کے متعلق لکھا ہے کہ ۱۹۴۵ء میں تقسیم ہند سے قبل ہندوستان کے صوبے
راجستھان کے علاقے جے پور میں ہوئی‘ آپ کے والد گرامی حافظ عبد الشکور اگرچہ معروف
معنوں میں عالم دین نہ تھے لیکن علماء کرام کے قدردان ضرور تھے۔ ان کے متعلق مولانا
محمد اسحاق بھٹیa دبستان حدیث میں لکھتے ہیں
کہ وہ فقہ حنفی پر نقد کی صورت میں لکھی جانے والی کتاب ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ کے مصنف مولانا
محمد یوسف جے پوری کے شاگرد تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے محترم استاذ کی محبت میں اپنے
نور نظر کا نام محمد یوسف تجویز کیا اور یہی محمد یوسف بعد ازاں صلاح الدین یوسف کے
نام سے معروف ہوئے اور خوب نام کمایا۔
مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللّٰہ
کے مطابق جے پور تقسیم کے وقت ہونے والے ہنگاموں سے برصغیر کے دیگر علاقوں کی نسبت
محفوظ مقام تھا اس لیے یہاں سے کم ہی لوگ مہاجر ہوکر تقسیم کے بعد ہندوستان اور پاکستان
کے درمیان کھینچی جانے والی لکیر کے اس پار پہنچے۔ حافظ عبد الشکوراور ان کے اہل خانہ
کی ہجرت کی داستان کچھ یوں بیان کی گئی ہے کہ حافظ عبد الشکور رحمہ اللّٰہ کا بڑا بیٹا
اپنے چند دوستوں کے ساتھ کھوکھراپارکے رستے پاکستان آیا‘ تھوڑے ہی عرصے بعد اس کی بیماری
کی اطلاع حافظ عبد الشکور صاحب کو ملی‘ چنانچہ ۱۹۴۹ء میں اس بیٹے کی
خبر گیری کے لیے آپ نے اپنے تمام اہل خانہ کو پاکستان بھیج دیا اور ابتدا میں حیدرآباد
سندھ کو اپنا مسکن بنایا۔
کچھ
عرصہ حیدرآباد میں گزارنے کے بعد یہ خاندان کراچی منتقل ہوا اور زندگی کا پہیہ گھمانے
میں مصروف ہوگئے۔ حافظ عبد الشکور کی اپنی تعلیم باترجمہ قرآن مجید اور چند اردو کی
کتب تھیں بالفاظِ دیگر رسمی طور پر اردو لکھنا پڑھنا جانتے تھے‘ طبعی میلان دین کی
جانب تھا۔ خاندان میں پہلے اہل حدیث ثابت ہوئے تھے لہٰذااپنے فرزند ارجمند محمد یوسف
کواس کے استاذ قاری محمد بشیر تبتی کی تحریک پر تحفیظ القرآن کے لیے دیوبند مکتب فکر
سے متعلق استاذ قرآن قاری محمد اشفاق صاحب کے سپرد کیا جہاں ہونہار بردے کے چکنے پات
کی مانند محمد یوسف نے محض ایک سال میں قرآن مجید مکمل اپنے سینے میں محفوظ کرلیا۔
بعد
ازاں دارالحدیث رحمانیہ کراچی میں قائم مولانا حاکم دین رحمہ اللہ کے حلقہ درس سے درس
نظامی کی روایتی تعلیم کے سلسلے کا آغاز کیا۔ یہ مبارک سلسلے کی تکمیل خانوادۂ غزنویہ
کے قائم کردہ حوضۂ علمیہ دارالعلوم تقویۃ الاسلام سے ہوئی۔ رسمی طور پر سکول کی تعلیم
سے بے بہرہ حافظ محمد یوسف نے اپنی شخصیت کے نکھار سے یہ ثابت کردکھایا کہ جب کچھ کرنے
کی ٹھان لی جائے تب کسی ڈگری کی نہیں بلکہ محنت، کوشش اور جستجو کی ضرورت ہوا کرتی
ہے‘ لہٰذاآپ خوب محنتی اورکام کے دھنی ثابت ہوئے۔ داستان حیات کا ابھی بیسواں صفحہ
ہی عبارت ہوا تھا کہ ’’خلافت و ملوکیت کی تاریخی حیثیت‘‘ کے نام سے شاہکار شائقین کتب
کی تشنگی کے لیے منصۂ شہود پرلا پیش کیا
نرم
دم گفتگو‘ گرم دم جستجو
رزم
ہو یا بزم ہو پاک دل پاک باز
کی
عملی تصویر جناب محمد یوسف اب محمد یوسف نہیں بلکہ صلاح الدین یوسف ہوچکے تھے۔ واقفان
حال کے مطابق ’’صلاح الدین‘‘ نام کا انتخاب تاریخ اسلام کے عظیم فاتح صلاح الدین ایوبی
سے متاثر ہونے کی علامت ہے کیونکہ صلاح الدین ایوبی کا نام بھی ’’یوسف‘‘ ہی تھا۔
تصنیف
و تالیف کا کام کوئی آسان کام تھوڑی ہے جان جوکھوں میں ڈالنے والی بات ہے‘ یہ کوئی
تقریر تھوڑی ہے کہ جو چند حوالہ جات کو ملا کر جوڑی اور پھر سامعین کی سمع خراشی ایسے
انداز میں کی کہ وہ سر دھنتے رہ جائیں اور جاتے ہوئے حضرت واعظ اپنے خطاب کے منہ مانگے
دام وصول کرتے ہوئے اپنی سی راہ لیں۔ بلکہ لکھنا پڑھنا سمندر میں غوطہ زن ہو کر سپیاں
تلاش کرنے سے بھی مشکل کام ہے۔ یہاں ایک ایک حوالے کی خاطر کئی کئی روز تک قلم رکا
رہتا ہے اور جب ایسا کھویا حوالہ کسی لائبریری کی خاک چھانتے ہوئے مل جائے تو یہ فاضل
مصنف کے لیے مژدۂ جانفزا سے کم نہیں ہوتا۔ علمی ادبی اور کتابی حلقوں میں حافظ صلاح
الدین ایوبی کے نام سے معروف حافظ عبد الشکور جے پوری مرحوم کے فرزند ارجمند محمد یوسف
نے اسی کٹھن رستے پر چلنے کا عزم کیا اور پھر چلتا ہی گیا کہ اجل کے بلاوے پر لبیک
کہہ گیا۔
خلافت
و ملوکیت کی تاریخی اور شرعی حیثیت کی اشاعت کے بعد حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللّٰہ
نے اپنے لیے تصنیف و تالیف کی راہ پر چلنا ایسا شروع کیا کہ انتہائی جامع ، علمی ،
تحقیقی، تصنیفی اور اہل ذوق کے لیے نفع بخش کتب لکھیں اور شائقین سے داد تحسین پائی۔
یہ مضمون پڑھیں: شیخالحدیث مولانا محمد یونس بٹ رحمہ اللہ
حافظ
صلاح الدین یوسفa کی ابتدائی تصنیف سید ابو الاعلیٰ
مودودیa کی خلافت و ملوکیت کے تفصیلی
جائزے پر مبنی ان مضامین پر مشتمل ہے جو ہفت روزہ الاعتصام لاہور میں شامل سلسلہ وار
شامل اشاعت ہوتے رہے۔ حضرت حافظ صلاح الدین یوسفa اپنی بات کو انتہائی آسان اور
سادہ پیرائے میں لکھنے کا ہنر بہت اچھی طرح جانتے تھے‘ آپ کی تحقیق اگرچہ سید مودودیa
سے متصادم تھی لیکن اس تصادم کو آپ نے ذاتی تصادم میں نہیں بدلا بلکہ
اسے دلائل و براہین کی سطح تک رکھا اور موقف کی غلطی یا درستی کا فیصلہ قارئین پر چھوڑ
دیا۔
حافظ
صلاح الدین یوسف رحمہ اللّٰہ شائستگی اور وضعدار روایات کے امین تھے جس کا اقرار جاوید
احمد غامدی جیسی شخصیت نے بھی کیا کہ جس کے افکارکے رد میں باقاعدہ آپ نے فتنہ غامدیت
کے نام پر کتاب لکھی تھی۔ کتاب کا ظاہری ٹائٹل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ غامدی کے
نظریات حضرت حافظ صاحب اور ان کے مکتب فکرکے ہاں کسی فتنہ سے کم نہیں لیکن غامدی نے
باوجود اختلاف کے آپ کی وفات پر آپ کا تذکرہ شاندار پیرائے میں کیا۔ جس سے یہ معلوم
ہوتا ہے کہ حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللّٰہ معمولی شخصیت نہ تھے بلکہ علم و حکمت
کا بحر بیکراں تھے جنہیں سراہا جانا چاہئے لیکن ایسا عنصر اب شاید ہمارے اس زمانے میں
مفقود ہوئے جارہا ہے۔
تمام
تر خوبیوں اور خصائص کے باوجود حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللّٰہ ایک انسان تھے بطور
انسان غلطی کی امید ان سے بھی اتنی ہی ہے جتنی کہ ہم سے‘ لیکن کسی ایک غلطی یا اجتہاد
کی غلطی کی بنیاد پر کسی شخصیت کو یوں پراگندہ کرنا یقینا انصاف نہیں سمجھاجائے گا
لیکن جماعت اہل حدیث میں موجود بعض نا معلوم کردار کہ جنکی خود اپنی فکری شناخت مشکوک
ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کے نام ابھی أخذ العلم من الصغار کی تشریح کرتے ہوئے شاگردوں
کو سمجھانے کے ضمن میں پیش کئے جاتے ہوں، کو نہ جانے کیا تکلیف ہوئی کہ ایک مذموم پروپیگنڈہ
شروع کر دیا گیا۔ سوشل میڈیا پر ایک ناکام تحریک شروع کی گئی جس کا مقصد حضرت حافظ
صلاح الدین یوسف رحمہ اللّٰہ کو متنازع اور خانوادۂ رسالت مآبe
کا گستاخ باور کراکے آپ کا مقام عامۃ الناس کی نگاہوں میں گرانا تھا
لیکن عزت اور ذلت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی بے لوث خدمت،
کسی ملامت اور ملامت گر کی پروا کیے بغیر مصروف رہے۔ ایک ایسا خادم قرآن کہ جس کی خدمت
کو ایسی مقبولیت عطا فرمائی کہ علماء ومشائخ سے طلبہ دین حنیف اور عامۃ الناس تک نے
آپ کے اس عظیم کارنامے کو سراہا ہو۔ بھلا ایسا خادم قرآن کیسے خانوادۂ رسالت مآبe
کا گستاخ ہو سکتا ہے؟
۲۰۰۶ء میں ذہبئ دوراں حضرت مولانا محمد اسحاق
بھٹیa کی دبستان حدیث شائع ہوئی تھی
جس میں انہوں نے حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللّٰہ کے تذکرے کے ضمن میں آپ کی مطبوعہ
اور غیر مطبوعہ ۴۲
کے قریب تصانیف گنوائی ہیں۔ آپ نے منہج
اہل حدیث سے لے کر عام معاشرتی مسائل تک کو اپنی تحقیق و تصنیف کا موضوع بنایا اور
ایک نافع سلسلۂ کتب اہلیان برصغیر کے سپرد کیا۔ محرم الحرام کے مسائل اور رسومات کے
حوالے سے آپ کی کتاب کا ایک اقتباس ابھی تک نامعلوم ناقدین کے لیے درد سر بنا ہوا ہے
اور اس اقتباس کو بغض ناقدین نما حاسدوں نے اہل بیت اطہار] کی گستاخی پر محمول کیا
ہے۔ ایک صاحب نے تو آپ کی نماز جنازہ میں شرکت تک کو ممنوع قرار دینے کی مذموم کوشش
کی حالانکہ اہل بیت عظام خصوصاً سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادگان
کے متعلق آپ کا موقف کبھی بھی ایسا نہیں رہا کہ جس سے ہم یہ کہi
کہہ کہ حافظ صلاح الدین یوسفa اس عظیم الشان رفیع الدرجات
خاندان کے گستاخ تھے۔ بلکہ معروف عالم دین ’’حافظ ابو یحییٰ نورپوری حفظہ اللہ‘‘ کے
مطابق آپ اہل بیت کی گستاخی کو خلاف ایمان و اسلام قرار دیتے رہے۔
یہ مضمون پڑھیں: شیخالحدیث مولانا عبدالحمید ہزاروی رحمہ اللہ
حضرت
حافظ صلاح الدین یوسفa کے تمام کارنامے اگر دریا برد
کردیئے جائیں ان کا انکار بھی کردیا جائے مگر جو خدمت قرآن کریم کا عظیم کارنامہ آپ
نے تفسیر احسن البیان کی صورت میں انجام دیا اس کا انکار ناممکن ہے۔ یہ ایک ایسا کارنامہ
ہے جو تاقیامت ان کے نامۂ اعمال میں دمکتا ہوا توشۂ آخرت ثابت ہوگا۔
تفسیر
احسن البیان وہی تفسیر ہے جسے مجمع الملک فہد سعودی عرب شائع کرتا ہے اور پھر دنیا
بھر کے اردو دان طبقے میں اسے سعودی حکومت کی طرف سے مفت تقسیم کیا جاتا ہے‘ اس تفسیر
کی اشاعت اور تیاری بھی دلچسپ تاریخی حقیقت ہے۔ اس ضمن میں کتب کے عالمی نشریاتی ادارے
’’دارالسلام‘‘ کے منتظم جناب عبدالمالک مجاہد اور مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے
امیر سینیٹر پروفیسر ساجد میر حفظہ اللہ اور دیگر حضرات کی دلجمعی اور خدمات کا اقرار
نہ کرنا بھی ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ مولانا عبدالمالک مجاہد حفظہ اللہ کے مطابق
دارالسلام کے زیر اہتمام احسن البیان کے پروجیکٹ پر کام کرنے کے متعلق ۱۹۹۳ء میں لائحہ عمل
تیارکیا گیا‘ ان دنوں مولانا صلاح الدین یوسف لاہور میں ہفت روزہ الاعتصام کے مدیر
اعلیٰ تھے۔ ہفت روزہ الاعتصام کو جس انداز میں آپ نے علم وتحقیق کی راہ پر استوار کیا
وہ بھی ایک حقیقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دارالسلام نے اس پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے برصغیر
پاک وہند سے حضرت کا انتخاب فرمایا اور تمام تر سہولیات بہم پہنچانے کی پوری کوشش کی۔
یوں حافظ صلاح الدین یوسفa علم و حکمت کی ایک نئی راہ
پر چل نکلے‘ جس راہ پر چل کر خدمت قرآن کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔ تفسیر احسن البیان
کی تکمیل کے ساتھ ہی منتظمین دارالسلام کی کوششوں سے اسے سعودی حکومت کے تحت چلنے والے
قرآن کمپلیکس کے حوالے کیا گیا۔ حضرت حافظ صلاح الدین یوسفa
کی لکھی یہ تفسیر تقریباً دنیا بھر کے اردو خواں حلقوں کے ہاتھوں
میں پہنچی اور داد تحسین پائی۔ یہ عظیم کام اگرچہ حافظ صاحب کے لیے نجات اور کامیابی
کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اس کے ساتھ ہی آپ کے معاونین و ناشرین کے لیے بھی اللہ کی رحمت
سے ضرور نافع ثابت ہوگا۔
تقریباً
پچیس برس تک آپ ادارہ الاعتصام سے وابستہ رہے اور پھر علم وتحقیق کا یہ تعلق دارالسلام
سے جڑا تو ۱۹۹۳ء
سے لیکر ۲۰۱۵ء
تک تئیس برس کا عرصہ آپ دارالسلام میں مصروف عمل رہے۔ دارالسلام کو خیر باد کہنے کے
بعد علم و تحقیق اور درس و تدریس کا سلسلہ برابر جاری رکھا۔ حالیہ دنوں میں قرآن مجید
کی مفصل تفسیر لکھنے میں مصروف تھے جس کے تقریباً پندرہویں پارے پر پہنچے تھے کہ اجل
کا سندیسہ آن پہنچا اور آپ رفیق اعلیٰ کے پاس جا پہنچے۔
نامور
مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ آپ زبانی طور پر اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرنے کا بہترین
ملکہ رکھنے والے عمدہ خطیب بھی تھے۔ اکثر جماعتی اور مسلکی جلسوں میں بطور ناصح آپ
کو دعوت دی جاتی‘ آپ کی نصیحت کا انداز بھی شاندارتھا‘ دھیمے لہجے کے ایسے مقرر تھے
کہ بات سامعین کے دلوں میں اترتی چلی جاتی۔
حافظ
صلاح الدین یوسف رحمہ اللّٰہ مسلمہ اہل علم شخصیت تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ وفاقی شرعی
عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کا بھی حصہ رہے۔ سب واقفان حال بیان کرتے ہیں کہ آپ
کی طبیعت اس قدر سادہ اور مزاج پروقار تھا کہ کبھی اپنے سرکاری منصب کو اپنے سیاسی
مفادات کے لیے استعمال نہ کیا بلکہ جن دنوں آپ وفاقی شرعی عدالت کا حصہ تھے ان دنوں
گورنمنٹ کی جانب سے ایک اہلکار بھی آپ کو مہیا کیا گیا تھا جس کے ذمے آپ کا تحفظ تھا۔
پروفیسر ڈاکٹر رانا تنویر قاسم نے وہ منظر کچھ یوں بیان کیا ہے کہ حافظ صاحب کے پاس
ایک سائیکل تھی جسے وہ بطور سواری استعمال کرتے تھے‘ پہلے تو اس سائیکل سے صرف ذاتی
کام لیتے تھے لیکن جب حکومت کی جانب سے سکیورٹی اہلکار میسر آگیا تو آپ دو لوگ تھے
جو اسی سائیکل پر دفتر جایا کرتے‘ اب کچھ رستہ سائیکل آپ ڈرائیوکرتے اور کچھ رستہ آپ
کا محافظ پولیس اہلکار!
سادگی
اور وقار کے ساتھ زندگی کا خوبصورت سفر جاری رہا‘ بالآخر مختصر علالت کے بعد ۱۲ جولائی
۲۰۱۰ء
کو ۷۵
برس کی عمر میں آپ اس دارفانی سے کوچ
کرکے ہمیشہ کے لیے اپنے اللہ کے حضور جا پہنچے۔ آپ کی وفات کی اطلاع دنیا بھر میں انتہائی
صدمے کے ساتھ سنی گئی۔ امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سینیٹر پروفیسر ساجد میرd، ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سینیٹر حافظ عبدالکریمd، حضرت مولانا اصغر علی امام مہدی امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے
ساتھ ساتھ دنیا بھر کے عوام و خواص نے آپ کی خدمات کو سراہا اور آپ کی مغفرت کے لیے
اللہ تعالیٰ کے حضور دست دعا دراز کیے۔
آپ
کی نماز جنازہ مرکز اہل حدیث لارنس روڈ میں بقیۃ السلف حضرت مولانا حافظ مسعود عالمd
کی اقتداء میں ادا کی گئی۔ لاک ڈاؤن کے باوجود دیوانوں کا اک ہجوم
آپ کو آپ کے اخروی سفر پر روانہ کرنے کے لیے لاہور مرکز اہل حدیث لارنس روڈ پہنچا کہ
مرکز اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تنگی داماں کا شاکی رہا۔
پسماندگان
میں بیوہ چار بیٹیاں اور تین بیٹوں کے ساتھ چاہنے والوں کی ایک کثیر تعدادچھوڑ کر گئے۔
اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے آمین!
No comments:
Post a Comment