شیخ الحدیث مولانا عبدالحمید ہزاروی a
تحریر: جناب پروفیسر
محمد یٰسین ظفر
ایک
مدت ہوئی ذاتی کام سے گوجرانوالہ جانا ہوا۔ جن کے ہاں کام تھا وہ لوگ بہت نفیس اچھے
اور دیندار ہیں۔ گھر کا ماحول اسلامی تعلیمات کی جھلک پیش کر رہا تھا۔ ان کی نشست وبرخاست
دینی تعلیم وتربیت کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ ان کے حلقہ احباب میں علماء مشائخ شامل
ہیں۔ اتفاق سے جب میں ان کے ہاں پہنچا تو ایک بزرگ شخصیت پہلے سے موجود تھی۔ سنجیدہ
، پروقار اور شرافت سے بھر پور چہرہ سفید ریش سر پر سیف رومال آنکھوں پر ہلکا سبزی
مائل چشمہ گوری رنگت پر اعتماد گفتگو تکلف سے بے نیاز یہ شخصیت سب کی توجہ کا مرکز
تھی۔میں بھی سلام عرض کرنے کے بعد مناسب جگہ پر بیٹھ کر ان کی گفتگو سے فیض یاب ہونے
لگا۔ اس دوران میرے میزبان نے بڑے ادب سے ان کا تعارف کرایا کہ یہ مولانا عبدالحمید
ہزاروری صاحب شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ ہیں۔ میرے لیے یہ سعادت کی گھڑی تھی۔ نام توبارہا
سن چکا تھا لیکن آج براہ راست ان سے ملنے اور گفتگو کا موقعہ مل رہا تھا۔ چونکہ موضوع
سخن دینی تعلیم وتربیت تھا۔ لہذا بہت سی باتیں ہوئیں۔ ان کی سادگی للہیت اور خلوص سے
بہت متاثر ہوا۔ ان کا بڑا پن تھا کہ مجھے بھی اس فہرست میں شامل کرلیا۔ جن سے وہ بے
لوث محبت کرتے تھے اور دل سے دعا کرتے تھے۔ اسی دن سے میرے دل میں بھی مولانا کا از
حد احترام پیدا ہوا۔ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ مجھے ہمیشہ ان کو دیکھ کر یا گفتگو
کرکے دلی مسرت اور شادمانی حاصل ہوتی۔
یہ مضمون پڑھیں: مفسرقرآن الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ
مولانامرحوم
سے میرا تعلق تیس سال سے زیادہ پر محیط ہے۔ بارہا ہم بہت سی مجلسوں ، جلسوں ، اجتماعات
اور خوشی وغمی کے مواقع پر اکٹھے ہوتے۔ لیکن کسی ایک موقعہ پر بھی ایسا نہیں ہوا کہ
انہوں نے سلام کے بعد میرے گندھے پر دست شفقت نہ رکھا ہو۔ ان کی بزرگی اور سرپرستی
کا یہ انعام حاصل کرکے مجھے بہت توانائی محسوس ہوتی۔
جامعہ
محمدیہ گوجرانوالہ اور مولانا عبدالحمید ہزاروی لازم وملزوم تھے۔ ان میںسے کسی ایک
کا نام لیں۔ دوسری تصویر خود بخود ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ جامعہ محمدیہ کی تعمیر
وترقی کے کوشاں رہتے تھے۔ مدینہ یونیورسٹی سے الحاق کے لیے انہیں جامعہ سلفیہ سے تزکیے
کی ضرورت تھی۔ خود رابطہ کیا اورفرمانے لگے کہ جامعہ محمدیہ کے لیے اچھا سا تزکیہ لکھ
کر دیں اور مزید مدینہ یونیورسٹی میں کسی الشیخ صاحب کو سفارش بھی کریں۔ میں نے تزکیہ
کے علاوہ اپنے محسن فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر علی سلطان الحکمی رحمہ اللہ کے نام بھی خط لکھا
اور تعاون کی درخواست کی۔معادلہ منظور ہونے کے بعد مجھے اطلاع دی اور شکریہ ادا کیا۔
گوجرانوالہ
میرا پسندیدہ شہر ہے۔ وہاں کے لوگ بہت ملنسار مہمان نواز اور مہربان ہیں۔ اکثر جانا
ہوتا تو مولانا صاحب سے بھی ملاقات ہوجاتی۔ محترمہ باجی ثریا مرحومہ کے ادارے میں بارہا
اجلاس ہوتے۔ جہاں مولانا مرحوم کے علاوہ مولانا محمد اعظم a، مولانا محمد صدیق مرحوم، حاجی عبدالحق ناگی‘
ہمارے دوست پروفیسر محمد حیات سے ملاقات ہوتی۔ اجلاس کے بعد پرتکلف کھانا کھاتے۔
وفاق
المدارس السلفیہ کا قیام ۱۹۷۸ء میں ہوچکا تھا۔ بعض بڑے مدارس اس میں
شامل تھے۔ جماعتی اختلاف کی وجہ سے بعض مسائل پیدا ہوئے۔ لیکن میاں فضل حق مرحوم ذاتی
طور پر رابطہ کرکے بڑے مدارس کو وفاق میں شامل کرنے کی درخواست کرتے۔ اس ضمن میں محترم
حافظ محمدیحییٰ میرمحمدی اور حافظ عزیز الرحمن لکھوی رحمھم اللہ کا کردار بڑا نمایاںتھا۔
یہ بڑے مہربان لوگ تھے۔ ان کی خصوصی کوششوں سے ہی مدارس وفاق میں شامل ہوئے۔
جماعتی
اتحاد کے بعد جہاں دیگر بہت سے محاذ ختم ہوئے اوریکجہتی کا اظہار ہوا وہاں وفاق المدارس
السلفیہ میں بھی وہ علماء کرام شامل ہوئے جن سے اختلاف تھا۔ مولانا حافظ عزیز الرحمن
لکھوی مرحوم ناظم امتحانات تھے۔ ان کی وفات کے بعد میاں فضل مرحوم نے مولانا محمد اعظم
صاحب کو ناظم امتحانات نامزد کیا۔ وفاق المدارس السلفیہ رجسٹرڈ ادارہ ہے اور عہدیداران
کی تعدا سات ہے۔ میں صدر ، نائب صدر ، ناظم ، ناظم مالیات ودیگر ممبران شامل ہیں۔ پہلے
سرپرست مولانا معین الدین لکھویa تھے۔ صدر مولانا محمد یحییٰ
میر محمدی، ناظم اعلیٰ میاں فضل حقa جبکہ ناظم امتحانات حافظ عزیز
الرحمن لکھوی تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہی۔ جماعتی اتحاد کے بعد مرکزی
جمعیت اہل حدیث میاں فضل حق گروپ نے بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کیا اور تمام اداروں میں
مناسب نمائندگی دی۔ لہٰذا علامہ پروفیسر ساجد میرd کو وفاق المدارس السلفیہ کا
صدر منتخب کیا جبکہ مولانا عبدالحمید ہزاروی کو نائب صدر نامزد کیا۔ مولانا مرحوم کی
یہ بڑی خوبی تھی کہ جب بھی وفاق المدارس کا اجلاس بلایا جاتا اس میں ضرور شرکت کرتے۔
بڑی توجہ اور خاموشی سے باتیں سنتے۔ اگرچہ سماعت متاثر تھی لیکن جوبات سمجھ نہ آتی
دوبارہ پوچھ لیتے اور اپنی رائے کا اظہار برملا کرتے۔ وہ وفاق کے سخت نظام کے قائل
نہ تھے بلکہ نرمی کے قائل تھے۔ ہراجلاس میں اس بات پر زور دیتے کہ مدارس میں نصاب نہ
صرف مکمل کیا جائے بلکہ طلبہ میں علمی رسوخ پیدا کیا جائے۔ نحو ، صرف ، اصول ، ترجمہ
قرآن پر زور دیا جائے۔ اکثر اصرار کرتے کہ طلبہ کو امتحانات میں مراعات دی جائیں۔
یہ ان کے طلبہ کے ساتھ مشفقانہ رویے کی دلیل ہے۔
یہ مضمون پڑھیں: شیخالحدیث مولانا محمد یونس بٹ رحمہ اللہ
دینی
مدارس کے اساتذہ کرام کے بارے میں ان کا رویہ بالکل مختلف تھا۔ وہ اس بات کے قائل تھے
کہ اساتذہ بھر پور محنت کریں۔ مطالعہ کرنے کے بعد پڑھائیں۔ طلبہ کو پوری تفہیم کرائیں۔
محض وقت گزارنے کا معاملہ نہ ہو۔ اس لیے بعض دفعہ اساتذہ کرا م پر شدید تنقید بھی کرتے
کہ وہ محنت نہیں کرتے۔
مولانا
مرحوم کے ساتھ بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ آج جب میں یہ چند سطور تحریر کررہا ہوں۔ وہ
باتیں یاد آرہی ہیں ۔ ان سے آخری اور یاد گار ملاقات ۶ مارچ
۲۰۲۰ء
بروز جمعۃ المبارک جامعہ عمر بن عبدالعزیز سیالکوٹ میں ہوئی۔ جہاں تعلیمی سال کے اختتام
پر مولانا مرحوم کا درس بخاری تھا۔ جبکہ خطبہ جمعہ حافظ مسعود عالم صاحب نے ارشاد فرمایا
۔ میں بھی آپ کے درس میں شریک ہوا۔ بہت جاندار اور پروقار درس دیا۔ بعد میں اسناد
وانعامات تقسیم کیے گئے۔ مولانا مظفر شیرازی ، حافظ عبدالماجد اور حافظ عبداللہ مدنی
نے شاندار انتظامات کر رکھے تھے۔ بارش کہ وجہ سے موسم بہت خوشگوار تھا۔ تقریباً عصر
کے بعد رخصت ہوئے تو مولانا نے بڑی دعائیں دیں۔
یہ مضمون پڑھیں: پروفیسر
حافظ ثناء اللہ خان رحمہ اللہ
سب
کے علم میں ہے کہ کرونا وباء کی وجہ سے ۱۴ مارچ
سے تعلیمی ادارے بند ہوگئے اور تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔ وفاق المدارس السلفیہ کے
سالانہ امتحانات نہ ہو سکے۔ رمضان المبارک میں آپ سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔ انا للہ
وانا الیہ راجعون ۔
اللہ
تعالی ان کی مغفرت فرمائے۔ ان کی دینی ، ملی ، دعوتی ، تعلیمی خدمات قبول فرمائے اور
جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔
No comments:
Post a Comment