موت العالِم موت
العالَم
علمائے کرام روشنی کے ایسے بلند وبالا مینار ہوتے ہیں کہ جن کے علم وعرفان سے جہالت
میں بھٹکے ہوئے لوگوں کو اپنی حقیقی منزل کی راہ دکھائی دیتی ہے۔ علمائے کرام آفتاب
نبوت کی وہ کرنیں ہیں کہ جو بزم حیات کو منور
رکھتی ہیں۔ علماء گلستان نبوت کے وہ خوبصورت پھول ہیں کہ جن کی خوشبو انسانی دل ودماغ
اور روح کو تقویٰ وطہارت اور نیکی کی مہک پہنچاتی ہے۔ جب علم وعمل کے یہ چراغ گل ہو
جائیں تو دنیا میں ہر طرف جہالت کی گھٹائیں چھا جاتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس
طرح کی علمی شخصیات بہت ہی کم پیدا ہوتی ہیں‘ جو موجود ہیں وہ بھی رفتہ رفتہ اس بزم
جہاں سے رخصت ہو رہی ہیں۔ جن کا خلاء پر ہونا مشکل ہی نظر آتا ہے۔
علماء ہی بقائے علم کا سبب ہیں‘ یہ علماء ہی ہیں کہ جن کے دم سے علم کا وجود ہے۔
جب اللہ تعالیٰ اس دنیا سے علماء کو اٹھا لیں گے تو علم بھی اُٹھ جائے گا۔ پھر علم
کے اٹھ جانے کے سبب ہر جانب تاریکی پھیل جائے گی۔ کوئی راہ دکھانے والا نہ ہو گا۔ ہر
شخص گمراہی کے عمیق غار میں سر تا پا غرق ہو گا۔ جہلاء علماء کی جگہ بیٹھ کر ایسی ایسی
باتیں بتائیں گے جن پر عمل کر کے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں
گے۔ اس لیے علماء کے وجود کو باعث خیر وبرکت سمجھ کر ان سے حتی المقدور استفادہ کی
ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے۔ ان سے محبت رکھنے کو اپنے لیے سعادت خیال کرنا چاہیے۔
رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے: [ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء
] ’’اللہ تعالیٰ دین کا علم ایسے نہیں اٹھائیں گے
کہ لوگوں کے اندر سے کھینچ لیں‘ بلکہ علماء کو اٹھا لینے کی صورت میں دین کا علم اٹھ
جائے گا۔‘‘ یعنی علماء زندہ رہیں اور ان کے سینوں سے علم نکال لیا جائے یہ نہیں ہو
گا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ حاملین علم کو اٹھا لیں گے اور ان کی جگہ دوسرے علماء پیدا نہیں
ہوں گے۔ اس طرح علم خود بخود ختم ہو جائے گا۔
رواں برس کے ابتداء ہی میں چین کے شہر ووہان میں کرونا وائرس کی وباء پھوٹ پڑی
جس نے بہت جلد دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پورا کرۂ ارض اس سے متاثر ہوئے بغیر
نہ رہ سکا۔ پاکستان میں جب اس کے اثرات نمودار ہونا شروع ہوئے تو حکومت نے تمام تر
حفاظتی تدابیر اپنانے کی منصوبہ بندی کی۔ پورے ملک میں لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔ سکول وکالج‘
مارکیٹیں‘ فیکٹری وکارخانے‘ عوامی اجتماع کی تمام جگہیں بند کی دی گئیں۔ عوام کو اپنے
گھروں میں رہنے کی تلقین کی جاتی رہی‘ لیکن اس کے باوجود بے شمار لوگ اس وباء سے متاثر
ہوئے۔ ہزاروں کی تعداد میں اموات ہوئیں۔ زیادہ تر عمر رسیدہ اشخاص اس وباء کا شکار
ہو کر موت کے منہ میں چلے گئے۔ تقریبا چھ ماہ تک اس وباء کا زور رہا۔ اس دوران ہماری
جماعت کے ایک درجن سے زائد علماء کرام یکے بعد دیگرے اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے۔ پوری
جماعت اس عظیم صدمے سے نڈھال ہو گئی۔ ہر شخص ان علماء کرام ومشائخ عظام کے پے درپے
رحلت کر جانے سے مغموم ومحزون نظر آیا۔ ہر کوئی اسے اپنا ذاتی نقصان سمجھ رہا اور دکھ
کا اظہار کر رہا تھا۔
کرونا وباء کے ایام میں دنیا سے رخصت ہونے والے علماء ومشائخ میں سے چند ایک کے
نام درج ذیل ہیں:
1 شیخ
الحدیث مولانا عبدالحمید ہزارویa (گوجرانوالہ)
2 شیخ الحدیث مولانا عبدالرشید راشد
ہزاروی a (ساہیوال)
3 پروفیسر
حافظ ثناء اللہ خاں a (لاہور)
4 پروفیسر عبدالرحمن لدھیانوی a (لاہور)
5 پروفیسر
ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر a (لاہور)
6 قاری محمد یحییٰ رسولنگری a (ساہیوال)
7 شیخ
الحدیث مولانا محمد یونس بٹ a (فیصل آباد)
8 مفسر قرآن مولانا حافظ صلاح الدین
یوسفa (لاہور)
9 حافظ
عبدالرزاق a (گوجرانوالہ)
0 حضرت مولانا رحمت اللہ ربانی a
! مولانا
ابویحییٰ محمد زکریا a (لاہور)
ودیگر علماء کرام، مشائخ واحباب جماعت۔
موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے کسی کو مفر نہیں۔ جو ذی روح اس دنیا میں آیا ہے
اسے وقت مقررہ پر ضرور واپس جانا ہے۔ فرمان الٰہی ہے کہ {کُلُّ نَفْسٍ ذَآئقَةُ الْمَوْتِ} ’’ہر جاندار کو موت کا
مزہ ضرور چکھنا ہے۔‘‘ … چنانچہ تمام انبیاء ورسل‘ صحابہ وتابعین اور اولیاء وصلحاء
کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرنا پڑا۔ ہم سب کو بھی ایک دن یہاں سے جانا ہے۔
غم واندوہ کے اس موقع پر امیر محترم سینیٹر پروفیسر ساجد میرd‘ ناظم اعلیٰ سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریمd سمیت دیگر قائدین واحباب جماعت بعض علماء کے جنازوں میں شریک ہوئے۔ دیگر متوفیان
کے گھر جا کر یا بذریعہ فون ان کے پسماندگان سے تعزیت کے ساتھ دلجوئی فرمائی اور دعائے
مغفرت کی۔ اللهم اغفر لهم
وارحمهم وعافهم واعف عنهم!
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مرحوم علماء کرام کی بشری خطائیں معاف فرما کر انہیں
جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ان کے حقیقی جانشین پیدا فرما دے جو ان کے
مشن کو جاری رکھ سکیں۔
No comments:
Post a Comment