درسِ قرآن
صبر واستقامت
ارشادِ باری ہے:
﴿فَاصْبِرْ كَمَا
صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ﴾ (الأحقاف)
’’پس (اے محمد!e)صبر کیجیے جیسا
صبر عالی ہمت رسولوں نے کیا۔اور ان (اپنی قوم )کے لیے (عذاب طلب کرنے) میں جلدی نہ
کیجیے۔‘‘
﴿لَتُبْلَوُنَّ فِيْۤ
اَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ١۫ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ
مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْۤا اَذًى كَثِيْرًا١ؕ وَ اِنْ تَصْبِرُوْا
وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ﴾ (اٰل عمران)
’’یقیناً تمہارے
مالوں اورتمہاری جانوں سے تمہاری آزمائش کی جائے گی اور یہ بھی حتمی بات ہے کہ تمہیںیہودیوں
اور مشرکوں کی بہت سی دکھ دینے والی باتیں سننا پڑیں گی اور اگر تم صبرکرو اور پرہیز
گاری اختیار کرو تو یہ معاملات کو پختگی سے انجام دینے کا طریقہ ہے۔‘‘
قرآن مجیدہر ہر مرحلہ پر انسانیت کی رہنمائی کرتا ہے‘ خالقِ
انسان کی کتاب ہونے کی وجہ سے یہ انسان کی نفسیات سے بھی بخوبی واقف ہے اس لیے کس موڑ
پر انسان کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے ؟ اس کی رہنمائی ہمیں قرآن مجید سے ہی ملتی
ہے۔ انہی رہنما اصولوں میں سے ایک مشکل ترین حالات میں صبر کادامن تھامے رکھنا اور
استقامت سے حق کی راہ پر قائم رہنا ہے۔ اسی اصول کو حضرات انبیاءo نے
اپنایا اور اپنے مقاصد میں کامیابیاں سمیٹیں:
﴿اُولٰٓىِٕكَ يُؤْتَوْنَ
اَجْرَهُمْ مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ يَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ
وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ﴾ (القصص)
’’یہ ا پنے کیے ہوئے
صبر کے عوض دوہرا اجر دئیے جائیں گے۔ یہ نیکی سے بدی کے خاتمہ کی کوشش کرتے ہیں اور
جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
یعنی وہ لوگ جو ایمان لانے کے بعد مصائب و مشکلات کو صبر سے
برداشت کرتے ہیں اور ثابت قدمی سے راہ حق پر ڈٹے رہتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کو پھر اللہ
کی معیت بھی حاصل ہو جاتی ہے ۔اور اللہ کی معیت سے بڑھ کر سرفرازی کیا ہوسکتی ہے!
﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ
اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ﴾
’’اے ایمان والو!
صبر اورنما زسے تقویت حاصل کروبے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔‘‘
ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآن نے خوشخبری سنائی ہے کہ:
﴿وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَۙ
الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ الصّٰبِرِيْنَ عَلٰى مَا
اَصَابَهُمْ وَ الْمُقِيْمِي الصَّلٰوةِ﴾ (الحج)
’’اور ان لوگو ں
کو خوشخبری سنا دیجیے جن کے دل اللہ کے ذکر کیے جانے پر کانپ جاتے ہیں اور ان پر جومصیبتیں
پڑتی ہیں اس پر صبر کرنے والے ہیں اورنماز قائم کرنے والے ہیں۔‘‘
درسِ حدیث
قول وفعل کے تضاد کی سزا
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
[عَنْ اُسَامَةَ
بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِﷺ يَقُولُ: "يُؤْتٰى بِالرَّجُلِ
يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُلْقٰى فِي النَّارِ، فَتَنْدَلِقُ اَقْتَابُ بَطْنِهٖ، فَيَدُورُ
بِهَا كَمَا يَدُورُ الْحِمَارُ بِالرَّحٰى، فَيَجْتَمِعُ إِلَيْهِ اَهْلُ النَّارِ،
فَيَقُولُونَ: يَا فُلَانُ مَا لَكَ؟ اَلَمْ تَكُنْ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَتَنْهَى
عَنِ الْمُنْكَرِ؟ فَيَقُولُ: بَلىٰ، قَدْكُنْتُ آمُرُبِالْمَعْرُوفِ وَلَاآتِيهِ،
وَاَنْهٰى عَنِ الْمُنْكَرِ وَآتِيهِ ] (مسلم)
سیدنا اُسامہ بن
زیدw سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ
میں نے رسول اللہe کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا
کہ ’’قیامت کے دن ایک شخص لایا جائے گا اور اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا، اس کے پیٹ
سے انتڑیاں نکل کر باہر پڑی ہوں گی اور وہ ان کے گرد یوں گھوم رہا ہو گا جس طرح گدھا
چکی کے گرد گھومتا ہے۔ (اس کی یہ کیفیت دیکھ کر) جہنم والے اس کے اردگرد جمع ہو کر
اس سے کہیں گے کہ اے فلاں! تجھے کیا ہوا؟ کیا تو ہمیں نیکی کرنے کا حکم اور برائی سے
منع نہیں کرتا تھا؟ تو وہ کہے گا کیوں نہیں، میں نیکی کرنے کا حکم دیتا تھا مگر خود
نیکی نہیں کرتا تھا اور میں برائی سے روکتا تھا مگر خود برائی کرتا تھا۔‘‘ ( مسلم)
اس حدیث کے راوی سیدنا اسامہ بن زیدw
ہیں جو کہ رسول اللہe کے خادم خاص اور منہ بولے بیٹے
تھے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمe کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت
کے دن ایک شخص کو لا کر جہنم میں ڈالا جائے گا جس کے پیٹ سے انتڑیاں باہر نکلی ہوئی
ہوں گی اور وہ اپنی انتڑیوں کے گرد یوں گھوم رہا ہو گا جس طرح چکی چلانے والا جانور
چکی کے گرد گھومتا ہے، یہ کیفیت اس وجہ سے ہو گی کہ اس کے قول اور فعل میں تضاد پایا
جاتا تھا۔
جو شخص بات کوئی کرے اور عمل اس کے خلاف
کرے وہ ناپسندیدہ شخص تصور ہوتا ہے، حدیث کی زبان میں اسے منافق کہا جاتا ہے۔ قرآنِ
پاک نے بھی حکم دیا ہے کہ تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں‘ یہ عمل اللہ کی ناراضگی
کا سبب بنتا ہے۔ ایسے واعظین و مبلغین جو لوگوں کو نیکی کرنے کی تعلیم دیں اور خود
اس پر عمل نہ کریں انہیں یہی سزا دی جائے گی۔ اس شخص نے جہنمی لوگوں کو ان کے سوال
پر یہی جواب دیا کہ میں لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتا تھا اور خود اس نیکی سے دور تھا
اور لوگوں کو برائی سے روکتا تھا مگر خود اس برائی کا ارتکاب کرتا تھا۔ یہ کیفیت ہر
دور میں نظر آتی ہے، اکثر مصلحین امت لوگوں کو تو برائی سے روکنے کے لئے وعظ کرتے
ہیں مگر خود اس برائی میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ رسول اللہe نے قول اور فعل کے تضاد سے
منع فرمایا ہے اور اس حدیث میں ایسے شخص کا انجام بیان فرما کر اس برے فعل سے اجتناب
کرنے کی تعلیم دی ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو اپنے قول و قرار کا لحاظ کرنا چاہیے اور اپنے
عمل کو اپنی بات کے مطابق رکھنا چاہیے۔ اس لئے کہ اس فعل کی سزا بہت سخت ہے۔ اللہ تعالیٰ
قول اور فعل کے تضاد سے محفوظ فرمائے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment