اہل مدارس کے نام ایک دردمندانہ اپیل
تحریر: جناب پروفیسر
محمد یٰسین ظفر
برصغیر میں دینی
مدارس کی ایک شاندار اور تابناک تاریخ ہے جس سے اہل مدارس بخوبی آگاہ ہیں۔ قیام پاکستان
کے بعد بھی یہ تسلسل جاری رہا اور تمام مکاتب فکر کے ممتاز علماء اور زعماء نے اپنے
وسائل میں رہتے ہوئے دینی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے معیاری درسگاہیں قائم کیں۔ جس
کی تفصیل میں جائے بغیر ہم موجودہ حالات کے تناظر میں چند حقیقی مسائل پر بات کریں
گے۔ تاکہ آپ پوری دل جمعی سے ان پر غور کریں اور انہیں حل کرکے اپنے تعلیمی ادارے
کو معیاری اور نتیجہ خیز بنا سکیں۔
صاحبو ! یہ بات
تو آپ کے علم میں ہے کہ پاکستان میں اس وقت کئی نظام تعلیم چل رہے ہیں جس میں شامل
نصاب بھی مختلف ہے۔ خاص کر پرائیوٹ سیکڑ میں قائم بعض تعلیمی ادارے نہ صرف بھاری فیسیں
وصول کرتے ہیں بلکہ اس میں زیر تعلیم بچوں بچیوں کو ایک ایسے کلچر سے متعارف کراتے
ہیں۔جس کا اسلام سے دور کی بات پاکستانی کلچر سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ لیکن یہ تعلیمی
ادارے ایسے ہیں کہ ان کے بارے میں کوئی محکمہ نہ باز پرس کرسکتا ہے اور نہ ہی ان کے
نصاب نظام پر بات کر سکتا ہے۔ فیسوں کے علاوہ ان کے ذرائع آمدن کیا ہیں۔ کوئی ادارہ
بھی پوچھ نہیں سکتا۔ ان اداروں کو کامیابی وترقی کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں زیادہ
تر تعلیمی ادارے حکومت کی سرپرستی میں کام کرتے ہیں۔ ۱۸ ترمیم
کے بعد نظام تعلیم صوبائی معاملہ ہے۔ لہذا تمام صوبے ان تعلیمی اداروں کا مالی بوجھ
اٹھاتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سارا مال لوگوں کے ٹیکس سے ادا کیا جاتا ہے۔ سرکاری تعلیمی
اداروں کی حالت زار سے بھی آپ بخوبی آگاہ ہیں۔ خاص کر دیہاتی علاقوں میں ان کی حالت
قابل رحم ہے۔ بیسوں ایسے کھوسٹ سکول ہیں جن کا کسی جگہ وجود نہیں لیکن اس کے نام پر
تنخواہ وصول کرنے والے سینکڑوں اساتذہ اورعملہ موجود ہے اور یہ سلسلہ سالہا سال سے
چل رہا ہے۔ ان میں جو سکول یا کالج کام کر رہے ہیں ان کا تعلیمی معیار بھی قابل رشک
نہیں۔ لیکن ان میں طلبہ اور طالبات کی تعداد بہت ہے۔
پاکستان میں ایک
تیسرا نظام تعلیم دینی مدارس کا ہے جہاں شرعی علوم بالتفصیل پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ مدارس
شہری اور دیہی علاقوں میں موجود ہیں۔ ان میں بڑے اور چھوٹے سبھی شامل ہیں۔ لیکن بدقسمتی
سے ان میں کوئی درجہ بندی نہیں‘ ادارہ وسیع اراضی پر ہو۔ بلڈنگ کشادہ اور تعلیمی ضروریات
کے مطابق بنی ہو۔ سہولیات دستیاب ہوں۔ یا ادارے کا رقبہ محددود ہو ۔ عمارت تعلیمی ضروریات
کے مطابق نہ ہو۔ دیگر سہولیات کا فقدان ہو۔ مگر یہ دونوں ایک ہی صف میں شامل ہیں۔ تعلیمی
مراحل عامہ ،خاصہ ، عالیہ ، عالمیہ کی تدریس دونوں میں ہو رہی ہے۔ کلاس میں دو دو یا
چار چار طالب علم ہی ہوں۔ مگر بخاری شریف کی کلاس لازمی ہوگی۔ زیادہ تر مدارس شخصی
اور ذاتی ہیں۔ لہٰذا اس کے معیارتعلیم اور کارکردگی پر کوئی سوال نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بات دیکھنے اور مشاھدے میں آئی ہے کہ ان میں داخلی نظام بہت کمزور ہے۔ اساتذہ اور
طلبہ کی باقاعدہ حاضری کا نظام نہیں۔ اگر ان میں سے کوئی غیر حاضر ہو تو باز پرس ممکن
نہیں۔ تعلیمی ماحول کا اہتمام نہیں۔ تعلیمی اوقات کی پابندی نہیں ، صفائی ستھرائی کا
نظام نہیں۔ تعلیم کے ساتھ تربیت اور اصلاح احوال کا ذرا بھی خیال نہیںکیا جاتا اور
بہت سے ایسے مسائل ہیں جو پریشان کن ہیں۔
میں نے اوپر جو
حقائق بیان کیے ہیں محض فرضی نہیں۔ بلکہ زمینی حقیقت ہے۔ ان سب مدارس پر سالانہ کروڑوں
روپیہ صرف ہو رہا ہے۔ جو لوگوں سے زکاۃ اور عشر وغیرہ کی مد میں وصول کیا جاتا ہے۔
اب غور طلب بات ہے کہ ہم اس سے معاشرہ کو کیا دے رہے ہیں۔ فارغ التحصیل ہونے والوں
میں کتنے فیصد ایسے علماء ہیں جو باصلاحیت اوردینی علوم کی تدریس کا فریضہ انجام دے
سکتے ہیں۔ کتنے علماء جو فتوی دینے ، دینی رہنمائی اور روز مرہ کے مسائل بیان کر سکتے
ہیں‘ یہ میرے سمیت ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے؟
یہ ضروری نہیں کہ
جھوٹے ادارے کوئی عمدہ کارکردگی نہ دیکھا سکتے ہوں یا بڑے ادارے ہرحال میں کامیاب ہوں۔
کامیابی اور حسن کارکردگی کا دارومدارسمجھدار منتظمین‘ قابل ترین اساتذہ‘ اعلی ترین
فکر اور مقاصد پر منحصر ہے۔ جو ادارے اعلی ترین نصب العین متعین کرکے اس کے حصول میں
دن رات کوشاں ہیں۔ بلاشبہ ایک دن وہ ضرور اپنی منزل پالیتے ہیں‘ اپنے اداروں سے راسخ
العقیدہ علماء ، صاحب بصیرت دعاۃ اور خطباء اور فہیم اساتذہ فارغ التحصیل کرتے ہیں۔
جو معاشرے کی ضرورت کو باحسن انداز پوری کرتے ہیں۔
آپ سب قارئین کو
علم ہے کہ گذشتہ چند مہینوں میں ممتاز شیوخ الحدیث قابل ترین اساتذہ اور قراء دانشور
مفکرین رحلت فرماگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی بشری لغرشوں
کو معاف فرمائے اور جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔ ان کے جانے سے جو خلا پیدا
ہوا ہے وہ مدتوں پر نہیں ہو سکتا۔ لیکن اب ایسا بھی نہیں کہ دین ودنیا کا کام رک جائے،۔
البتہ کام تو چلے گا مگر اس معیار کا نہیں ہوگا جو یہ بزرگ کرتے رہے ۔ اس صورت میں
کیا ہمیں اس پر اکتفا کر لینا چاہیے یا محنت لگن اور مسلسل جدوجہد سے اسے بہتر بنانا
چاہیے۔
یہی وہ درامندآنہ
اپیل ہے جو میں آپ سب صاحب اختیار لوگوں سے کرنا چاہتا ہوں کہ موجودہ بحرانی کیفیت
میں ہمیں پہلے سے زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پوری توجہ اخلاص اور للہیت سے
کام کرنا ہوگا۔ اور ایسے رجال کار تیار کرنا ہونگے جو اس خلاکو پر کرسکیں۔ جو بزرگوں
کے جانے سے پیدا ہوا اور ایسے علماء جو مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ حکمت
وبصیرت سے دعوت وارشاد کا کام کر سکتے ہوں۔ ایسے مفتی حضرات جو قرآن وسنت کی تعلیمات
کے مطابق فتوی دے سکتے ہوں۔ ایسے داعی اسلام جو دعوت اسلام کو محبت اور ہمدردی کے جذبے
سے پیش کر سکتے ہوں۔
بہت ہی قابل قدر
منتظمین واساتذہ کرام! اولین ذمہ داری ہماری ہے کہ ہم اپنے اپنے اداروں میں ایسا ماحول
پیدا کریں جو علمی وعملی ہو۔ صاف ستھرا اور پرکشش ہو۔ تعلیمی وتحقیقی ہو۔ طلبہ میں
علم کا شوق پیدا کریں۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ قطعی احکامات کی آیات ازبر کرائیں۔
نصوص زبانی یاد کریں۔ احادیث کے متون پر گہری نظر ہو۔ فقہ پڑھاتے ہوئے طلبہ کو فقہ
کی اہمیت ، ضرورت اور افادیت سے آگاہ فرمائیں۔ نیز فقہا ء کرام کے مقام ومرتبہ اور
خدمات کا تذکرہ جمیل کریں۔ اختلاف کے باوجود ادب واحترام سے ذکر کریں۔ فقہی مسائل کی
صحیح تفہیم کرائیں تاکہ معاشرے کی ضرورت کے مطابق مسائل بیان کر سکیں۔ فقہ کے باب میں
طلبہ میں تشدد پیدا نہ کریں۔ اگرچہ نصوص قطعیہ اور ثوابت کے بارے میں دوسری رائے نہیں۔
طلبہ میں غور وفکر اور تفقہہ کی صلاحیت پیدا کریں۔
چند ایسے کام ہیں
جن کے کرنے سے ہم بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ اس پر عمل کرنے سے اخراجات میں اضافہ
نہیں ہوگا۔ البتہ انتظامیہ اور اساتذہ کو وقت کی قربانی دینی ہوگی۔
1 ماحول کا اچھا ہونا ضروری ہے۔ طلبہ کو احساس
ہو کہ وہ تعلیمی ماحول میں وقت گزار رہے ہیں۔
2 کلاس میں طلبہ کو نوٹس لکھنے کی عادت ڈالیں
جو استاد بھی کوئی سبق پڑھا رہا ہے طلبہ اس کو کاپیوں پر نوٹ کریں۔ محض سماعت پر اکتفا
نہ کریں۔
3 اگر نصاب مکمل نہیں ہورہا تو باقی نصاب پر طلبہ
خلاصہ لکھیں اور اس کے نمبر ہوں۔
4 ہر استاد اپنے اسباق کا گاہے بگائے ٹیسٹ لے۔
5 طلبہ کو لکھنے کی عادت ڈالیں جس کے لیے انہیں
ہوم ورک دیا جائے۔
6 طلبہ کو مطالعہ کا پابند کیا جائے تاکہ پڑھے
ہوئے اسباق از بر ہوں اور آئندہ کی تیاری طلبہ آپس میں مذاکرہ کریں۔
7 طلبہ کو عادت ڈالیں کہ وہ نصابی کتابیں اپنی
خریدیں اور ان پر بھی نوٹ لکھیں ۔
8 وفاق المدارس السلفیہ کا نصاب تمام علوم کا
احاطہ نہیں کرتا لہذا اس کے حل کے لیے آپ طلبہ کے تعلیمی مرحلے اور استعداد کے مطابق
کچھ ایسی کتابیں متعین فرمائیں جو نصاب میں
شامل نہیں لیکن ان کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔ جیسا کہ عالم اسلام کی موجودہ سیاسی ،
اقتصادی ، ثقافتی صورت حال یا وہ تنازعات جو عرب ممالک میں موجود ہیں۔ تقسیم پاکستان
میں ہمارے بزرگوں کا کردار ، علماء کے فتویٰ جات وغیرہ ان کا مطالعہ لازمی قرار دیں
اور انہیں پابند کریں کہ وہ اس کا خلاصہ لکھ کر دیں۔
9 طلبہ کے لیے اخبار لگوائیں انہیں شوق دلائیں
کہ وہ خبر وں پر نظر ڈالیں‘ مختلف کالم پڑھیں تاکہ حالات حاضرہ سے آگاہ رہیں۔
0 آخری کلاس ( بخاری شریف پڑھنے والے طلبہ )
کے تحقیقی علمی مقابلہ لازمی قرار دیں اور موضوعات کا انتخاب ادارہ کرے بڑے اساتذہ
اشراف کریں۔
! تمام مسالک کے دینی جرائد لگوائیں۔ اساتذہ بھی
مطالعہ کریں۔ اور طلبہ کو بھی دیں ان میں اگر کوئی مضمون قابل مواخذہ ہو تو جواب لکھوائیں۔
@ اساتذہ کرام کے لیے سال میں کم ازکم دو تربیتی
ورکشاپ کرائیں۔ جس میں اسلوب تدریس / طلبہ کی نفسیات / وقت کی پابندی / اچھے نتائج
حاصل کرنے کا طریقہ اور دیگر موضوعات پر گفتگو کرائیں۔
# طلبہ کی تربیت میں اساتذہ کرام کی عملی زندگی
کو بہت دخل ہے لہٰذا استاد خود نماز تلاوت ، ذکر واذکار ، روزے اور مطالعہ کا اہتمام
کریں۔ اس کا خود بخود اثر طلبہ پر ہوگا۔
$ طلبہ کے والدین یا سرپرستوں سے رابطہ رکھیں۔
طالب علم کی بہتر کارکردگی کا میابی اور اچھے نتائج پر انہیں خوشی کی خبر دیں۔ اگر
طالب علم غیر حاضری کرتا ہے ۔ قانون شکنی کرتا ہے ۔ آوراہ گردی کرتا ہے تو اسے وارننگ
دیں۔ اگرباز نہ آئے تو اس کے والدصاحب کو بلا کر بات کی جائے۔ امید ہے اس سے ہی وہ
راہ راست پر آجائے گا۔
% طلبہ کی فکر اور سوچ بلند کریں۔ اچھے مستقبل
کی نوید دیں۔ مایوسی کی باتیں نہ کریں۔ اس سے پڑھنے کا شوق پیدا ہوگا۔
^ طلبہ میں ادارے کے ساتھ گہری وابستگی اور وفاداری
کا جذبہ پیدا کریں۔ اسے ترغیب دیں کہ اپنی جیب خرچ سے کچھ حصہ ادارے کی تعمیر اور اس
کی ترقی پر بھی خرچ کرے۔ اس طرح قدرتی طور پر اس کے دل میں ادارے کے ساتھ محبت پیدا
ہوجائے گی۔
& تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ سے ادارے کی خدمت کاکام
لینا چاہیے اس سے وہ کام کرنے کا سلیقہ سیکھے گا جو اسے مستقبل میں کام دے گا۔
* ادارے میں گاہے بگاہے معتبر علماء جو علم وعمل
کے پیکر ہوں بلایا جائے۔ طلبہ کو وعظ کرنے کے ساتھ کچھ وقت طلبہ میں گزارے اس سے عملی
زندگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
( طلبہ کے سامنے اسلاف کا ذکر کرتے ہوئے نہایت
ادب واحترام کا مظاہرہ کریں۔ ان کی خوبیوں کا ذکر کریں اور کسی کی غلطی یا کوتاہی کو
بطور مثال پیش نہ کریں۔
) انتظامیہ اور اساتذہ باہمی محبت الفت احترام
کی فضا بنا کے رکھیں۔ اختلاف رائے کی صورت میں طلبہ کے سامنے قطعاًبحث نہ کریں۔
میں نے جن چیزوں
کا اظہار کیا ہے آپ کے لیے شاید نئی نہ ہوں لیکن ہم بہت جلد بھول جاتے ہیں۔ اس لیے
تذکرہ کے طور پر چند گذارشات کی ہیں۔ امید ہے ناراض ہونے کی بجائے انہیں اپنانے کی
کوشش کریں گے۔
No comments:
Post a Comment