مسکراتا چہرہ ... دھیمہ لہجہ
تحریر: جناب پروفیسر
عتیق اللہ عمر
مخلص محنتی وفاشعار اور دیانت دارلوگ جماعتوں کا عظیم ورثہ ہوتے ہیں۔ مرکزی جمعیت
اہل حدیث پاکستان کو میسر آنے والی ایسی کئی ایک شخصیات میں ایک جلی نام بشیر احمد
انصاری ایم اےa کا
تھا۔
راقم ۱۹۹۸ء میں جب اہل حدیث یوتھ فورس پاکستان کا نائب صدر بنا تو انصاری صاحب
مرحوم سے اولین ملاقات اور آشنائی ہوئی ۔
سادہ مزاج خوش اخلاق خوش شکل خوش گفتار جماعت کے لیے انتہائی مخلص اور ہر دم سرگرم
عمل‘ صحافت کی دنیا کا عظیم انسان‘ کچھ نہ کہہ کے بھی سب کچھ کہنے والا‘ اپنے قلم کے
ذریعے جہاد کرنے والا اور اپنے ادارے میں بالکل ایک مشفق باپ کی طرح سب کو ساتھ لے
کر چلنے والا یہ عظیم انسان آج ہم میں نہیں رہا لیکن یہ سچ ہے کہ انسان چلے جاتے ہیں
کردار زندہ رہتے ہیں۔
نہ صرف یہ کہ اپنے ادارے رسالہ اہلحدیث کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے بلکہ جماعت
کے باقی لوگوں کو بھی انتہائی خوبصورت انداز میں جماعتی کام کے لیے توجہ دلاتے۔
مجھے جمعیت اساتذہ پاکستان کی حالیہ ذمہ داری ملی تو انتہائی مشفقانہ انداز میں
نصیحتیں فرمائیں۔ جب سلسلہ آگے بڑھا‘ تھوڑا کام نظر آیا تو ہر وقت حوصلہ افزائی کرتے
تھے۔ جب کبھی ان کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا ہمیشہ اپنی مخصوص مسکراہٹ سے استقبال کیا
۔نماز کا وقت ہوا تو بروقت پہنچے۔ آنے والے مہمانوں کا خوش دلی سے استقبال کیا جو بھی
مطالبہ تھا اسے احسن انداز میں پورا کیا۔
اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ جو انسان بھی اس جہان میں آیا ہے اسے بہر صورت
واپس پلٹنا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ انسانوں کے اچھے اعمال اور بہترین زندگی ہی ان
کو تاریخ کے صفحات میں امر کر دیتی ہیں۔
بلاشبہ انصاری صاحبa بھی
ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جو ہمیشہ جماعت کی قیادت اور کارکنان کے دلوں میں زندہ
رہیں گے۔ ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو پل دو پل کی بات نہیں نصف صدی کا قصہ ہے۔ حضرت
علامہ شہید رحمۃ اللہ علیہ کی رفاقت سے لے کر سینیٹر پروفیسر علامہ ساجد میر صاحب کی
قیادت تک اپنا کام بحسن و خوبی نبھاتے رہے۔ جہاں پر ان کے باقی کام یاد رکھے جائیں
گے وہیں الاسلام ڈائری کی خوبصورت اشاعت بھی ان کا صدقہ جاریہ بن کے ہمیشہ زندہ رہے
گی۔ ان شاء اللہ العزیز !
رسالہ اہل حدیث میں ان کے لکھے جانے والے اداریے بلاشبہ دین اسلام‘ نظریہ پاکستان‘
حالات حاضرہ‘ جماعتی غیرت اور عظیم رہنمائی کا کام دیتے رہیں گے۔
جماعت کے ساتھ ان کی وابستگی کا بہترین ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ خرابی طبع کے باوجود
دیر تک گوجرانوالہ سے لاہور کا سفر کر کے اپنی ادارتی ذمہ داری کے لیے تشریف لاتے رہے۔
زندگی کا کام ہے چلتے رہنا چاہیے۔ اچھا کریں یا برا یا کچھ بھی نہ کریں یہ پھر
بھی گزر جائے گی لیکن ایسے لوگوں کی وفات کے بعد یقینا یہ احساس زیادہ اجاگر ہو جاتا
ہے کہ زندگی کچھ کرنے اور کر جانے کا نام ہے۔ حیات جاوداں تبھی نصیب ہوتی ہے جب آپ
کی زندگی گزرتی نہیں بلکہ آپ زندگی گزار کے جاتے ہیں۔
بشیر احمد انصاریa ہر
اعتبار سے جماعتی لوگوں کے لئے ایک عظیم رہنما کی شکل میں موجود رہیں گے۔ وہ کہ جن
کی خدمات بہت زیادہ‘ وہ کہ جن کے لہجے بہت میٹھے‘ وہ کہ جن کی وفا شکوک وشبہات سے بالاتر
وہ کہ جن کی محنت انتھک ‘ وہ کہ جو شعوری طور پر جماعت کی عظیم خدمات سرانجام دیتے
رہے۔ … وہ کہ جنہوں نے کبھی معاملات میں الجھنے کی بجائے سلجھنے اور سلجھانے کا کام
کیا … وہ جو غیبت سے پاک … وہ کہ جو سازشوں سے مبرا … وہ کہ جو اپنے کام کے دھنی… وہ
کہ جو ہر ایک کا دل موہ لینے والے … وہ کہ جو مسکراتے لفظوں سے ہی سخت بات کہنے والے۔۔۔
ایسے خال خال ہوتے ہیں لیکن وہ کمال ہوتے ہیں۔
جماعت کے آنسو ان کے لیے بہ رہے ہیں … ہر کوئی ان کے جنازے میں پہنچنے کی کوشش
میں۔ … ہم بحیثیت جماعت‘ جمعیت اساتذہ پاکستان‘ جماعتی احباب اور ان کے لواحقین کے
غم میں برابر کے شریک ہیں۔ مرحوم کی بلندی درجات کے لیے دعا گو ہیں اور ان کے لواحقین
کے لیے صبر اور اجر کی امید رکھتے ہیں۔ یقین جانیے بلاشبہ ان کی وفات ایک بہت بڑا صدمہ
ہے لیکن ان کی پوری زندگی اس بات کا پیغام ہے کہ جیو تو ایسے!
No comments:
Post a Comment