بابائے صحافت ... محمد بشیر انصاری رحمہ اللہ
تحریر: جناب مولانا
محمد بلال ربانی (سیالکوٹی)
جب سے شعور بیدار ہوا تبھی سے خود کو لاشعوری طور پر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان
کا ہمدرد پایا۔ اس کی وجہ والد محترم کی جماعت سے محبت اور گھر میں مرکزی جمعیت اہل
حدیث پاکستان سے وابستہ علماء کرام کے تذکرے اور ان کی کیسٹوں کی صورت میں چلنے والے
مواعظ حسنہ تھے کہ جنہوں نے ہمیں کسی اور جانب دیکھنے ہی نہ دیا اور ہم مرکزی جمعیت
اہل حدیث پاکستان سے وابستہ ہوئے۔ یہ تعلق آج تک قائم ہے اور امید ہے سانسوں کی جب
تلک روانی ہے تب تلک ہمارا تعلق مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سے ہے رسمی دنیاوی تعلیم
کے بعد اثری علوم کی تحصیل کے لیے جن مدارسِ دینیہ کا رخ کیا اور جن اساتذہ کے سامنے
زانوئے تلمذ تہہ کیے وہ سبھی مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سے وابستہ تھے۔ ابتدائی
مدارج ہی طے کرنے کی جستجو میں تھے کہ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے ہفت روزہ ترجمان
مؤقر جریدے اہل حدیث سے شناسائی ہوئی۔
گذشتہ تئیس سال سے ہمارا ہفت روزہ اہل حدیث سے ایسا تعلق قائم ہوا ہے کہ جہاں کہیں
بھی کسی بھی لائبریری میں ہفت روزہ اہل حدیث کو دیکھتے ہیں تو عجب خوشی کا احساس ہوتا
ہے۔ ہفت روزہ اہل حدیث کی اشاعت میں چند نام پچھلے کئی برس سے ہم بطورِ خاص دیکھتے
چلے آرہے ہیں جن میں درس قرآن پروفیسر احمد حماد‘ درس حدیث پروفیسر عبد الرحمان لدھیانویa اور
رسالے کی پیشانی پر جلی حروف میں الگ سے روایتی مولویانہ تخلصات، لواحقات اور القابات
کے بغیر بطور مدیر اعلیٰ محمد بشیر انصاری (ایم اے) تو جب سے ہم ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘
کے قاری بنے تب سے اب تک دیکھتے آئے ہیں۔ تئیس سالوں میں بہت کچھ بدلا لیکن مجلہ
’’اہل حدیث‘‘ سے جناب بشیر انصاریa کا نام نہیں بدلا۔
حضرت بشیر انصاری رحمہ اللہ نے ۱۹۶۹ء سے
عملی طور پر خارزار صحافت میں قدم رکھا جب آپ کو علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدa نے
اپنے رسالہ ترجمان الحدیث کی مجلس ادارت میں شامل کیا۔
۱۹۷۲ء میں جب علامہ
احسان الٰہی ظہیر شہیدa نے
ہفت روزہ اہل حدیث کی ادارت کے فرائض سنبھالے تو حضرت انصاری کو اپنے ساتھ بطور معاون
رکھا۔ علامہ شہید نے جب اپنی بے پناہ مصروفیات کے پیش نظر ہفت روزہ کی ادارت کو چھوڑ
دیا تو جناب بشیر انصاریa ادارت
کے فرائض ادا کرنے لگے اور کچھ عرصے تک ’’الیوم‘‘ کے نام سے اپنی رشحات قلم سے اہل
فکر کو نوازتے رہے۔
۱۹۷۵ء سے ۱۹۹۰ء تک
آپ علامہ شہید کی جمعیت اہل حدیث کے ترجمان ’’الاسلام‘‘ کے مدیر اعلیٰ کے فرائض ادا
کرتے رہے۔ ۱۹۹۰ء میں جب جماعت کے مختلف دھڑے متحد ہوئے تو ہفت روزہ اہل حدیث جماعت
کا ترجمان قرار پایا تو جناب بشیر انصاری رحمہ اللّٰہ ہفت روزہ اہل حدیث کے مدیر اعلیٰ
مقرر ہوئے اور ہفت روزہ اہل حدیث سے آپ کا یہ تعلق تادم واپسیں قائم رہا۔
تراشیدہ ریش‘ عینک کے عقب سے جھانکتے جہاندیدہ‘ دیدے سر کے بال اگرچہ واشتعل الرأس
شیبا کی تصویر لیکن خضاب سے رنگے ہوئے‘ بڑھاپے میں آتش جوان ہے کا پتہ دیتے۔ تبسم سے
لبریز اپنائیت سے بھرپور چہرے کے ساتھ مرکز اہل حدیث میں ہفت روزہ اہل حدیث کے دفتر
میں کرسی ادارت پر براجمان شخصیت جناب بشیر انصاری جن کے نام کے ساتھ اب ہمیشہ کے لیےa کا
لاحقہ خاص ہوگیا ہے کیونکہ اب وہ کرسی خالی ہوچکی ہے اور حضرت انصاری دارفانی سے داربقا
کی طرف کوچ فرما گئے ہیں۔
حضرت بشیر انصاری رحمہ اللّٰہ ان نفوس میں سے تھے جنہوں نے ۱۹۴۷ء میں تقسیم وطن
کی خاطر لٹتے کاررواں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھے اور آپ خود بھی ان لوگوں میں شامل
تھے جو آزمائش کی اس بھٹی سے گزر کے پاک سر زمین پر پہنچے‘ تب آپ کی عمر محض تیرہ برس
تھی کہ جب آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کی ہمشیرہ اور آپ کے بہنوئی اپنے مقدس خون سے پاک
سر زمین کی آبیاری کر گئے۔
امرتسر کے نواح میں جنڈیالہ گرو اسٹیشن بھنگواں سے مہاجرین کے کارواں کے ساتھ نکلے تو اپنے خاندان
سمیت گوجرانولہ کو اپنا مسکن بنایا‘ آپ کے آباء مستقل مزاج ٹھہرے تھے لہٰذا بڑوں نے
گوجرانوالہ کو حیات مستعار کے تمام شب و روز بتانے کے لیے مستقل ٹھکانہ قرار دیا تو
پھر گوجرانوالہ ہی کے ہو رہے۔
آپ ایسے خانوادے سے تھے جو اس دور میں بھی تعلیم کی اہمیت سے آگاہ تھے لہٰذا تعلیم
و تعلّم کا آغاز تو جنڈیالہ ہی سے ہوا تھا اور ابتدائی مدارج وہیں سے طے کر چکے تھے‘
ہفت روزہ نوید ضیاء گوجرانوالہ کی ۶‘ ۷ نومبر ۲۰۰۸ء آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس نمبر
کی اشاعت میں حضرت انصاری رحمہ اللّٰہ کا انٹرویو شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے اپنے
ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بیان کیا تھا کہ ماسٹر عبدالحمید‘ ماسٹر محمد داؤد‘
ماسٹر دیال سنگھ‘ ماسٹر لال دین اور ماسٹر پندلال سنگھ وہ شخصیات ہیں جن سے آپ نے حروف
اور الفاظ کے استعمال کے رموز سیکھے۔
تقسیم کے بعد گوجرانوالہ آئے تو یہاں دینی علوم کی تحصیل کے لیے جامعہ اسلامیہ
کا رخ کیا‘ یہ ادارہ آپ کے خاندان نے ہی قائم کیا تھا جو آج بھی قائم ہے اور اس کے
فیض یافتگان کی کثیر تعداد ملک اور بیرون ملک میں خدمت اسلام کے عظیم فریضے کی ادائیگی
میں مصروف ہے۔ جامعہ اسلامیہ میں شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانبازa اور
قاری محمد یحییٰ بھوجیانیa جیسی
عظیم علمی شخصیات سے اسلامیات کے مروجہ علومِ کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں اسلامیہ کالج
گوجرانولہ سے بی اے کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی کا رخ کیا اور وہاں سے اسلامیات اور
اردو ادبیات میں ماسٹر کی ڈگریاں حاصل کیں۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت انصاری رحمہ
اللّٰہ ڈبل ایم اے تھے۔ اسے آپ اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے
شکر گزار رہتے۔ صوفی محبوب الٰہی، مظفر علی سید، پروفیسر اسرار احمد خان آپ کے اسلامیہ
کالج گوجرانولہ کے وہ اساتذہ ہیں جن کی شفقتیں آپ کو ہمیشہ یاد رہیں۔ پنجاب یونیورسٹی
میں گذرے ایام کو یاد کرتے تو اپنے اساتذہ میں
ڈاکٹر سید عبداللہ‘ ڈاکٹر وحید قریشی‘ پروفیسر حمید احمد خان جیسی عظیم شخصیات
کا بطور خاص تذکرہ فرماتے۔
حضرت انصاریa نے
عملی زندگی کا آغاز بینک کی نوکری سے کیا لیکن سودی نظام کو جلد ہی خیرباد کہہ دیا
اور اپنا تعلق لکھنے پڑھنے کے ساتھ جوڑتے ہوئے خارزار صحافت میں قدم رنجہ فرما دئیے۔
بچپن ہی سے کتب بینی کا شوق تھا کہ جس کی وجہ سے آپ نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا اور
پھر تادم واپسیں اسی کے ساتھ منسلک رہے۔
اخبارات و جرائد کی دنیا میں ممدوح بشیر انصاریa وقار سنجیدگی اور متانت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ ہفت
روزہ اہل حدیث میں رقم ہونے والے ادارئیے آپ کی سنجیدگی اور حالات حاضرہ پر مکمل گرفت
کے غماز ہوتے۔ ہفت روزہ اہل حدیث کے مدیر اعلیٰ توآپ تھے ہی لیکن بعض دیگر جرائد بھی
آپ کی ادارت میں طبع ہوتے رہے۔
نہ صرف آپ اخبارات و جرائد سے وابستہ رہے بلکہ اپنا قلم رواں رکھا اور تحریک اہل
حدیث، افکار وخدمات، پاکستان میں اہل حدیث، مشاہیر کے خطوط نامی وقیع کتب لکھیں جو
تاریخ عالم میں شاندار اضافہ ہیں۔ ان کے علاوہ رہنمائے حج و عمرہ کے نام سے انگریزی
میں لکھی گئی کتاب انگریزی جاننے والے لوگوں کے لیے اک نایاب تحفہ ہے۔
جناب بشیر انصاریa کو
اپنی زندگی میں دنیا کے کئی ممالک کے اسفار کا بھی موقع ملا جن میں سعودی عرب، عراق،
کویت، جاپان‘ برطانیہ اور کینیڈا سر فہرست ہیں سعودی عرب تو ایک مرتبہ آپ سعودی حکومت
کی دعوت پر تشریف لے گئے اور وہاں ریاض ریڈیو پر آپ کے مشاہدات پر مبنی آپ کے خطابات
نشر ہوتے رہے۔
خوش اخلاقی اور وضعداری کا عملی نمونہ جناب بشیر انصاریa کہ جنہیں گوجرانوالہ ہی سے مولانا امتیاز محمدیd بابائے
صحافت قرار دیتے ہیں۔ یہ لقب یقینا آپ کے شایاں ہے کہ آپ عمر بھر صحافت کے مقدس پیشے
سے جڑے رہے اور اپنی صلاحیتوں کو اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے استعمال کیا۔
آپ امیر محترم سینیٹر پروفیسر ساجد میرd کے معتمد ساتھی تھے۔ ہوائیں بدلیں فضائیں بدلیں مگر
بشیر انصاریa کی
وفائیں مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان اور حضرت الامیر سینیٹر پروفیسر ساجد میرd کے
ساتھ بدستور قائم رہیں۔ محبتوں‘ الفتوں میں ڈھلی زیست کا یہ سفر اٹھاسی برس کی عمر
میں تکمیل کو پہنچا۔ پسماندگان میں تین بیٹے اور تین بیٹیوں کے علاوہ بے شمار چاہنے
والوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔
اس کے لطف سے قائم ہے زندگی ورنہ
کوئی قدم بھی ہمارا عدم سے دور نہیں
پر یقین رکھنے والے حضرت بشیر انصاریa کی نماز جنازہ ۶ ستمبر کو امیر محترم سینیٹر پروفیسر
ساجد میرd کی
اقتداء میں ادا کی گئی اور سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں آپ کو بخشش اور رحمت الٰہی
کے حصول کے یقین کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔
No comments:
Post a Comment