جناب بشیر انصاری رحمہ اللہ کی
داستانِ زیست
انٹرویو: جناب مولانا
محمد ابرار ظہیر
ہفت روزہ اہلحدیث پاکستان بھر کے اہلحدیث کا نمائندہ اور ترجمان اخبار ہے۔ ہر ہفتے
تمام جماعتی احباب اس رسالے کا بڑی شدت سے انتظار کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کے ذریعے انہیں
جماعتی تحرک کی ایک شکل نظر آتی ہے جماعتی سرگرمیاں، علمی مضامین، روزمرہ کے پیش آمدہ
مسائل کا شرعی حل، مختلف شہروں، اضلاع میں ہونے والی جماعتی سرگرمیوں کا اندازہ اسی ہفت روزہ سے ہوتا ہے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ
ایسے اخبار کی تیاری میں کتنی محنت اور کس قدر جانفشانی کرنا ہوتی ہوگی۔ مضامین کی
ایڈیٹنگ، شرعی مسائل کے حوالے سے سوالات کے جوابات کی پروف ریڈنگ، آنے والے خطوط اور
تجاویز کا عرق ریزی سے مطالعہ، جماعتی خبروں کی کوریج اور خصوصی طور پر ’’اہلحدیث‘‘
کا اداریہ کتنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ ان کاموں کو دیکھ کر یہ خیال ابھرتا ہے کہ جماعت
کے ترجمان اس اخبار کا مدیر کوئی دھان پان سی شخصیت کا حامل ہوگا۔
کتابی چہرہ پر ہمیشہ خشکی کی دبیز چادر تنی ہوئی ہوگی، ہر وقت سنجیدگی کا مرقع
بن کر کسی سے بھی ملنے سے احتراز کرتا ہوگا، مگر جب ان تاثرات کو لے کر کوئی شخص مرکز
اہلحدیث میں موجود ’’ ہفت روزہ اہلحدیث‘‘ میں
جاتا ہے، دفتر کا دروازہ کھولتے ہی سامنے ایک دبلی پتلی شخصیت کو کتابوں میں گم مگر
چہرے پر مسکراہٹ سجائے دیکھتا ہے تو پہلی نظر میں تو یہی سمجھتا ہوگا کہ یہ اس اخبار
کا مدیر نہیں بلکہ کوئی عام کارکن ہے، مگر تعارف پر آنے والا بندہ حیران رہ جاتا کہ
یہی وہ شخصیت ہے کہ ’’ہفت روزہ اہلحدیث‘‘ کی تیاری میں جس کی راتوں کا آرام اور دن
کا چین صرف ہوتا ہے، جس کی تحریروں سے جماعت کی محبت، مسلک سے عقیدت اور اہل مسلک و
جماعت سے چاہت ٹپکی پڑتی ہے۔ جناب بشیر انصاری حفظہ اللہ کا تعلق قبیلہ صحافت کے اس
طبقے سے تھا جنہوں نے صحافت کو مشن بنا کر زندگی گزار دی، بلامبالغہ یہ کہا جا سکتا
ہے کہ جناب بشیر انصاری ’’غلام رسول مہرؒ
‘‘ صلاح الدین شہیدؒ، ابولکلام آزادؒ، مولانا ظفر علی خانؒ جیسے نابغہ صحافت
افراد کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ جناب بشیر انصاری جب سے میدان صحافت میں آئے اکابرین
جماعت کی نظروں سے ایک لمحے کے لیے بھی اوجھل نہیں رہے۔ آپ نے صحافت کا عملی اور باضابطہ
آغاز ۱۹۶۹ء میں کیا جب آپ حضرت علامہ شہیدؒ کے’’ ترجمان الحدیث‘‘ کے ادارتی بورڈ
کے ایک اہم رکن بنے۔ ۷۳-۱۹۷۲ء میں حضرت علامہ شہیدؒ کو جب ’’ہفت روزہ اہلحدیث ‘‘کا
ایڈیٹر مقرر کیا گیا تو انہوں نے جناب بشیر انصاری کو اپنا معاون خاص بنا لیا اور پھر
جب حضرت علامہ شہید کی مصروفیات ایک مخصوص حد سے آگے بڑھیں تو انہوں نے ’’ہفت روزہ
اہلحدیث‘‘ کی ادارت سے استعفیٰ دے دیا۔ یوں جناب بشیر انصاری کو اس کا مکمل مدیرالمہام
مقرر کردیا گیا۔ ۱۹۷۴ء میں آپ نے ’’الیوم‘‘ کے نام سے ہفت روزہ کو اپنے افکار و آراء سے مزین کیا۔ پھر
۱۹۷۵ء سے ۱۹۹۰ء تک آپ جمعیت اہلحدث کے ترجمان ’’الاسلام‘‘ کے مدیر بن کر جماعت کے
پیغام کو دنیا تک پہنچاتے رہے۔ ۱۹۹۰ء میں جب جماعت کے مختلف گروپوں میں صلح ہوئی اور’’ہفت
روزہ اہلحدیث‘‘ کو جماعت کا نقیب مقرر کیا گیا تو جناب بشیر انصاری کو اس کا ایڈیٹر
بنادیا گیا۔ تب سے اب تک جناب انصاری صحافت کی دنیا میں ہفت روزہ اہلحدیث کے حوالے
سے صحافتی حلقوں میں ایک پختہ کار اور صاحب نظر صحافی کے طور پر جانے جاتے تھے۔ بڑے
عرصے سے جناب بشیر انصاری سے ان کی داستان زیست سننے کی خواہش سینے میں پنپ رہی تھی،
مگر فرصت کے اوقات کبھی ہمیں میسر نہ آتے تو کبھی جناب بشیر انصاریa کی
مصروفیات ہمارے ارادے کی راہ میں دیوار بن کر کھڑی ہوجاتیں۔
ہفت روزہ نوید ضیاء کے ’’کانفرنس نمبر‘‘ کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا
کردیئے کہ ہماری مشکل آسان ہوگئی۔ تو آئیے قارئین! جماعت کے ترجمان مرکزی جمعیت اہلحدیث
کی تاریخ پر ایک شخصی انسا ئیکلو پیڈیا کی
حیثیت کے حامل جناب بشیر انصاری کی داستان حیات ان ہی کی زبانی سنتے ہیں۔ شک نہیں کہ
الفاظ راقم کے ہیں جو جناب بشیر انصاری کے شایان شان تو شائد نہ ہوں مگر بہر حال ان
کے جذبات کی ترجمانی ضرور کریں گے۔ جناب بشیر احمد انصاری نے فرمایا کہ
’’میرا نام محمد
بشیر انصاری ہے۔ مگر بشیر انصاری ایم اے کے نام سے لوگ زیادہ جانتے ہیں۔ ہمارا خاندانی
پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ ہمارے آبائو اجداد ’’جنڈیالہ گروا سٹیشن‘‘ (بھنگواں ضلع
امرتسر) کے رہائشی تھے۔ یہ قصبہ مسلمانوں کی اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا۔ میرے والد
صاحب انتہائی شریف النفس، ملن سار، دیندار، اور درویش منش انسان تھے۔ آپ اپنے خاندان
میں انتہائی عقیدت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، ان کا اسم گرامی ’’میاں کریم
بخش‘‘ تھا۔ ۱۹۴۷ء میں جب مسلمانان برصغیر کی جہود جلیلہ کے نتیجے میں دنیا کی واحد
اسلامی نظریاتی مملکت منصہ شہود پر آئی تو ہندوئوں سکھوں کو یہ بات ناگوار گزری کہ
مسلمان ایک علیحدہ وطن میں کیوں رہیں۔ مگر یہ ایک حقیقت تھی پاکستان کے قیام کا اعلان
ہو چکا تھا، سو اس کا بدلہ انہوں نے اس انداز میں لیا کہ جو حصے بھارت میں آگئے تھے
وہاں کے مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا گیا۔ چاروں طرف نظریں اٹھانے سے سوائے قتل و
غارت گری کے کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا، مسلمانوں کے لیے ان کے باپ دادا کے مکانوں میں
رہنا نا ممکن بنادیا گیا تھا۔ جانوں کے لالے تو پڑے ہی ہوئے تھے یہاں تو عزتوں کی حفاظت
کے لیے بھی فکر مندی آن پڑی تھی ۔سو اکابرین خاندان نے اپنے مساکن کو خیر باد کہہ
دینے کا فیصلہ کر لیا۔ بے یارومددگار، غیر محفوظ اور سمت و منزل سے بے خبر یہ قافلہ
جب اپنے آباء و اجداد کے صدیوں کے مساکن کو خیر باد کہہ کر سفر ہجرت پر چل پڑا اور
گردوپیش کے خطرات سے دہکتے ہوئے سینوں میں ایک خوف تھا جان و مال عزت آبرو کے غیر
محفوظ ہونے کا، سارے راستے غیر محفوظ تھے اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ،ہمارے نہتے
قافلے پر وحشی سکھوں نے حملہ کردیا۔ مجھے آج بھی وہ دلدوز منظر یاد ہے کہ جب میری
نظروں کے سامنے میری بہن، بہنوئی اور دو بھانجیوں کو محض اس وجہ سے وحشت و بربریت کی
بھینٹ چڑھادیا کہ وہ ’’پاکستان‘‘ کو اپنی امیدوں اور آرزوئوں کا مرکز بنائے ہوئے تھے۔
آج بھی کبھی کتاب ماضی کے اوراق کوپلٹتا ہوں تو بہن کا معصوم چہرہ، بہنوئی کی غیرت
و حمیت سے پر آنکھیں اور معصوم بھانجیوں کے ننھے وجود نظروں کے سامنے آجاتے ہیں اور
پھر آنکھوں کے چلمن کو آنسوئوں کے پردے ڈھانپ لیتے ہیں۔ الغرض یہ قافلہ چلتے چلتے
امرتسر سے نکلا اور گوجرانوالہ میں مقیم ہوا۔ یہاں خاندان کے بڑوں نے فیصلہ کیا کہ
یہی شہر اب ہمارا نیا مسکن ہوگا، حیات مستعار کے باقی ایام یہیں پر بتائیں گے۔ سو ہم
نے گوجرانوالہ میں قیام کر لیا اور ایک بار پھر حوادث زمانہ کو ذہن سے کھرچنے کی کوشش
کی اور کاروبار حیات میں مگن ہوگئے۔ اس وقت میں عمر عزیز کے ۱۳ برس بتا چکا تھا۔
تعلیم کے حوالے سے جناب بشیرانصاری نے یادوں کی راکھ کریدتے ہوئے بتایا کہ
میری تعلیم کا سلسلہ
اگرچہ جنڈیالہ میں ہی شروع ہو چکا تھا اور وہیں پر ابتدائی تعلیم کے مدارج طے کر چکا
تھا، ایم بی ہائی سکول جنڈیالہ گرو (ضلع امرتسر) میں ماسٹر عبد الحمید ، ماسٹر محمد
داؤد، ماسٹر دیال سنگھ،ماسٹر لال دین اور ماسٹر پنہ لال وہ شخصیات ہیں جن کی سرپرستی میں میں الفاظ و حروف کی پہچان کرنا
شروع کی، اور پھر جب گوجرنوالہ آکر اسے اپنا مسکن بنایا تو دینی علوم کے حصول کے لیے
ہمارے ہی خاندان کا قائم کردہ ادارہ ’’جامعہ اسلامیہ‘‘ میرا مادر عملی قرار پایا۔ شیخ
الحدیث مولانا محمد علی جانبازؒ اورقاری محمد یحییٰ خان بھوجیانیؒ جیسے جید اساتذہ
کے سامنے زانوئے تلمذ بچھاتے ہوئے میں نے اسلامیات کے مروجہ علوم کی تکمیل کی اور بعد
ازاں گوجرانوالہ کے ہی اسلامیہ کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ
کچھ اور آگے بڑھا تو پنجاب یونیورسٹی میری نئی مادر علمی قرار پائی یہاں سے میں نے
علوم اسلامی اور ادبیات اردو میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔ یوں مجھے ڈبل ایم اے ہونے
کا اعزاز ملا۔ جس پر میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں۔ گورنمنٹ اسلامیہ کالج میں مجھے
پروفیسر صوفی محبوب الٰہی‘ پروفیسر مظفر علی سید، پروفیسر اسرار احمد خاں جیسے جید
اساتذہ کی شفقتیں حاصل رہیں جب کہ پنجاب یونیورسٹی میں میری صلاحیتوں میں نکھار کے
لیے ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر وحید قریشی، پروفیسر حمید احمد خاں جیسے اساتذہ میسر
آئے۔
تحریر کی دنیا میں اپنی آمد کے احوال سناتے ہوئے جناب بشیر انصاری نے بتایا
کہ
مجھے اپنے بچپن
سے ہی کتب بینی کا شوق تھا اور اس شوق کی تکمیل کے لیے بہت سی کتب میں پڑھ چکا تھا‘
ان کتب کے مطالعے نے ہی مجھے کچھ لکھنے پر ابھارا۔ اس شوق کی تکمیل کے لیے میں دوران
طالبعلمی ہی مختلف اخبارات و رسائل میں اپنے مضامین بھیجنے لگا جو الحمد للہ شائع ہونے
لگے۔
بعداز تکمیل مروجہ تعلیم جناب بشیر انصاری نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بینک کی
ملازمت سے کیا مگر ایک بزرگ نے جب اس نوکری کے دینی و روحانی نقصانات باور کرائے تو
جناب انصاری نے ایمانی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراََ اس نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔
میدان صحافت میں قدم رنجہ فرمایا، پھر یہ سفر ایسا جاری ہوا کہ میدان صحافت کے فاتح
قرار پائے‘ اس حوالے سے اپنی کتاب ماضی کے اوراق پلٹتے ہوئے جناب بشیر انصاری نے فرمایا
کہ ’’چونکہ لکھنے پڑھنے کا شوق مجھے پہلے ہی تھا۔ مگر فکر معاش نے مجھے سودی سسٹم کے
دروازے پر لا بٹھایا، مگر بہت جلد اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سودی لعنت سے بچا کر قلم
و قرطاس کے میدان میں لا اتارا‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ
باضابطہ صحافت کا
آغاز ۱۹۶۹ء میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ کے جاری کردہ ماہنامہ ’’ترجمان الحدیث
‘‘میں ادارتی بورڈ کے رکن کی حیثیت سے کیا۔
پھر ۷۳-۱۹۷۲ء میں
حضرت علامہ شہیدؒ اپنی سیاسی و جماعتی مصروفیات کی وجہ سے ہفت روزہ اہلحدیث کی ادارت سے الگ ہوئے تو اکابرین
جماعت نے مجھے اس اخبار کی ادارت کی ذمہ داریاں سونپ دیں، اس دوران ۱۹۷۴ء میں، میں
نے ’’الیوم‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ کا بھی اجراء کیا، مگر وہ تجربہ کچھ زیادہ کامیاب
نہ ہوسکا۔ ۱۹۷۵ء میں مجھے جمعیت اہلحدیث کے ترجمان ’’ہفت روزہ الاسلام‘‘ کا مدیر مقرر
کیا گیا تو پھر ۱۹۹۰ء تک ذمہ داریاں نبھاتا رہا۔
ادھر ۱۹۹۰ء میں جب جماعت کے گروپوں میں اتحاد کی شمع جلی تو اس شمع کی روشنی سے
زیادہ سے زیادہ افراد جماعت کے قلوب و اذہان کو منور کرنے کے لیے ’’ہفت روزہ اہلحدیث‘
‘کو جماعت کا آرگن بنایا گیا تو بھی اس کی ادارت کے لیے اکابرین جماعت کی نظر انتخاب
جناب بشیر انصاری پر آکر ٹھہر گئی۔ یوں تب سے اب تک جناب بشیر انصاری اپنے علم و بصیرت،
حسن ذوق و کمال، میدان صحافت کے شہسوار اور طلبائے صحافت کے لیے مربی و محسن اور استاذ
کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کالوہا منوارہے ہیں۔ تقریباََ ۳۰ سال کے اس عرصے میں جناب
بشیر انصاری کی صحافتی خدمات یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ آپ کی ہر صبح گذشتہ
شام سے روشن تر ثابت ہوئی۔ آپ کی توجہ، محنت، ایثار، استقامت، میانہ روی، قلم پر گرفت،
حالات حاضرہ کی نبض پر آپ کا ہاتھ، حالات حاضرہ میں جماعت کا موقف، پاکستان کے استحکام
کے لیے آپ کے دل کا اضطراب، نظام اسلامی کے نفاذ کے لیے آپ کی قلمی جدوجہد ہم جیسے
اخلاف کے لیے یقینا راہ عمل اور ایک اچھا نمونہ ہے۔ جناب بشیر انصاری کی انہی خوبیوں
نے انہیں ہر اس شخص کے دل کا جاگزیں کردیا جو میدان صحافت میں آنے کا متمنی تھا، بڑے
بڑے ادارے اپنے ترجمان رسائل و جرائد کی پیشانیوں پر جناب بشیر انصاری کا نام کندہ
کروانا اپنے لیے باعث فخر سمجھنے لگے۔ ماہنامہ ’’’والضحیٰ‘‘ گجرانوالہ ہو یا ماہنامہ
’’جنت الماویٰ‘‘ اس کی روشن مثالیں ہیں۔ اول الذکر ۱۹۹۱ء تا ۱۹۹۶ء اور ثانی الذکر
۲۰۰۶ء سے تاحال جناب بشیر انصاری کے نام سے جہاں اپنی قدر وقیمت میں اضافہ کرواتا رہا۔
وہاں جناب بشیر انصاری کی بلند نظری، وسعت فکری، اعلیٰ دماغی، خدمت کے ولولے اور شوق
کی فراوانی کا بھی ثبوت بنارہا۔
قارئین محترم! جناب بشیر انصاری حفظہ اللہ زندگی صرف رسائل و جرائد کے گرد ہی نہیں
گھومتی بلکہ آپ نے فرصت کے لمحات کو کبھی ضائع نہیں ہونے دینا کے اصول پر عمل پیرا
ہو کر ’’تحریک اہلحدیث ،افکار و خدمات‘‘ جیسی وقیع کتاب لکھ کر اخلاف امت پر ایک احسان
کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نجات کاراستہ نامی کتاب بھی افراد امت کی اصلاح کی ایک قابل
قدر کوشش ہے، جب کہ جناب بشیر انصاری کے نوک قلم کا شاہکار ’’راہنمائے حج و عمرہ‘‘
جو انگریزی میں لکھی گئی ہے بھی انگریزی دان طبقے
کے لیے کسی بڑے احسان سے کم نہیں۔ اس کتاب کے ذریعے ایسے لوگوں کو حج و عمرہ
کی مسنون راہنمائی ملتی ہے جو انگریزی دا ن ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس انگریزی کتاب
کا اردو ترجمہ بھی کیا جائے تاکہ اردو خواں طبقہ بھی اس سے استفادہ کر سکے۔
جناب بشیر انصاری نے دنیا کے مختلف ممالک کے بیسیوں سفر کئے، چار مرتبہ تو اللہ
تعالیٰ نے آپ کو اپنے گھر میں حاضری کے شرف سے مشرف فرمایا، ایک بار وزارت اعلام سعودی
عرب کی دعوت پر سعودی عرب کا ایک ماہ کا مطالعاتی دورہ کیا، اور اپنے تأثرات ریڈیو
ریاض پر پیش کئے جو جدہ ریڈیو سے بھی ریلے کئے گئے۔چار مرتبہ آپ کو برطانیہ جانے کا
موقع ملا، آپ دو مرتبہ کویت، ایک ایک مرتبہ جاپان اور عراق بھی ہو آئے۔ آپ کے اسفار
میں آپ کو معلومات، مشاہدات، تجربات، بصیرت، و موعظت ملی۔ آپ نے اپنے مختلف کالموں
میں ان کا تذکرہ کیا۔ امید ہے کہ آپ کے یہ سفر نامے بھی کسی دن اہل ذوق سے خراج تحسین
پالیں گے، ان شاء اللہ۔ میں نے آغاز میں عرض کیا کہ جناب بشیر انصاری کو پہلی نظر
میں دیکھنے والا آپ کے ساتھ صرف ایک مجلس کرنے والا آپ کی بارگاہ علم سے صرف ایک
مرتبہ بھی استفادہ کرنے والا سمجھتا ہے کہ یہ شخصیت اس کے دل پر نقش ہو کررہ گئی ہے۔
آپ انتہائی سادہ مزاج، حسن اخلاق کے پیکر، زبردست مہمان نواز، باکمال فرض شناس، خاموشی
اور شرافت سے اپنی ذمہ داریوں سے انصاف کرنے والے اور بڑے بڑے جید علماء کو اپنا خاموش
مداح بنانے والے ہیں۔ ہمارے دوست حافظ امتیاز محمدی انہیں بابائے صحافت کہتے تھے مگر
میں تو انہیں بابائے محبت، بابائے اخلاص، اور سراپا چاہت کہا کرتا۔ آپ ہم جیسے کمترین
لوگوں سے بھی اس طرح ملتے کہ ہمیں بھی اپنے ’’کچھ ہونے ‘‘کا احساس ہونے لگتا۔ آپ کی
محبتیں یقینا ہم پر ہی نہیں اور بھی بہت سے لوگوں پر قرض ہیں۔
جناب بشیر انصاری حفظہ اللہ کو کھانے میں مچھلی، پہننے میں شلوار قمیص، مطالعے
میں قرآن مجید، شخصیات میں پروفیسر ساجد میر﷾ کی شخصیت پسند تھی۔ پسندیدہ شعر ہے:
اسی کے لطف سے قائم ہے زندگی ورنہ
کوئی قدم بھی ہمارا عدم سے دور نہیں
آپ کو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں اور تین ہی بیٹیوں سے نواز رکھا تھا، آپ کی ساری
اولاد دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں مصروف عمل ہے۔ آپ کی ایک بیٹی جماعت کی عظیم
مبلغہ باجی ثریا شاہدؒ کی دست راست رہی ہیں، جامعہ تعلیم القرآن و الحدیث کو یہ مقام
دلانے میں ان کا کردار بہت اہم ہے۔ آج کل آپ المدرسۃ المطہرہ للبنات چاہ شاہاں کے
نام سے ادارہ چلارہی ہیں۔ امت کی بیٹیوں کی اصلاح کے لیے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے
ہوئے مصروف عمل ہیں۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ جناب بشیر انصاری کی خدمات رفیعہ
جہود جلیلہ اور مساعی جمیلہ کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔
No comments:
Post a Comment