Tuesday, September 15, 2020

میرے مربی ومحسن بشیر انصاری رحمہ اللہ 20-18

ھفت روزہ اھل حدیث، میرے مربی ومحسن، بشیر انصاری، مدیر اعلیٰ، بابائے صحافت

میرے مربی ومحسن بشیر انصاری رحمہ اللہ

تحریر: جناب حمید اللہ خان عزیز (ایڈیٹر ماہنامہ ’’تفہیم الاسلام‘‘)
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی
۵ ستمبر ۲۰۲۰ء بروز جمعۃالمبارک خاک سارجامع محمدی مسجد اہل حدیث رفیق آباد،چوک بھٹہ احمد پور شرقیہ سے خطبہ جمعہ دے کر واپس آ رہا تھا کہ موبائل پر گوجرانوالہ سے بزرگ دوست جناب عبدالقدوس شاکرd کی دو مس کالز دیکھیں۔ابھی کال کا سوچ رہا تھا کہ برادر کبیر شیخ حفیظ اللہ خان عزیزd (مدیر مسئول ماہنامہ مجلہ ’’تفہیم الاسلام‘‘) کا میسج آ گیا کہ مربی ومحسن مولانا بشیر انصاری (مدیر اعلیٰ ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘) انتقال فرما گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
میسج پڑھ کر میں نے شاکر صاحب کو فون کیا،انہوں نے بھی غمگین اور گلو گیر لہجے میں انتہائی اندوہناک خبر کی تصدیق کی۔ تر آنکھوں کے ساتھ کافی دیر زبان پر اناللہ وانا الیہ راجعون کا ورد رہا۔
{کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ} (القرآن)
آئے عشاق گئے وعدۂ فردا لے کر
اب اُنہیں ڈھونڈھ چراغ رخ زیبا لے کر
آہ! بے شمار علمائے کرام اور شیوخ عظام کی وفیات پر تعزیتی شذرے اور اداریے لکھنے والا محسن صحافت، سرمایہ عالم اسلام،مربی ومزکی آج ان تعزیتی شذرات کا خود عنوان بن گیا۔۔رہے نام اللہ کا۔
کیا شاد کہوں مرثیہ اس جان حزیں کا
جو ملت مرحوم کا خود مرثیہ خواں تھا
قانون قدرت:
قدرت کا قانون ہے کہ انسان دنیا میں آتا ہے، مقررہ زندگی گزارتا ہے اور پھر دارفانی کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔آمد ورفت کا یہ سلسلہ اٹل حقیقت ہے لیکن بعض لوگ دھرتی پر ایسے ہوتے ہیں جو پس مرگ بھی لمبے عرصے تک زندہ رہتے ہیں۔
ایسی شخصیات زمین پر اللہ کاخصوصی عطیہ ہوتی ہیں۔ایسے لوگ اگرچہ کم ہوتے ہیں۔محترم انصاری صاحب رحمہ اللہ انہی اشخاص میں سے تھے۔
وما کان قیسٌ ھُلْکُہُ ھُلکُ واحدٍ
ولکنہ بنیانُ قومٍ تَھَدَّمَا
انصاری صاحب مرحوم سے خاک سار کامربیانہ تعلق
ہے زباں میری مگر اس میں صدا ہے تیری
نغمہ زن تو ہے میرے ساز میں کیا رکھا ہے
اس طالب علم کو فخر ہے کہ عالی مرتبت جناب انصاری صاحب مرحوم کی ذات سے وافر علمی وادبی فیض پایا۔۔ان سے خط وکتابت رہی۔بالمشافہ متعدد ملاقاتیں رہیں۔کئی دفعہ انہوں نے بطور خاص فون کر کے اپنی زیر ترتیب بعض کتب کے بارے آگاہی دی بلکہ عموما مشاورت میں شامل رکھتے ۔
دو مرتبہ اپنے گھر گوجرانوالہ دعوت دی،فرماتے تھے کہ آپ کا جب کبھی لاہور آنا ہو تو مجھے فون پر بتادیا کریں۔ تاکہ میں بھی دفتر آ جاؤں۔ ان کی پانچ عشروں سے زائد پر مشتمل علمی ادبی اور تاریخی صحافت کے تابندہ نقوش کو مرتب کرنے کے سلسلے میں جب کبھی ان کے محبین میں بات چلی تو انہوں نے فرمایا: ’’یہ کام حمیداللہ خان عزیز کے ذمہ لگاتے ہیں۔‘‘ ایک دفعہ مجھے خاص طور سے اسی مقصد کے لئے لاہور بلوایا۔ ڈاکٹر سید ابو سلمان شاہجہاں پوری d (کراچی) سے میری موبائل پر بات کرائی، جنہوں نے مجھے انصاری صاحبa کے ہفت روزہ ’’الاسلام‘‘ (لاہور) میں شائع شدہ اداریے اور دیگر مضامین جمع کرنے کا حکم فرمایا۔ ان سے آخری تفصیلی ملاقات ۸‘ ۹ مارچ ۲۰۱۸ء کو ۲۴ویں آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس کالا شاہ کاکو لاہور کے انعقاد کے موقع پر ہوئی تھی۔ اس کے بعد ان سے فون پر مسلسل رابطہ رہا۔
’’آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس‘‘ کے موقع پرمیں دو دن پورے ان کی خدمت میں رہا۔ مجھے اپنی کار پر ۱۰۶ راوی روڈ دفتر لے گئے، ہوٹل سے کھانا کھلایا۔ پھر اس موقع پر میں نے ان سے ایک مختصر انٹرویو بھی لیا۔ ان کی صحافتی خدمات، تصنیفی اور بالخصوص ہفت روزہ ’’الاسلام‘‘ اور  ’’اہل حدیث‘‘ کی اداراتی خدمات کے حوالے سے ایک خوبصورت ارمغان کی ترتیب،نیز ان کے منتشر اور بکھرے ہوئے متعدد اداریوں، علمائے حدیث کے شخصی وسوانحی خاکے ان کے دینی وعلمی مضامین ومقالات، انٹرویوز اور افکار کو جمع کرنے کے وسیع کام کے سلسلے میں مشاورت ہوئی۔اس حوالے سے انہوں نے میری جو ذمہ داری لگائی بحمدللہ لاہور سے واپس آتے ہی دو ماہ کے اندر ہی عہدہ برآ ہو گیا۔اسی طرح ان کی سوانح وصحافتی خدمات کا کچھ حصہ بھی میں نے مرتب کر کے انہیں بھیجا تھا۔اس دوران وہ اپنے علاج کے سلسلے میں کینیڈا اپنے صاحبزادوں کے پاس چلے گئے۔۔وہاں بھی ایک دفعہ واٹس ایپ پر ان سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی البتہ جناب عبدالقدوس شاکر صاحب کی ان سے ایک دفعہ فون پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا:
’’بس میں چند دنوں تک آنے والا ہوں۔ اپنی صحت بارے خوش تھے کہ پہلے سے بہت بہتر ہو چکی ہے اور وہ معمول کے مطابق اپنے لکھنے پڑھنے کے کام بھی نمٹا رہے ہیں۔‘‘
پچھلے سال اگست؍ستمبر؍ ۲۰۱۹ء میں صحت یاب ہو کر واپس پاکستان تشریف لائے۔مجھے ان کی آمد کا فوری پتا نہ چل سکا۔ ایک دن گوجرانوالہ سے جناب عبدالقدوس شاکر صاحب کا فون آیا توانہوں نے بتایا کہ انصاری صاحب تشریف لا چکے ہیں۔میں حیران کہ مجھے پتا ہی نہیں چلا۔ خیر میں نے رابطہ کرنے کی کوشش کی، ان کا نمبر پاور آف جا رہا تھا۔ ٹھیک تین منٹ بعد ممدوح محترم کااپنا فون آگیا۔لہجے میں وہی پہلے جیسی مٹھاس۔ اللہ اللہ۔
کہاں میں، کہاں نگہت گل
نسیم صبح تیری مہربانی
مختصراپنی صحت کا احوال بتایا۔۔پھر پوچھا: ’’آپ لاہور کاپروگرام بنائیں۔ وقت کم ہے۔ منصوبے بہت ہیں۔ کام شروع کرتے ہیں۔‘‘
عرض کیا کہ اکتوبر ۲۰۱۹ء کے مہینے میں آؤں گا۔ لیکن میری صحت کے مسائل ایسے بڑھے کہ جا نہ سکا۔ البتہ رابطہ مسلسل رہا۔ کچھ ذمیہ کام کرتا بھی رہا۔ جس کی رپورٹ لینے کے لئے انہوں نے تقریبا ایک ماہ قبل مجھے فون کیا تھا اور گوجرانوالہ اپنے گھر بلایا تھا۔ فرمانے لگے:
’’عزیز صاحب! آپ جلدی آنے کی کوشش کریں۔ ہفت روزہ ’’الاسلام‘‘ کے کافی شمارے میرے پاس نہیں وہ دارالدعوۃ السلفیہ لاہور کی لائبریری سے نکلوا کر مضامین جمع کریں گے۔ یہ کام آپ نے لازمی کرنا ہے۔‘‘
میں نے کہا: موسم کی شدت ختم ہو جائے۔ان شاء اللہ پہلی فرصت میں حاضری کو ترجیح دوں گا۔ پھر کرونا وبا نے تہلکہ مچادیا اور ہر شخص گوشہ نشیں ہو گیا۔
افسوس ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ اس جہان میں چلے گئے جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔
خوشیوں کے جزیرے سے تاروں کی حدود تک
اس شہر میں سب کچھ فقط تیری کمی ہے
            مختصر حالات زندگی           
کچھ قمریوں کو یاد ہیں کچھ بلبلوں کو حفظ
عالم میں ٹکڑے ٹکڑے مری داستاں کے ہیں
اب ایک نظر حضرت انصاری صاحب مرحوم کے حالات زندگی پر:
انصاری صاحب ۱۸ ستمبر ۱۹۳۲ء (الموافق ۱۶ جمادی الاول ۱۳۵۱ھ) بروزاتوار ہندوستان کے ضلع امرتسر کے ایک علاقے موضع بھنگواں میں پیدا ہوئے۔ یہ گاؤں ضلع امرتسر (مشرقی پنجاب) کے ریلوے اسٹیشن جنڈیالہ گورو سے متصل تھا۔
انصاری صاحبa کے والد گرامی میاں کریم بخش مرحوم ایک شریف النفس وملنسار، دین دار اور درویش صفت بزرگ تھے۔ ان کے خاندان کا علمی تعلق اس دور کے مشاہیر علمائے اہل حدیث شیخ الاسلام مولانا ابو سعید محمد حسین بٹالوی اور فاتح قادیان مولانا ثناء اللہ امرتسری S کے ساتھ تھا۔ انہی علمی نسبتوں کے باوصف ان کے گھرانے پر علم وعمل کی بڑی گہری چھاپ تھی۔
مولانا ثناء اللہ امرتسریa کا مشہور زمانہ اخبار ،ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ ان کے گھر آتا تھا جس کا افراد خانہ شوق سے مطالعہ کرتے۔
مولانا کے والد میاں کریم بخش مرحوم تجارت پیشہ تھے۔ ان کی شرافت اور دیانت داری مسلم تھی،ان کا شمار امرتسر کی انصاری برادری کے سرکردہ افراد میں ہوتا تھا۔ انہی خوبیوں کی بناء پر مسلم اور غیر مسلم سب ان کا احترام بجا لاتے۔
ابتدائی تعلیم وتربیت:
انصاری صاحب کی ابتدائی تعلیم وتربیت کے مراحل ان کے گھر میں طے ہوئے۔انہوں نے علاقے کی جامع مسجد اہل حدیث میں قرآن مجید پڑھا۔ان کی والدہ محترمہ متقی اور صوم صلوۃ کی پابند نیک خاتون تھیں، ان کی خواہش پر انصاری صاحب کو ہائی سکول امرتسر میں داخل کرا دیا گیا،جہاں سے انہوں نے مڈل کیا۔ان کے سکول کے اساتذہ کرام کے اسماء گرامی یہ ہیں:
\       ماسٹر عبدالحمید                    \       ماسٹر محمد داؤد
\       ماسٹر عبدالحق                    \       ماسٹر دیال سنگھ
\       ماسٹر پند لال سنگھ       \       لال دین
وغیرہ وغیرہ۔
مولانا مرحوم جماعت نہم میں پڑھ رہے تھے کہ اس دوران الگ وطن کے قیام کا مطالبہ زور پکڑ گیا اور خاندان کے سبھی افراد ترک وطن کا سوچنے لگے۔
سفر ہجرت:
ہمت افسردہ نہ ہو تو منزلوں کا قحط کیا
لے چلیں گے جانب پنہائیامکاں، راستے
قیام پاکستان کے وقت انصاری صاحبa کی عمر تقریبا چودہ برس تھی،سفر ہجرت کے دوران ان کے خاندان کو سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔انہیں کم عمری میں نہایت تلخ تجربات کا سامنا ہوا۔ خود فرماتے تھے:
’’میں اپنی بہن،بہنوئی اور دو بھانجیوں کے بہیمانہ و وحشت انگیز قتل کو بھلانا بھی چاہوں تو بھلا نہیں سکتا۔ذہن کو ذرا فراغت بھی ملتی ہے تو سب خون میں نہائے مظلومانہ وبے کسانہ آنکھوں کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالی تمام شہداء کی مغفرت فرمائے اور انہیں اعلی علیین میں مقام عطا فرمائے۔آمین۔
سرزمین گوجرانوالہ میں پڑاؤ:
انصاری صاحب اپنے خاندان کے ساتھ سفر ہجرت کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے سرزمین گوجرانوالہ پہنچے۔ یہ شہر ان کے لئے نیا نہیں تھا۔ ان کے والد اور خاندان کے دیگر عزیز رشتے داروں کا کاروباری سلسلے میں یہاں آنا جانا تھا۔اس لئے یہاں کافی جان پہچان تھی۔ قدرت کی طرف سے ان کا دانہ پانی بھی  یہیں لکھا ہوا تھا۔ بالآخر یہی سرزمین ان کے لئے مستقر قرار پائی۔
 دینی مدارس اور کالج میں اعلی تعلیم کے مدارج:
جیسا کہ سابقہ سطور میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ انصاری صاحب کی تعلیم کا سلسلہ جنڈیالہ سے شروع ہو چکا تھا۔وہاں آپ نے ناظرہ قرآن مجید اور سکول کی آٹھ کلاسیں پڑھ لی تھیں۔اب ان کی عمر کا چودہواں سال شروع تھا۔ان کی والدہ محترمہ کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا پہلے دینی تعلیم حاصل کرے بعد میں عصری علوم کی طرف راغب ہو۔چناچہ ان کی خواہش کی تکمیل کے لئے انہیں گوجرانوالہ کی معروف درسگاہ جامعہ اسلامیہ میں داخل کرایا گیا،جس کی بنیاد ان کے خاندان کے بزرگوں نے رکھی تھی۔ انہوں نے یہاں اپنے زمانے کے ممتاز ترین مدرسین و ماہرین حدیث سے علوم دینیہ اور فنون حدیث کی کتب پڑھیں۔اپنے ایک استاذ حدیث مولانا محمد علی جانباز رحمہ اللہ کی تجویز پر جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں حضرت مولانا حافظ محمد محدث گوندلویa سے بھی کسب فیض کیا۔اور سند فراغت حاصل کی۔آپ کے دینی مدارس کے اساتذہ کرام یہ ہیں:
1       شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی a
2       شیخ الحدیث مولانا ابوالبرکات احمد a
3       شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز a
4       شیخ الحدیث حافظ فتح محمد فتحی a
5       شیخ مولانا قاری محمد یحیی بھوجیانی a
 عصری تعلیم:
اب ہم آتے ہیں انصاری صاحب کی عصری تعلیم کی طرف۔
آپ نے میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول گوجرانوالہ سے کیا۔ایف اے اور بی اے گورنمنٹ کالج سے۔پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے اسلامیات اور ایم اے اردو کیا۔کالج میں آپ کے اساتذہ کرام یہ تھے:
1       پروفیسر اسرار احمد سہاروی
2       مظفر علی سید
3       پروفیسر ارتضا احمد قادری
یونیورسٹی میں آپ جن اساتذہ کے منظور نظر رہے،ان میں معروف حضرات یہ ہیں:
1       ڈاکٹر سید عبداللہ                 2       ڈاکٹر وحید قریشی
3       پروفیسر حمیداحمد خان                     4       اعجاز حسین بٹالوی
5       عابد حسین منٹو
بنک کی نوکری اور استعفیٰ:
انصاری صاحب مرحوم نے مروجہ تعلیم سے فراغت کے بعد روزگار کی خاطر ایک بنک میں ملازمت اختیار کر لی۔ایک روز نماز جمعہ کے بعد ان کے استاذ حضرت حافظ محمد محدث گوندلویa کی خدمت میں حاضر تھے کہ انہوں نے پوچھ لیا، آج کل آپ کیا کر رہے ہیں؟ جواب دیا: ’’بینک میں ملازمت کر رہا ہوں۔‘‘ حافظ صاحبa نے فرمایا: ’’بینک کی ملازمت حرام ہے۔ اسے آج ہی چھوڑ دو۔‘‘ … چنانچہ انصاری صاحب نے ملازمت چھوڑ دی اور اخبار نویسی کی راہ اختیار کر لی۔‘‘ (چمنستان حدیث‘ ص: ۵۳۸)
شخصیت:
چلتا تھا شجاعت سے صداقت کی دوش پر
اس کا دل پرجوش عزیمت کا مکاں تھا
انصاری صاحب کی شخصیت ظاہری طور پر بہت پر کشش تھی۔ان کے چہرے مہرے سے احساس ہوتا تھا کہ وہ کن کن انقلابات زمانہ سے گزرے ہیں۔ان کا سب سے اہم اعزاز یہ بھی تھا کہ شہید ملت اسلامیہ حضرت علامہ احسان الٰہی شہیدa ان پر بے پناہ اعتماد کرتے تھے۔اسی طرح امیر محترم پروفیسر ساجد میرd کی امیدوں کا بھی وہ مرکز رہے۔
حضرت انصاری صاحبa کی شخصیت کے کئی پہلو تھے۔وہ اپنی ذاتی حیثیت میں بلند پایہ علمی شخصیت تھے۔خود فرماتے تھے کہ میری شخصیت کو نکھارنے میں اکابر جماعت کا بہت کردار ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ حضرت علامہ شہید کی رفاقت نہ ہوتی تو انصاری صاحب وہ نہ ہوتے جن کو ہم جانتے ہیں۔
صحافتی خدمات:
ہمارے خون دل نے میکدے کی آبرو رکھ لی
وگرنہ صحبت پیر مغاں میں اب دھرا کیا ہے
عالی مرتبت مولانا بشیر انصاریa نے علمی وادبی صحافت کو مشن بنا کر زندگی گزار دی۔بلاشبہ کہا جا سکتا ہے کہ مربی ومحسن مرحوم،ابوالکلام آزاد،مولانا ظفر علی خان مولانا غلام رسول مہر اورحمید نظامی جیسے نابغہ روزگار صحافیوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔
یلوح الخط فی القرطاس دھرا
وکاتبہ رمیما فی التراب
کالج میگزین ’’المیزان‘‘ کی ادارت:
طالب علمی کے دور سے ہی ان کا ذہن تاریخ وادب کی طرف مائل تھا۔ ۱۹۶۱ء میں گوجرانوالہ کے کالج کی بزم علوم اسلامیہ کے صدر اور بزم اردو کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔اسی طرح لاہور کے لاء کالج میں بھی کچھ عرصہ پڑھتے رہے۔وہاں ایک تقریری مقابلے کے بعد ۱۹۶۲ء میں کالج کے ترجمان میگزین ’’المیزان‘‘ کی ادارت ان کے سپرد کی گئی۔یوں سمجھ لیں یہ ان کی تحریر وصحافت کے میدان میں پہلی اڑان تھی۔جس نے آگے چل کر انہیں اوج کمال تک پہنچا دیا۔
ماہنامہ ’’ترجمان الحدیث‘‘ کے اداراتی بورڈ میں شمولیت
آپ نے عملی صحافت کا آغاز ۱۹۶۹ء میں ماہنامہ ’’ترجمان الحدیث‘‘ سے کیا،جس کے بانی حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدa تھے۔علامہ صاحبa نے آپ کی ادبی صلاحیتیں بھانپ کر ’’ترجمان الحدیث‘‘ کے اداراتی بورڈ کا رکن بنا دیا۔میگزین کا مواد جمع کرنا اور پروف خوانی کے مرحلے سے گزارنا یہ آپ کی ذمہ داری تھی۔
  ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ کے معاون ایڈیٹر:
۱۹۷۲ء میں حضرت علامہ شہیدa  ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ کے ایڈیٹر بنے تو انہوں نے انصاری صاحب رحمہ اللہ کو اپنا معاون ایڈیٹر بنا لیا۔جب علامہ شہید کی علمی وسیاسی مصروفیت کا دائرہ کار بڑھ گیا تو انہوں نے ’’اہل حدیث‘‘ سے الگ ہو کر مرحوم انصاری صاحب کو مکمل ایڈیٹر کا منصب تفویض کر دیا۔
  ہفت روزہ ’’الیوم‘‘ کی اشاعت:
۳۰ جولائی ۱۹۷۳ء کو شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہa اور حضرت علامہ شہیدa کی سرپرستی اور بشیر انصاری صاحبa کی زیر ادارت ’’الیوم‘‘ کے نام سے ہفت روزہ جریدہ نکالا،جس کے صرف تیس شمارے شائع ہوئے کہ رسالہ بند ہو گیا۔
  ہفت روزہ ’’الاسلام‘‘ کی ادارت:
یہ میگزین حضرت علامہ شہیدa کی جمعیت اہل حدیث پاکستان کا ترجمان تھا۔آپ ۱۹۷۵ء سے ۱۹۹۰ء تک اس کے مدیر رہے۔ اگست ۱۹۹۰ء میں جماعتی اتحاد کے بعد ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ کو مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کا ترجمان بنایا گیا تو منصب ادارت حضرت انصاری صاحبa کو سونپی گئی اور ’’الاسلام‘‘ کو جماعت کا عربی ترجمان بنایا گیا۔ کچھ عرصہ بعد یہ عربی میں شائع ہوتا رہا،پھر بند ہو گیا۔
انصاری صاحب مرحوم نے ’’الاسلام‘‘ کی ادارت کے دوران مختلف موضوعات پر خصوصی اشاعتیں مرتب کیں۔ جن میں ’’غزنوی صدیقی نمبر‘‘ زیادہ مشہور ہے،جو مولانا عبدالحق صدیقی رحمہ اللہ(ساہیوال)اور مولانا ابوبکر غزنویa (بن مولانا محمد داود غزنوی a) کے حالات وخدمات پر مشتمل تھا۔
۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی میں قادیانیت کے خلاف جو محضر نامہ پیش کیا گیا تھا۔انصاری صاحب مرحوم نے اس پر ’’الاسلام‘‘ میں شاندار اداریے تحریر کئے۔
  ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ کی طویل ادارت:
کارواں در کارواں رنگین بہاریں لٹ گئیں
اور گل شاخوں پہ داغوں کی طرح جلتے رہے
ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ (لاہور) مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کامرکزی ترجمان علمی میگزین ہے۔ جو ۱۰۶ راوی روڈ لاہور سے شائع ہوتا ہے۔
امیر محترم سینیٹر پروفیسر ساجد میرd اور ناظم اعلیٰ سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریمd اس کے سرپرست ہیں۔ جب کہ مجلس ادارت میں رانا محمد شفیق خاں پسروری، پروفیسر ڈاکٹر عبدالغفور راشد ہیں اور نائب مدیر میاں عبداللہ بخش صاحبان علم وفضل کے اسماء گرامی آتے ہیں۔
اس میگزین کا آغاز ۲۳ جنوری ۱۹۷۰ء کو شہید قائد حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیرa کی زیرادارت ہوا تھا۔ جماعتی اختلاف کے باعث حضرت علامہ شہید نے ہفت روزہ ’’الاسلام‘‘ کا ڈیکلریشن حاصل کر لیا۔اس دور میں یہ  علامہ صاحب کی جمعیت اہل حدیث پاکستان کا نمائندہ اخبار تھا۔ شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ a (گوجرانوالہ) اس کے سرپرست تھے۔اس وقت جماعت میں دوسرا گروپ حضرت میاں فضل حقa کا تھا‘ ،ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ ان کی سرپرستی میں شائع ہوتا تھا۔
حضرت علامہ صاحب کی شہادت کے بعد جماعت کے دونوں گروپوں میں صلح ہوئی تو اتفاق رائے سے ’’اہل حدیث‘‘ کو جماعت کا ترجمان بنایا گیا۔ اس کے مدیر اعلی کے طور پر مولانا بشیر انصاری مرحوم ومغفور کا انتخاب کیا گیا جو اس سے قبل ’’الاسلام‘‘کی ادارت پر مامور تھے۔
بڑی بڑی عظیم علمی شخصیات اس میگزین کی ادارت کرتی رہیں۔ جن میں شہید علامہ احسان الٰہی ظہیر،مولانا محمد اسحاق بھٹی، مولانا حافظ محمد ابراہیم کمیر پوری، مولانا عزیز زبیدی اور مولانا بشیر انصاریS کے نام تاریخ میں جلی حروف میں رقم کئے جائیں گے۔ انصاری صاحب مرحوم تقریبا تیس برس ’’اہل حدیث‘‘ کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کی علمی صحافت کا یہ بڑا طویل عرصہ ہے۔اس عرصہ کے دوران انہوں نے کئی علمی اور دینی خصوصی اشاعتیں مرتب کیں، جن میں ’’خدمات اہل حدیث نمبر‘‘، ’’میاں فضل حقa نمبر‘‘، ’’شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہa نمبر‘‘، ’’سعودی عرب نمبر‘‘ اور ’’فروغ کاروان اسلام نمبر‘‘ قابل ذکر ہیں۔ آپ کی اس طویل ادارت پر ایک ضخیم مقالہ لکھا جا سکتا ہے۔
دیگر رسائل وجرائد کی سرپرستی:
یہ زخم آسودگان فن بھی کیا درویش سیرت ہیں
اجالے بانٹتے ہیں اور دیا گھر میں نہیں رکھتے
مولانا بشیر انصاری مرحوم ایک باعمل صحافی تھے۔ ان کی فکر انگیز تحریریں اپنے زیر ادارت شائع ہونے والے ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ کے علاوہ دیگر علمی جرائد میں بھی شائع ہوتی رہیں۔ان میں ہفت روزہ ’’تنظیم اہل حدیث‘‘ ،ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ ،ہفت روزہ ’’نوید ضیاء‘‘ (گوجرانوالہ)، پندرہ روزہ ’’صحیفہ اہل حدیث‘‘ (کراچی) ماہنامہ مجلہ ’’تفہیم الاسلام‘‘ (احمد پور شرقیہ)، ماہنامہ ’’ترجمان الحدیث‘‘ (فیصل آباد) ماہنامہ ’’والضحیٰ‘‘ (گوجرانوالہ)، ماہنامہ ’’النصیحہ‘‘ (گوجرانوالہ)، اور ماہنامہ ’’جنت الماویٰ‘‘ (گوجرانوالہ) میں بھی شائع ہوتی رہیں۔
رسائل وجرائد کے بانیان ان کی سرپرستی یا جریدے کو ان کی ادارت میں شائع کرنے کو اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتے تھے۔گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے تین جریدوں ماہنامہ ’’والضحیٰ‘‘، ماہنامہ ’’النصیحہ‘‘ اور ماہنامہ ’’جنت الماویٰ‘‘ کے آپ مدیر اعلیٰ بھی رہے۔ اوّل الذکر ’’والضحیٰ‘‘ جامعہ تعلیم القرآن والحدیث گوجرانوالہ کا ترجمان سلفی خواتین کا دینی مجلہ تھا۔ اس کی مؤسسہ محترمہ باجی ثریا مرحومہ تھیں۔ انصاری صاحب مرحوم کئی سال تک اس کے مدیر اعلیٰ کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ رسالہ اب بند ہو چکا ہے۔ دوم الذکر ’’النصیحہ‘‘، جامعہ رحمانیہ، تعلیم القرآن والحدیث للبنات عالم چوک گوجرانوالہ کا ترجمان باجی فضیلت مغل صاحبہ کے زیر انتظام شائع ہوتا تھا۔ انصاری صاحب اپنی مصروفیات کی بناء پر اس کی ادارت سے الگ ہو گئے تھے۔ بعد میں یہ رسالہ بھی بند ہو گیا۔
جب کہ مؤخر الذکر ’’جنت الماویٰ‘‘، جامعہ رحمۃللعالمین للبنات، کا ترجمان ہے۔ اس کے ناظم اعلیٰ شیخ سیف اللہ صاحب ہیں۔ انصاری صاحب تین سال اس کے مدیر اعلیٰ رہے۔ رسالہ اب بھی جاری ہے۔
انصاری صاحب کے اداریے:
جسے سن کر روح مہک اٹھے، جسے پی کر درد چہک اٹھے
تیرے ساز میں وہ صدا نہیں، تیرے میکدے میں وہ مے نہیں
مولانا بشیر انصاریa بلاشبہ ایک فرد تھے لیکن تحرک،سرگرمی،پرجوش رویے اور ایک ہمہ تن فعال ایڈیٹر کے طور پر شہرت رکھتے تھے۔وہ ایک متحرک انسان،بے قرار روح اور ایک مضطرب شخصیت کا نام تھا۔ان کے اندر کا اضطراب تھا کہ علم وادب کے ذریعے پورے معاشرے کو استحصالی نظام سے بچایا جا سکے۔عدل وانصاف کی میزان نصب کی جائے۔گرے پڑے لوگوں کو اٹھا کر سینے سے لگایا جائے اور معاشرے میں ظلم کی جتنی شکلیں ہیں،ان سب کا خاتمہ ہو‘ اس لئے وہ اپنے اداریوں میں کبھی ایک تو کبھی دوسرا انداز اختیار کرتے۔
مولانا مرحوم مغربیت اور مادیت پرستی کے سخت خلاف تھے۔اس پر ان کے بے شمار اداریے آپ کو مل جائیں گے۔ مرحوم مغربی طوفان کے لئے ایک چٹان کی مانند تھے۔ان کی شخصیت میں مشرقی تہذیب،ثقافت اور علوم کی جڑیں بہت مضبوط تھیں۔
انہوں نے اپنی جماعت مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کو مضبوط بنانے اور اسے منظم کرنے کے لئے متعدد اداریے تحریر کئے، جس میں جماعت کی تاریخ وخدمات کوخوب اجاگر کیا۔آج کے دور میں کوئی صاحب بصیرت جماعت کی تاریخ وتذکار علمائے حدیث کو احاطہ تحریر میں لانا چاہے گا تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ممدوح محترم انصاری صاحب کے اداریوں اور مضامین کا مطالعہ نہ کرے اور اپنی کتب میں ان کا حوالہ نہ دے۔
پرویز مشرف کے دور میں امریکہ نے مسلسل پاکستان کو نشانے پر رکھ لیا تھا‘ ڈرون حملے کئے جاتے جن میں سویلین اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔انصاری صاحب نے اپنے اداریوں میں انہیں للکارا،ان کی سازشوں کے تاروپود بکھیردئیے اور یوں قوم وملت کو حوصلہ بخشا۔
وقت فرصت کہاں،کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
ان کا ایک اداریہ بعنوان ’’مسلمان حکمرانو! اب تو بیدار ہو جاؤ۔‘‘
یہ پڑھیں:          تذکرۂ اسلاف
’’اسلام کے خلاف جاری کروسیڈ اور ہمارا لائحہ عمل!‘‘ کے صرف دو اقتباس دیکھے، کس طرح ملت کفر کا بغض واضح کر کے امت مسلمہ اور اس کے حکمرانوں کو نوشتہ دیوار دکھا رہے ہیں۔لکھتے ہیں:
’’دنیا بھر کے مسلمان حکمرانوں سے ایک ارب تیس کروڑ مسلمانوں کا یہ سوال ہے کہ کیا اب بھی کوئی شک ہے کہ امریکہ اپنے تمام تر حواریوں سمیت اسلام کے خلاف جنگ بپا کئے ہوئے ہے۔دشمن اسلام کے ایک ایک نشان کو مٹانے اور رب کی دھرتی پر ایک رب کے نظام کا نام لینے والوں کو چن چن کر ختم کر دینے کی ظالمانہ وسفاکانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے،اور مسلم حکمران ہنوز خواب غفلت میں مدہوش پڑے ہیں یا پھر ظلم کی انتہاء کہ دشمنان اسلام کے فرنٹ لائن اتحادی بنے ہوئے ہیں۔
ناطقہ سربگریباں ہے،اسے کیا کہئے
آج اسلام کی مثال تو ایسے آدمی کی سی ہے جسے گھر والے بھی دھکے دے کر نکال باہر کرنا چاہتے ہوں اور باہر بھی آگ وآہن سے لیس خون آشام دستے اسے دبوچ لینا چاہتے ہوں۔
قرآن کی روشنی میں دشمنان اسلام کے مونہوں سے اب تک اسلام کے خلاف جو زہریلا پروپیگنڈہ ظاہر ہو چکا ہے،وہ تو ہے {وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُ}۔ اور اسلام کے خلاف جو زہریلے نظریات ان کے سینے میں جوش مار رہے ہیں،وہ اس سے بھی زیادہ ہیں۔لیکن اس سے بھی زیادہ خوفناک عمل ہمارے حکمرانوں کا ہے جو دشمن کے کندھے سے کندھا ملا کر چل رہے ہیں اور اسلامیوں کو پکڑ پکڑ کر دشمن کے سامنے پھینک رہے ہیں اور پاکستان سے اسلامی اقدار و روایات کا خود جنازہ نکال رہے ہیں۔ اب تو بے نظیر صاحبہ نے بھی یہ گل افشانی کر دی ہے کہ حکومت میں آ کر ہم بھارت کو مطلوبہ افراد ان کے حوالے کر دیں گے کہ گویا وہ شخصیات بے نظیر صاحبہ کے پرس میں رکھی ہوئی ریوڑیاں ہیں،جو وہ اپنی حکومت کی خوشی میں بھارتی حکمرانوں کو پیش کر دیں گی۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہے
اور کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہے‘‘
(ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘۔ جلد: ۳۸‘ شمارہ: ۳‘ ۲۶ جنوری تا یکم فروری ۲۰۰۷ء )
تصنیفی وتالیفی خدمات:
بہت لگتا ہے جی صحبت میں ان کی
وہ اپنی ذات سے ایک انجمن ہیں
انصاری مرحوم نے تصنیف وتالیف کی دنیا میں بھی اپنا نام رقم کروایا۔ان کی کتب کے مطالعہ سے معاشرے کے ذہن وشعور کے دریچے کھلتے ہیں۔
مرحوم کی تصنیفی وتالیفی زندگی میں جو سب سے اہم بات تھی وہ یہ کہ انہوں نے ہمیشہ وقت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر لکھا۔آپ کی چند تصانیف یہ ہیں۔
1       تحریک اہل حدیث،افکار وخدمات
2       نجات کا راستہ
3       راہنمائے حج وعمرہ(انگریزی)
4       توحید خالص(مترجم۔عربی سے انگریزی)
5       مشاہیر کے خطوط(دو حصے)
6       اہل حدیث صحافت پاکستان میں
7       ارمغان ظہیر (علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدa کے حالات وافکار)
یہ چھوٹی بڑی سات کتب ان کی زندگی میں ہی چھپ گئی تھیں۔ کم ازکم چھ سات کتب کے مسودے تیار تھے۔جن میں ’’تذکار علمائے اہل حدیث‘‘، ’’یادرفتگاں‘‘، ’’کتابوں کا تعارف‘‘ کے علاوہ ماہنامہ ’’ترجمان الحدیث‘‘ ،ہفت روزہ ’’الیوم‘‘ ،ہفت روزہ ’’الاسلام‘‘ ،ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ کے سینکڑوں اداریے اور مضامین اسی طرح قومی اخبارات وجرائد میں چھپنے والے بیسیوں کالمز کے مجموعے الگ الگ کئی کتب میں مرتب ہو کر منصہ شہود پر آئیں گے۔
انصاری صاحب تو اب دنیا میں رہے نہیں لیکن ان کی تصانیف کے مقاصد کے حصول کے لئے اصحاب خیر کے ساتھ ساتھ ارباب فکر ودانش کی خصوصی توجہات کی بھی مسلسل ضرورت ہو گی۔
سفر آخرت:
قبر کے چوکٹھے خالی ہیں انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر سجا دی جائے
ممدوح گرامی بشیر انصاریa نے ایک شاندار ،بھر پور اور جدوجہد سے معمور زندگی گزار کر اپنے اللہ کے دربار میں ہیش ہو گئے۔ان کی زندگی روشن چراغ کی مانند تھی۔وہ چراغ کی طرح روشنی پھیلاتے رہے اور یہ روشنی دین،ایمان،یقین،عمل،اخلاص، خیر خواہی اور قرآن وحدیث کی تھی۔
جگر کا عارضہ:
انصاری صاحب مرحوم ایک عرصہ سے کافی کمزور ہو گئے تھے‘ اصل میں جگر کا عارضہ لاحق تھا جس کے علاج کے لئے ۲۰۱۹ء میں وہ کینیڈا تشریف لے گئے۔جہاں ان کے دو صاحبزادے مقیم ہیں۔تقریبا چھ ماہ وہاں علاج جاری رہا۔صحت یاب ہو کر وطن واپس لوٹے اور اپنی سابقہ ذمہ داریوں کی انجام دہی شروع کر دی۔ اگست ۲۰۲۰ء کے آخر میں اچانک علیل ہو گئے ۔۔۔علاج معالجہ شروع ہوا۔۔لیکن افاقہ نہ ہوا۔ان کی صحت کی خبریں فیس بک پر نشر ہوتی رہیں۔ بقول شخصے:
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
۴ ستمبر بروز جمعۃالمبارک دن ۳۰:۱ بجے انتقال فرما گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
ان کی رحلت پر اسلامی صحافت کی مسند اجڑ گئی، مرکز اہل حدیث ۱۰۶ راوی روڈ کا پتہ پتہ رو رہا ہے۔ درودیوار سے آہ وفغاں بلند ہو رہی ہے۔ قائدین سے لے کر کارکنان جماعت تک ہر آنکھ اشک بار ہے۔ ہر دل پریشانی کے عالم میں ڈوبا ہوا ہے۔ ان کی وفات پر جماعت وملت کی جو کیفیت ہے وہ ان اشعار کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔
عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمیں کی رونق چلی گئی افق پہ مہر مبیں نہیں ہے
ترکی جدائی سے مرنے والے وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی یقیں نہیں ہے
کئی دماغوں کا ایک انساں میں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے
قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے زباں کا زور بیاں گیا ہے
اتر گئے منزلوں کے چہرے،امیر کیا کارواں گیا ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
سوچتا ہوں کہ اب ان کی مسند پر کون بیٹھے گا۔در ودیوار اس نابغہ روزگار ہستی کے بغیر کیسے دکھتے ہوں گے۔اگرچہ یہ اصول فطرت ہے کہ آنے والے کو جانا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔اور یہ بھی کہ
کوئی وارث ضرور ہوتا ہے،تخت خالی نہیں رہا کرتے
انصاری صاحب مرحوم نے ۸۸ برس عمر پائی۔ بلاشبہ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ،لیکن کامیاب ہیں وہ لوگ جو اپنی زندگی کو اللہ کی مرضی کے تابع گزار دیں۔اس لحاظ سے ہم پرامید ہیں کہ جناب انصاری صاحب نے توحید وسنت پر اپنی حیات زیست بسر کی۔اللہ تعالی ان کی دینی وصحافتی خدمات کو قبول فرما کر انہیں ہمیشہ جنت الفردوس کا مکیں بنائے رکھے۔آمین۔
یہ پڑھیں:        کتابیں اپنے آباء کی
جنازے میں تاخیر کی وجہ:
مولانا انصاریa کے دو صاحبزادے جناب خالد بشیر اور جناب طارق بشیر کینیڈا ہوتے ہیں۔ تیسرے جناب شاہد بشیر یوکے۔ طارق بشیر صاحب دوران علالت ہی پاکستان آ گئے تھے اور انہوں نے ہی انصاری صاحب کو ہسپتال میں داخل کرایا۔ دوسرے صاحبزادے شاہد بشیر صاحب انگلینڈ سے چل پڑے تھے اور بروز جمعہ وفات والے دن شام کو پہنچ گئے تھے۔ اسی طرح تیسرے اور بڑے صاحبزادے خالد بشیر صاحب اگلے روز بروز ہفتہ عشاء کے وقت پہنچے۔ انہیں آنے میں کچھ وقت لگ گیا تھا۔ اس لئے جنازے میں کچھ تاخیر ہو گئی۔ ۶ ستمبر بروز اتوار صبح دس بجے بڑے قبرستان گوجرانوالہ میں امیر محترم سینیٹر پروفیسر ساجد میرd کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ان کا جنازہ گوجرانوالہ کے تاریخی جنازوں میں سے ایک تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر پر کروڑ ہا کروڑ رحمتیں نازل فرمائے۔آمین!
اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ۔ آمین!
http://www.noorequraan.live/


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)