جناب بشیر انصاری رحمہ اللہ کا سفر آخرت
تحریر: جناب الشیخ
حافظ ابومحمد عبدالستار الحماد﷾
بندہ عاجز عرصہ تیس سال سے جامع دار الحدیث محمدیہ عام خاص باغ ملتان میں خطبہ
جمعہ دینے کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ مؤرخہ ۴ ستمبر ۲۰۲۰ء بروز جمعہ نماز
جمعہ سے فراغت کے بعد واپس میاں چنوں آ رہا تھا کہ راستہ میں تقریبا اڑھائی بجے اپنا
موبائل دیکھا‘ واٹس ایپ کے ایک مجموعہ میں ایک پوسٹ بایں الفاظ شیئر ہوئی:
’’میدان صحافت کا
ایک درخشاں باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا‘ محترم المقام جناب بشیر انصاری داعی اجل کو
لبیک کہہ گئے۔‘‘
پھر میرے ذاتی نمبر پر جناب میاں عبداللہ بخش نائب مدیر ہفت روزہ اہل حدیث لاہور
کا پیغام موصول ہوا کہ
’’مدیر اعلیٰ ہفت
روزہ اہل حدیث بشیر انصاری قضاء الٰہی سے وفات پا گئے ہیں۔ نماز جنازہ بروز اتوار ۶ ستمبر ۲۰۲۰ء صبح دس بجے بڑے
قبرستان گوجرانوالہ میں ادا کی جائے گی۔انا للہ وانا الیہ راجعون!‘‘
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس دار فانی میں کسی بندہ بشر کو ہمیشہ نہیں رہنا ہے۔ اللہ
تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمدe کو
مخاطب کر کے فرمایا:
’’اور ہم نے آپ سے
پہلے بھی کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی پھر اگر آپ فوت ہو جائیں تو کیا وہ سدا رہنے
والے ہیں۔‘‘ (الانبیاء: ۳۴)
اس آیت کریمہ کے پیش نظر دنیا میں جو آیا ہے وہ یہاں سے جانے کی تمہید لے کر آیا
ہے۔ حیات مستعار کے دن پورے کرنے کے بعد آخر اس نے دنیا سے رخصت ہونا ہے‘ صرف ذات باری
تعالیٰ کو بقا اور دوام ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ہر ایک جو اس
(زمین) پر ہے فنا ہونے والا ہے اور تیرے رب کی وجاہت ہی باقی رہے گی جو بڑی شان اور
عزت والا ہے۔‘‘ (الرحمن: ۲۶-۲۷)
لیکن کچھ دنیا میں آنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس دنیا سے رخصت ہونے کے باوجود
دلوں میں اپنی حسین یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ اپنے علمی آثار کی وجہ سے حیات جاوداں
حاصل کر لیتے ہیں۔ ہمارے ممدوح جناب بشیر انصاری بھی انہی خوش قسمت حضرات سے ہیں کہ
دنیا سے رخصت ہونے کے باوجود ان کی یادیں تا دیر ہمیں تڑپاتی رہیں گی۔
محترم بشیر انصاری صاحب کو جگر کا عارضہ لاحق تھا‘ پچھلے دنوں بغرض علاج اپنے بیٹوں
کے پاس کینیڈا تشریف لے گئے تھے۔ ڈاکٹر حضرات نے آپریشن کی بجائے ادویات تجویز کیں۔
بہرحال صحت مند ہو کر واپس پاکستان آگئے اور اپنی مسند صحافت کو سنبھالا‘ پھر بیماری
کا حملہ ہوا تو گھر میں علاج معالجہ شروع ہوا‘ فون پر رابطہ رہتا تھا۔ حال احوال سے
آگاہی ہوتی رہی‘ پھر فون پر رابطہ بھی قائم نہ رہ سکا۔ گھر سے یہی اطلاع ملتی کہ آں
محترم آرام فرما ہیں۔ بیماری نے زور پکڑا تو ہسپتال جانا پڑا۔ ہسپتال میں ہی نماز جمعہ
کے بعد ۳۰/۱ بجے اللہ کا پیغام
آن پہنچا اور اپنی جان جاں آفریں کے حوالے کر دی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
آپ کا پورا نام محمد بشیر بن میاں کریم بخش تھا۔ آپ اٹھارہ ستمبر ۱۹۳۲ء کو جنڈیالہ ضلع امر تسر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اس قصبہ میں اکثریت اہل اسلام
کی تھی آپ کے والد گرامی ایک شریف‘ ملنسار‘ دیندار اور درویش صفت آدمی تھے‘ مسلمانوں
میں بہت عزت تھی اور غیروں میں بھی احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ والد گرامی نے
اپنے ہونہار بیٹے محمد بشیر کو مقامی طور پر دینی اور دنیوی تعلیم سے آراستہ کرنے کا
اہتمام کیا‘ چودہ سال کی عمر تک وہ تعلیم کے ایک مرحلے سے گذر چکے تھے۔ ۱۹۴۷ء میں جب مسلمانوں پر آزمائش کا وقت آیا تو وہ وطن مالوف کو ترک کرنے پر مجبور
ہوئے۔ جب جنڈیالہ سے مظلومین کا قافلہ روانہ ہوا تو محمد بشیر کی عمر چودہ برس کی تھی۔
آپ بھی اپنے قافلہ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ یہ سفر انتہائی ہولناک‘ خطرات سے گھرا ہوا‘
آگ اور خون کے دریا سے گذرنے کا سفر تھا۔ بقول محمد بشیر:
’’میں اپنی بہن‘
بہنوئی اور دو بھانجیوں کے بہیمانہ ووحشت انگیز قتل کو بھلانا بھی چاہوں تو بھلا نہیں
سکتا۔ ذہن کو جب بھی ذرا فراغت ملتی ہے تو سب خون میں نہائے مظلومانہ وبے کسانہ آنکھوں
کے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔‘‘
بالآخر اس قافلہ نے گوجرانوالہ میں پڑاؤ کیا‘ اس دوران وہ تمام آلام ومصاب سے اہل
قافلہ کے شریک حال رہے اور بہت تھوڑی عمر میں شدید تجربات سے گذر کر انہوں نے ایک پختہ
کار کا مقام حاصل کر لیا تھا۔ یہاں پہنچ کر آپ نے اپنی دینی تعلیم کا آغاز جامعہ اسلامیہ
اہل حدیث سے کیا اور اپنے مہربان اساتذہ سے خوب خوب کسب فیض کیا۔
اسلامیات کی تعلیم کے بعد انہوں نے جدید اور عصری تعلیم کی طرف توجہ دی اور گوجرانوالہ
ہی کے اسلامیہ کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے علوم اسلامیہ
اور ادبیات اردو میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کر کے ڈبل ایم اے کا اعزاز حاصل کیا۔
عام مطالعے کا شوق تو انہیں بچپن میں ہی تھا‘ بعد ازاں تحریر وکتابت کی تحریک پیدا
ہوئی تو اس شوق نے ان کے لیے نشر واشاعت کا میدان ہموار کر دیا۔ چنانچہ طالب علمی کے
زمانے ہی سے ان کے مضامین بشیر انصاری کے نام سے اخبار ورسائل کے صفحات کی زینت بننے
لگے تھے۔
عملی زندگی میں پہلے آپ نے بنک کی ملازمت اختیار کی‘ لیکن زیادہ عرصہ نہیں گذرا
تھا کہ محدث العصر حضرت حافظ محدث گوندلویa کی تلقین پر اس ملازمت سے سبکدوش ہو گئے اور صحافت کے
پیشے کو اختیار کیا۔ یہ میدان ان کی طبیعت سے زیادہ مناسبت رکھتا تھا اور تحریر ونگارش
کی صلاحیت بھی ان میں فراواں تھی۔
آپ کی صحافت کا باقاعدہ آغاز ۱۹۶۹ء میں ہوا جب شہید
ملت علامہ احسان الٰہی ظہیرa نے
’’ترجمان الحدیث‘‘ جاری کیا اور انصاری صاحب کو انہوں نے مجلس ادارت میں شامل کر کے
ادارہ تحریر کی ذمہ داریوں میں شریک کر لیا تھا۔ انہی دنوں میرا ایک مضمون ’’عصمت انبیاءo‘‘ کے نام سے انیس
اقساط میں شائع ہوا۔ ابھی چند اقساط باقی تھیں کہ اسے بند کرنا پڑا۔ واللہ المستعان!
اس وقت ہفت روزہ اہل حدیث ایبک روڈ لاہور سے شائع ہوتا تھا‘ جب علامہ شہید a ہفت
روزہ اہل حدیث کے مدیر اعلیٰ مقرر ہوئے تو انہوں نے انصاری صاحب کو اپنا معاون مدیر
بنا لیا۔ اس کے بعد علامہ مرحوم اپنی گوناں گوں مصروفیات کی بناء پر ہفت روزہ اہل حدیث
کی ادارت سے الگ ہو گئے تو انصاری صاحب ان کی جگہ پورے ذمہ دار کی حیثیت سے مدیر اعلیٰ
بنے۔ یہ سن ۱۹۷۲ء ۱۹۷۳ء کی بات ہے۔
انصاری صاحب کی صحافت کا سب سے طویل اور تحریکی دور ۱۹۷۵ء تا ۱۹۹۰ء کا ہے۔ اس دوران وہ ایک صاحب نظر اور پختہ کار صحافی کے منصب
پر فائز تھے۔ اس کے بعد کا دور ان کے رسوخ اور تجربے سے دوسروں کے فائدہ اٹھانے کا
ہے۔
۱۹۹۰ء سے انصاری صاحب کی علمی‘ ادبی اور سیاسی خصوصیات کی جامع صحافت
کا نیا دور ہفت روزہ اہل حدیث لاہور کی ادارت سے شروع ہوا اور آخر دم تک جاری رہا‘
اس دوران ان کا مقام محض ایک صحافی کا نہیں بلکہ صحافت کے استاد‘ رہنما اور مربی کا
بن گیا۔ جس توجہ‘ محنت اور ایثار نیز میانہ روی‘ استقامت اور صحت وسلامتی طبع کے ساتھ
انہوں نے یہ وقت گذارا وہ ایک آئیڈیل اور نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسی دوران ۱۹۹۱ء تا ۱۹۹۶ء میں ماہنامہ
’’والضحیٰ‘‘ جو ایک خواتین کا ماہنامہ ہے اس کی ادارت سے بھی انصاری صاحب کا تعلق رہا۔
نیز ۲۰۰۶ء تا ۲۰۰۸ء کے زمانہ میں
خواتین کے ایک اور ماہنامے ’’جنۃ الماویٰ‘‘ کا اداریہ بھی لکھتے رہے۔
۱۹۷۳ء کی بات ہے‘ میں ان دنوں کوٹلہ تولے خاں جناح سٹریٹ تغلق روڈ
ملتان کی جامع مسجد میں امام اور خطیب تھا‘ میں نے ایک شذرہ بعنوان ’’تلاش حق اور تلاش
معاش‘‘ لکھا جو نوائے وقت میں شائع ہوا۔ میں نے اس کی فوٹو ہفت روزہ اہل حدیث کو بھی
بھیج دی‘ جو انصاری صاحب کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ آپ نے مختصر نوٹ کے ساتھ اس شذرہ
کو شائع کر دیا اور مجھے حوصلہ افزائی کا خط لکھا اور آئندہ لکھنے کی تاکید کی۔ پھر
خط وکتابت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میں بھی اپنے الفاظ میں مضمون لکھ کر انصاری صاحب
کو ارسال کرتا اور آپ اس پر نظر ثانی اور اصلاح کر کے اہل حدیث میں شائع کر دیتے۔ ایک
خط میں انہوں نے درس قرآن اور درس حدیث لکھنے کا حکم دیا۔ میں نے پابندی کے ساتھ لکھنا
شروع کر دیا۔ چنانچہ اہل حدیث ۱۹۸۶ء ۱۹۸۷ء اور ۱۹۸۸ء کی جلدوں میں وہ درس قرآن اور درس حدیث محفوظ ہیں۔ اس کے علاوہ
بھی مختلف مناسبات کے حوالے سے مضامین لکھتا اور انصاری صاحب ترمیم واضافہ کے ساتھ
اسے شائع کرتے۔ انصاری صاحب کے ساتھ میری شناسائی‘ مضامین نویسی کی وجہ سے ہوئی جو
عسر ویسر اور غم وخوشی میں برقرار رہی۔
مدینہ یونیورسٹی میں دوران تعلیم بھی ان سے مراسلت کا سلسلہ جاری رہا۔ مسجد نبوی
کے خطیب کا خطبہ جمعہ اردو میں ڈھال کر اہل حدیث کو ارسال کرتا‘ انصاری صاحب باقاعدگی
سے شائع کرتے۔ اس کے علاوہ عرب مشائخ کے مختلف انٹرویو بھی ہفت روزہ اہل حدیث کی زینت
بنتے‘ ان دنوں جو مراسلت ہوئی‘ ان میں دو خطوط کا تذکرہ انصاری صاحب نے اپنی مایہ ناز
تالیف ’’مشاہیر کے خطوط‘‘ میں کیا ہے بلکہ اس کتاب میں راقم الحروف کا تعارف کراتے
ہوئے لکھتے ہیں:
’’حافظ عبدالستار
الحماد‘ دار الافتاء سعودی عرب کی طرف سے مبعوث ہیں‘ مختلف مدارس میں آپ نے تدریسی
خدمات سرانجام دیں اور دار الحدیث محمدیہ عام خاص باغ ملتان میں خطیب ہیں‘ آپ الشیخ
ابن بازa کی
کئی کتب ورسائل کا اردو میں ترجمہ کر چکے ہیں۔ آپ کے مضامین ملک کے بلند پایہ رسائل
میں شائع ہو رہے ہیں۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے آرگن ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘
لاہور میں ان کے محققانہ اور عالمانہ فتوے کئی سال سے مسلسل شائع ہو رہے ہیں۔ ان کی
پہلی جلد ’’فتاویٰ اصحاب الحدیث‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہے اور دوسری جلد زیر طبع ہے۔
علاوہ ازیں کئی کتابوں پر ان کی تعلیقات بھی شائع ہو چکی ہیں۔‘‘
دراصل انصاری صاحب نے سن ۲۰۰۰ء میں مجھے فرمایا
کہ آپ ’’احکام ومسائل‘‘ کے عنوان سے فتاویٰ لکھا کریں۔ چنانچہ اس وقت سے آج تک تسلسل
کے ساتھ یہ سلسلہ جاری ہے۔ واضح رہے کہ یہ سلسلہ لوجہ اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں
برکت فرمائی ہے کہ فتاویٰ اصحاب الحدیث کے نام سے پانچ جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور چھٹی
جلد بالکل طباعت کے آخری مراحل میں ہے۔ اہل حدیث میں شائع ہونے والے فتاویٰ کو نئی
فقہی ترتیب سے کتابی شکل میں شائع کیا جاتا ہے۔ الحمد للہ علی ذلک حمدا کثیراً۔
اللہ تعالیٰ انصاری صاحب مرحوم کو غریق رحمت کرے‘ ہمیں امید ہے کہ یہ اسلامی اور
دینی رہنمائی پر مشتمل فتاویٰ ان کے لیے صدقہ جاریہ ہوں گے کیونکہ ان کے محرک اول وہی
ہیں۔ بلکہ انہوں نے اپنے عملہ کو ہدایت کی تھی کہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی
کرنی چاہیے تا کہ یہ سلسلہ جاری رہے اور اس میں انقطاع نہ آئے۔ بندہ عاجز جو کچھ لکھتا
ہے یہ ان کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے بصورت دیگر ’’من آنم کہ من دانم‘‘۔
ایک دن انصاری صاحب مرحوم نے مجھ سے اپنی ایک خواہش کا اظہار کیا کہ منتخب احادیث
پر مشتمل ایک مجموعہ تیار کیا جائے جن کا حفظ کرنا اور یاد رکھنا آسان ہو۔ نیز معیار
صحت پر بھی پوری اترتی ہوں۔ انصاری صاحب مرحوم میرے محسن تھے بلکہ صحافتی دنیا میں
انہوں نے مجھے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا‘ اس لیے کھلے انکار یا رسمی طور پر حیلے بہانے
بنانے کی گنجائش نہ تھی۔ میں نے اس کٹھن کام کو اپنے ذمے لے لیا اور اللہ کی توفیق
سے اس کا آغاز کر دیا۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے احادیث منتخب کر کے انہیں پانچ
حصوں میں تقسیم کیا جو حسب ذیل ہیں:
\ عقائد وعبادات \ حقوق ومعاملات
\ اخلاق وکردار \ احکام ومسائل
\ دعوات واذکار
پھر ہر عنوان پر بیس احادیث منتخب کر کے سو احادیث پر مشتمل یہ مجموعہ تیار کیا‘
جس کا نام ’’انوار حدیث‘‘ ہے۔انصاری صاحب مرحوم نے اس کا مقدمہ لکھا اور مرکزی جمعیت
اہل حدیث ۱۰۶ راوی روڈ لاہور
کی طرف سے اسے شائع کیا۔ پھر میں نے ان سے اجازت لے کر مکتبہ اسلامیہ لاہور/ فیصل آباد
کی طرف سے شائع کیا۔ ان کی ایک دوسری خواہش بھی تھی کہ احادیث قدسیہ پر مشتمل ایک مجموعہ
تیار کیا جائے لیکن افسوس کہ ان کی زندگی میں یہ تیار نہ ہو سکا۔ امید ہے کہ مستقبل
قریب میں ان کی اس خواہش کی تکمیل ہو گی۔ بہرحال انصاری صاحب مرحوم کے ساتھ میرے تعلقات
دیرینہ تھے اور ان تعلقات کی بنیاد کوئی دنیوی مفادات پر نہیں تھی بلکہ خالص اس کے
پس منظر میں ’’الحب للہ‘‘ ہے۔
قارئین کرام! میں اس بات کا ذکر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ عرصہ دراز تک حضرت
انصاری صاحب سے سلسلہ مراسلت غائبانہ ہی تھا‘ مجھے ان سے شرف ملاقات حاصل نہیں تھا۔
ایک دن حدیث کا سبق پڑھاتے ہوئے ایک واقعہ نظر سے گذرا جسے سیدنا ابوہریرہt رسول
اللہe سے
بیان کرتے ہیں‘ آپe نے
فرمایا کہ
’’ایک آدمی کسی دوسری
بستی میں اپنے کسی بھائی کی ملاقات کے لیے گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں ایک
فرشتہ بٹھا دیا جو اس کے انتظار میں تھا۔ جب وہ آدمی اس فرشتے کے پاس سے گذرا تو اس
نے پوچھا ’’کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ اس آدمی نے جواب دیا‘ میں اس بستی میں اپنے ایک مسلمان
بھائی سے ملنے جا رہا ہوں۔ فرشتے نے پوچھا ’’کیا اس کا تم پر کوئی احسان ہے جس کا تم
بدلہ چکانے جا رہے ہو؟‘‘ اس نے کہا: اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں کہ میں اس سے اللہ
کی خاطر محبت کرتا ہوں۔ اس فرشتے نے کہا: ’’میں اللہ کی طرف سے تمہارے لیے پیغام لے
کر آیا ہوں کہ جس طرح تم اللہ کی خاطر اس شخص سے محبت کرتے ہو ویسے ہی اللہ تم سے محبت
کرتا ہے۔‘‘ (مسلم‘ البر والصلہ: ۶۵۴۹)
حدیث میں بیان کردہ اعزاز حاصل کرنے کے لیے میں نے لاہور جانے کا عزم کیا تا کہ
انصاری صاحب سے ملاقات کروں‘ چونکہ پہلی ملاقات تھی‘ میں چشم تصور سے انصاری صاحب کو
دیکھ رہا تھا کہ آپ بھاری بھرکم شخصیت کے حامل ہوں گے۔ بہترین لباس میں ملبوس بڑے کروفر
کے ساتھ کرسی ادارت پر براجمان ہوں گے اور بڑے رعب وداب کے ساتھ بات کرتے ہوں گے۔ بہرحال
میں لاہور پہنچ کر ۱۰۶ راوی روڈ پہنچا۔
وہاں دفتر اہل حدیث کا پتہ کیا‘ ایک اہلکار مجھے چھوڑ گیا‘ دروازہ کھولنے کے بعد دیکھا
کہ وہاں چار آدمی کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ میں نے کہا ’’انصاری صاحب سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ تب میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک دبلے پتلے‘
نحیف ونزار انسان‘ سادہ لباس میں ملبوس‘ چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں پر نظر کی عینک
سجائے بیٹھے ہیں۔ بڑے تپاک سے ملنے کے بعد گویا ہوئے ’’جناب کا تعارف‘‘ میں نے عرض
کیا ’’حافظ عبدالستار الحماد‘‘ پھر کرسی سے اُٹھ کر آگے آئے اور گلے ملے اور فرمانے
لگے کہ ’’میں سمجھتا تھا کہ مفتی صاحب جبہ ودستار میں ہوں گے۔ آپ بھی ہماری طرح سادہ
منش انسان ہیں۔‘‘
یہ تھی ہماری پہلی ملاقات اور یہ تھے ہمارے ممدوح انصاری صاحب مرحوم جو اب اللہ
تعالیٰ کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ اپنی رحمت کا برتاؤ
کیا ہو گا۔ انہوں نے دنیا کی اٹھاسی بہاریں دیکھی تھیں‘ ۱۸ نومبر ۱۹۳۲ء کو پیدا ہوئے‘ ۴ ستمبر ۲۰۲۰ء کو وفات پائی۔ تقریباً ان کی عمر اٹھاسی سال بنتی ہے۔ ان کے جنازے میں بلاوجہ
دیر کی گئی جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ان کا جنازہ محترم جناب پروفیسر ساجد میرd امیر
مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان نے پڑھایا‘ ہر مسلک اور ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والوں
نے جنازہ میں شرکت کی۔ پھر بڑے قبرستان میں انہیں دفن کیا گیا۔ جہاں بڑے بڑے اساطین
علم مدفون ہیں۔ ان کے فراق کی وجہ سے قلق واضطراب کی کیفیت میں یہ سطور سپرد قلم کی
ہیں۔ اگر ان میں بے ربطی ہو اسے نظر انداز کر دیا جائے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انصاری
صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین!
دل وچ تانگ ہمیشہ رہندی وطنوں دور گیاں دی
ہتھیں دفن جنہاں نوں کریے لتھی آس اُنہاں دی
No comments:
Post a Comment