Tuesday, September 15, 2020

درس قرآن وحدیث 20-18

ھفت روزہ اھل حدیث، اجتماعی آزمائش اور دو گروہوں کا کردار، دھوکہ دہی اور ملاوٹ ایک قبیح عادت

درسِ قرآن
اجتماعی آزمائش اور دو گروہوں کا کردار
ارشادِ باری ہے:
یہ پڑھیں:                       بد اعمالی اور نعمتوں کی نا شکری کے اثرات                   زبان درازی اور لغو گفتگو
﴿اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَةٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَيْهَا١ۙ قُلْتُمْ اَنّٰى هٰذَا١ؕ قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۰۰۱۶۵﴾ (ال عمران)
’’جب تمہیں ایسی تكلیف پہنچی كہ اس جیسی دو چند تم پہنچ چكے، تو كہنے لگے كہ یہ كہاں سے آگئی؟ آپ كہہ دیجیے یہ خود تمہاری طرف سے ہے۔ بے شك اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
معركہ اُحد میں مسلمان بظاہر ہزیمت كا شكار ایك خاص مصلحت كی وجہ سے كیے گئے تھے۔ جنگ بدر میں عظیم الشان فتح كی بدولت بہت سارے لوگ صرف اس سوچ كے ساتھ مسلمانوں میں شامل ہوگئے  تھے كہ اب مستقبل میں حكمرانی اور بادشاہت كا تاج مسلمانوں كے سروں كی زینت بننے والا ہے۔ تو كیوں نہ ان اصحاب اقتدار كے ساتھ مل كر عظمت و شان و شوكت حاصل كی جائے؟
منافقین كے اس ٹولہ نے باجماعت عبداللہ بن ابی كی سرپرستی میں مسلمانوں میں شمولیت اختیار كی تھی۔ یہی وہ لوگ تھے جو اعتراض كر رہے تھے كہ كیوں ہمیں اس قدر ہزیمت اور شكست كا سامنا كرنا پڑا ہے؟ اللہ تعالی ان كے دلوں كے حال سے بخوبی واقف تھے، اس لیے ان كو انہیں كے انداز میں جواب دیا گیا ہے، اور یہ بھی بتا دیا گیا كہ اس معركہ كی بدولت ان كے چہروں سے نقاب اتارنا  اس ہزیمت كا مقصد ہے:
﴿مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰى مَاۤ اَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ﴾
’’جس حال پر تم ہو اسی حال پر اللہ تعالیٰ ایمان والوں كو نہیں چھوڑے گا یہاں تك كہ پاك اور ناپاك كو الگ الگ كردے۔‘‘
گویا آیت مباركہ میں سچے پیروكار اور منافق كے درمیان امتیاز كی ایك صورت مصائب و مشكلات كے ذریعے امتحان ہے ، جو ایسے امتحانات اور آزمائش میں بلبلانے لگ جائے، گلے اور شكوے زبان پر لائے، اللہ، تقدیر، اسلام اور ایمان كو كوسے وہ اپنے ایمان میں پختہ نہیں، بلكہ كسی حدتك نفاق اس كے دل میں گھر كر گئی ہے۔ لیكن دوسری طرف جو ایسے حالات میں اپنے اندر ایمان كی زیادتی محسوس كرے اور ایسے حالات كو اللہ كی طرف سے آزمائش سمجھ كر قبول كرے، اور پہلے سے بڑھ كر اطاعت الٰہی میں مگن ہوجائے تاكہ ان حالات سے سرخرو ہو كر نكل سكے، وہ ایمان والا ہے اور وہ جانتا ہے كہ اللہ تعالیٰ بظاہر مسلمانوں كو تنگی اور مصیبت كے ذریعے ان كے ایمان كو مزید پختہ كررہے ہیں اور منافقین، لبرل اور اسلام دشمن گروہ كو بے نقاب كرنا چاہتے ہیں۔
یہ پڑھیں:                       مصائب زندگی کی وجوہات                         نوحہ
﴿ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا يَّغْشٰى طَآىِٕفَةً مِّنْكُمْ١ۙ وَ طَآىِٕفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْهُمْ اَنْفُسُهُمْ يَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ﴾
’’پھر اس نے اس غم كے بعد تم پر امن نازل فرمایا اور تم میں سے ایك جماعت كو امن كی نیند آنے لگی، البتہ كچھ لوگ وہ بھی تھے كہ انہیں اپنی جانوں كی پڑی ہوئی تھی، وہ اللہ تعالیٰ كے ساتھ ناحق جہالت بھری بدگمانیاں كررہے تھے۔‘‘

درسِ حدیث
دھوکہ دہی اور ملاوٹ ایک قبیح عادت
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
[عن أبي هريرة أنَّ رَسُول اللَّهﷺ مرَّ عَلٰى صُبْرَةِ طَعامٍ، فَأدْخَلَ يدهُ فِيهَا، فَنالَتْ أصَابِعُهُ بَلَلاً، فَقَالَ: "مَا هٰذَا يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ؟" قَالَ أصَابتْهُ السَّمَآءُ يَا رَسُولَ اللَّه! قَالَ: "أفَلَا جَعلْتَه فَوْقَ الطَّعَامِ حَتّٰى يَراهُ النَّاس، مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا"]
سیدناابوہریرہt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے راستے میں اناج کا ایک ڈھیر دیکھا توآپe نے اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈالا تو انگلیوں پر تری آگئی۔ آپe نے پوچھا: ’’اے اناج کے مالک! یہ کیا ہے؟‘‘ وہ بولا اللہ کے رسول! یہ بارش سے بھیگ گیا۔ آپe نے فرمایا: ’’پھر تو نے اس بھیگے ہوئے اناج کو اوپر کیوں نہ رکھا کہ لوگ دیکھ لیتے؟‘‘ ... ’’جو شخص دھوکا دے وہ مجھ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ ‘‘
یہ پڑھیں:                     درس قرآن:  خوف کے ذریعے امتحان                        درس حدیث: خوشخبری اور تحذیر
دھوکا ایک ایسا قبیح اور ناپسندیدہ عمل ہے جسے ہر صورت میں اسلام نے ناجائز و حرام قرار دیا ہے اور ایسا کرنے والوں کی شدید الفاظ میں مذمّت بیان کی ہے۔ ویسے تو دھوکا زندگی کے کسی بھی معاملے میں جائز نہیں لیکن لین دین اور خرید و فروخت کے معاملے میں تنبیہ کے ساتھ اِس کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ ایك اور حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس شخص نے کوئی عیب دار چیز کسی کو فروخت کی اور خریدار پر عیب کو ظاہر نہیں کیا تو اُس پر ہمیشہ اﷲ تعالیٰ کا غضب رہے گا اور اﷲ تعالیٰ کے فرشتے ہمیشہ اُس پر لعنت کرتے رہیں گے۔
ہمارے معاشرے میں دھوکہ دہی کا چلن عام ہے اور لوگ مختلف معاملات میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ کاروبار میں دھوکہ دہی‘ کم ماپنا‘ کم تولنا اور ملاوٹ کرنا اس وقت مسلمانوں میں عام ہے۔ بازار میں کاروبار کرنے والے کسی بھی طریقہ سے اپنا مال بیچ کر کمانے کی کوشش کرتے ہیں ، کبھی بیچی جانے والی چیز میں عیب ہوتا ہے لیکن تاجر پوری کوشش کرتا ہے کہ خریدار اس عیب کو نہ دیکھ پائے۔ قوم مدین اس لیے چنگھاڑ کا نشانہ بنی کہ ان میں کاروباری اعتبار سے بے اعتدالیاں‘ دھوکے بازی اور فریب کی بری اعادات پائی جاتی تھی۔مذكورہ حدیث مباركہ میں بھی اسی قبیح فعل كی شدید الفاظ میں مذمت كی گئی ہے۔
یہ پڑھیں:                     درس قرآن: صبر واستقامت                     درس حدیث: قول وفعل کے تضاد کی سزا
’’ہم میں سے نہیں‘‘  اس فقرے کی مراد مختلف علماء اور محدثین نے مختلف پیش کی ہے بعض نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ہم اہل بیت میں سے نہیں ہیں، بعض نے کہا اس سے مراد مسلمانوں میں سے نہیں ہے، بعض نے کہا کہ ہمارے طریقے پر نہیں ہے اور بعض نے کہا کہ وہ ہماری جماعت میں سے نہیں ہے، اب ان مفاہیم میں سے کوئی بھی فہم لیا جائے تو بھی بہت خطرناک معاملہ بنتا ہے ، اس لیے ایسی احادیث كہ جس میں نبی مكرم e یہ فرمائیں كہ وہ ہم میں سے نہیں اس كے بعد  اپنی اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کہ ان سبھی برُے کاموں میں سے کوئی ایک کام بھی ہمارے اعمال میں موجود نہیں رہنا چاہیے کہ کہیں اس ارشادِ نبویe کی زَد میں ہماری ذات نہ آجائے۔ دھوكہ دہی ،ملاوٹ اور جھوٹ كا سہارا لےكر اپنی تجارت كو بڑھانے اور منافع كمانے كی بہت ساری صورتیں ہو سكتی ہیں ۔
http://www.noorequraan.live/


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)