Tuesday, September 15, 2020

مدیر اعلیٰ ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ چل بسے 20-18

ھفت روزہ اھل حدیث، مدیر اعلیٰ، بشیر انصاری، بابائے صحافت، اداریہ

مدیر اعلیٰ ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ چل بسے

موت ایک اٹل حقیقت اور اس کا وقت مقرر ہے۔ یہ ایک لمحہ یا ایک پل کے لیے بھی آگے پیچھے نہیں ہو سکتی۔ جو بھی ذی روح اس فانی دنیا میں آیا‘ اسے ایک دن ضرور واپس جانا ہے۔ دنیا میں بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جن کی وفات سے صرف چند لوگ رنجیدہ خاطر ہوتے ہیں لیکن کچھ اشخاص کی اموات ایسی ہوتی ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے خاندان‘ اعزہ واقارب بلکہ جماعت بالخصوص اہل علم طبقہ کے لیے ایک جانکاہ حادثہ سے کم نہیں ہوتیں۔
۴ ستمبر نماز جمعۃ المبارک کے متصل بعد اطلاع ملی کہ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے ترجمان ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ کے مدیر اعلیٰ جناب بشیر انصاری (ایم اے) علالت کے بعد گوجرانوالہ کے ایک نجی ہسپتال میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! تھوڑی دیر بعد سوشل میڈیا فیس بک اور واٹس ایپ گروپوں میں ان کی وفات کی خبر گردش کرنے لگی۔ آناً فاناً ملک وبیرون ملک اہل علم‘ احباب جماعت تک یہ افسوسناک خبر پہنچ گئی۔ ہر شخص افسوس کا اظہار کر رہا تھا۔ ان کی وفات سے جماعت کو نہایت گہرا صدمہ پہنچا اور جماعت ایک اہم علمی وتاریخی حیثیت کی حامل شخصیت سے محروم ہو گئی۔
مرحوم اعلیٰ صفات واخلاق اور بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد خدمت دین ومسلک اور جماعت بنا رکھا تھا۔ وہ تا دم آخریں اسی مشن میں سرگرم وسربکف رہے۔ پچاس برس سے زائد مشق سخن تھی‘ ہزاروں تحریریں‘ درجنوں تالیفات اور سالہا سال سے ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ کے اداریے اس بات کے شاہد ہیں کہ وہ دنیائے صحافت کے ایک عظیم ستارے تھے۔ ان کے اداریے نہایت فکر انگیز ہوا کرتے تھے۔ حالات حاضرہ کے مطابق مثبت تنقید کے ساتھ اصلاح کا پہلو بھی نمایاں ہوتا۔
مولانا بشیر انصاریa بن میاں کریم بخشa ۱۸ ستمبر ۱۹۳۲ء کو بمقام جنڈیالہ گرو ضلع امرتسر (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کا خاندان ہجرت کر کے گوجرانوالہ منتقل ہو گیا۔ انہوں نے ابتدائی دینی تعلیم جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے حاصل کی۔ عصری تعلیم کے اعتبار سے آپ نے اردو ادب اور اسلامیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ آپ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سابق امیر شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی‘ محدث العصر مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی‘ شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ بانی جامعہ محمدیہ‘ شیخ الحدیث مولانا ابوالبرکات احمد‘ عالمی شخصیت حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید‘ شیخ الحدیث مولانا محمد اعظم s کے رفقاء میں سے تھے۔ آپ جمعیت کے بانیان میں سے تھے۔ آپ ہمیشہ مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن اور جماعتی ترجمان کے چیف ایڈیٹر رہے۔
لکھنے پڑھنے کا ذوق آپ کو زمانۂ طالب علمی سے تھا۔ گوجرانوالہ کی بزم علوم اسلامی کے صدر اور بزم اردو کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔ ۱۹۶۲ء میں جب آپ لاء کالج لاہور کے طالب علم تھے تو کالج میگزین ’’المیزان‘‘ کی ادارت کے لیے تحریری مقابلہ ہوا‘ آپ نے کامیابی حاصل کی اور مدیر مقرر ہو گئے۔ ۱۹۷۱ء تا ۱۹۷۳ء ہفت روزہ اہل حدیث لاہور کے مدیر اعلیٰ رہے۔ ۱۹۷۴ء میں ہفت روزہ ’’الیوم‘‘ لاہور کے مدیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ ۱۹۷۵ء میں ہفت روزہ ’’الاسلام‘‘ لاہور کے مدیر اعلیٰ کے طور پر خدمات انجام دینے لگے۔ علاوہ ازیں جب سے حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدa نے ماہنامہ ’’ترجمان الحدیث‘‘ جاری فرمایا تو آپ اس کی مجلس ادارت کے رکن رہے۔ پھر غالباً ۱۹۹۱ء میں جب دونوں جماعتی دھڑوں کی آپس میں صلح ہو گئی تو آپ ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ کے مدیر اعلیٰ مقرر ہوئے اور تا دم واپسیں یہ خدمات انجام دیتے رہے۔
مولانا بشیر انصاری مرحوم جب تعلیم سے فارغ ہوئے تو آپ کے ایک دوست نے بنک میں اعلیٰ ملازمت کی پیش کش کی۔ آپ نے حامی بھر لی اور بنک سے منسلک ہو گئے۔ ان دنوں امام العصر حضرت حافظ محدث محمد گوندلویa جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ نماز جمعہ کے بعد ایک دن انصاری صاحب بھی ان کے حلقہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ دریافت فرمایا کہ آپ آج کل کیا کر رہے ہیں؟ عرض کیا کہ یہاں ایک بنک میں ملازمت کر رہا ہوں۔ فرمانے لگے: بنک کی ملازمت جائز نہیں ۔ عرض کی کہ نئی ملازمت مل جانے پر چھوڑ دوں گا۔ حضرت حافظ صاحب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے‘ یہ نوکری آج ہی چھوڑ دو۔ چنانچہ انہوں نے بنک کی ملازمت فوری ترک کر دی اور اس وقت سے ہی صحافت سے منسلک ہو گئے۔ صحافتی زندگی اپنانے سے اللہ تعالیٰ نے انہیں عزتوں سے نوازا اور مالی لحاظ سے بھی آسودہ حال ہو گئے۔
مرحوم سادہ مزاج‘ خوش اخلاق‘ خوش گفتار‘ شریف الطبع اور جماعت کے لیے انتہائی مخلص انسان تھے۔ آپ اردو ادب کے ساتھ شعر وشاعری سے بھی شغف رکھتے تھے۔ رسالہ اہل حدیث میں ان کے تحریر کردہ اداریے بلاشبہ دین اسلام‘ نظریہ پاکستان‘ حالات حاضرہ‘ جماعتی حمیت اور عظیم رہنمائی کا کام دیتے رہیں گے۔ انہوں نے جماعتی زندگی کے مختلف ادوار دیکھے تھے۔ انہیں جماعتی تاریخ پر دسترس حاصل تھی۔ بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ وہ جماعت کا ایک انسائیکلوپیڈیا تھے۔
بلاشبہ موصوف نے ایک بھر پور زندگی گذاری ہے‘ آپ حضرت علامہ شہیدa کی رفاقت کے بعد امیر محترم سینیٹر پروفیسر ساجد میرd کی قیادت میں اپنا کام بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔ مجلہ کی ادارت کے ساتھ وہ ’’الاسلام‘‘ ڈائری بھی چھاپتے تھے جو ان کی حسین یاد گار رہے۔
موصوف دار فانی کو چھوڑ کر دار بقاء کی طرف منتقل ہو چکے ہیں لیکن دینی‘ مسلکی وجماعتی خدمات کے حوالے سے انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ دعا ہے کہ رب ذوالجلال ان کی بشری خطائیں معاف فرما کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین!
http://www.noorequraan.live/


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)