تاریخ الٰہی سے چند سبق آموز واقعات
امام الحرم المکی الشیخ
ڈاکٹر ماہر المعیقلی d
ترجمہ: جناب عاطف
الیاس نظر ثانی:
جناب محمد ہاشم یزمانی
حمد و ثناء کے بعد!
اے مؤمنو! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ ہمیں
شب وروز کی تیزی سے سبق سیکھنا چاہیے، ماہ وسال کی رفتار سے عبرت پکڑنی چاہیے۔ گزر
جانے والا ہر سال انسان کو دنیا سے دور اور آخرت کے قریب کر دیتا ہے۔ جو مر جاتا ہے،
اس کی قیامت تو اسی وقت شروع ہو جاتی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’اے لوگو جو ایمان
لائے ہو! اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔
اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً تمہارے اُن سب اعمال سے باخبر ہے۔ جو تم کرتے ہو۔ اُن
لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھول گئے، تو اللہ نے اُنہیں خود اپنا نفس بھلا
دیا۔ دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں ہو سکتے ، جنت میں
جانے والے ہی اصل میں کامیاب ہیں۔‘‘ (الحشر: ۱۰-۱۸)
اے امت اسلام! اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو توحید پر پیدا کیا ہے۔
’’اللہ کی وہ فطرت
کہ جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی،
یہی بالکل راست اور درست دین ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘ (الروم: ۳)
لیکن پھر جب شیطانوں نے انہیں بہکایا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول بھیج دیے، تاکہ
وہ خوشخبریاں سنائیں، نہ ماننے والوں کو عذاب سے ڈرائیں، تاریخِ الٰہی کے واقعات سنائیں
اور انہیں اللہ کے عہد وپیمان کی یاد دلائیں۔ تاریخِ الٰہی کے واقعات میں کہیں تو اللہ
کی نعمتوں کی رونقیں نظر آتی ہیں اور کہیں عذابِ الٰہی کے ہولناک مناظر دکھائی دیتے
ہیں۔ یہ تاریخ بندوں کو انعامات کے شکریے پر ابھارتی ہے اور پروردگار کی گرفت سے بچنے
کی تلقین کرتی ہے۔ رسول اللہe نے
فرمایا:
’’موسیٰu اپنی
قوم کو اللہ کے دنوں کے واقعات سنا رہے تھے، یعنی نعمتوں اور آزمائشوں کے دن یاد کرا
رہے تھے۔‘‘ (مسلم: ۴۵۱۲)
اللہ تعالیٰ نے سیدنا ہودu کی
دعوت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’بھول نہ جاؤ کہ
تمہارے رب نے نوح کی قوم کے بعد تم کو اُس کا جانشین بنایا اور تمہیں خوب تنومند کیا،
پس اللہ کی قدرت کے کرشموں کو یاد رکھو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔‘‘ (الاعراف: ۶۹)
اسی طرح صالح نے بھی ایامِ الٰہی کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’یاد کرو وہ وقت
جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں اس کا جانشین بنایا اور تم کو زمین میں یہ منزلت بخشی
کہ تم اُس کے ہموار میدانوں میں عالی شان محل بناتے اور اس کے پہاڑوں کو مکانات کی
شکل میں تراشتے ہو پس اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہو جاؤ اور زمین میں فساد برپا
نہ کرو۔‘‘ (الاعراف: ۷۴)
اللہ کی طرف سے آنے والا ہر نبی قوم کو ڈراتا بھی تھا، بشارت بھی دیتا تھا، تاریخِ
الٰہی کے واقعات کی یاد بھی دلاتا تھا اور ان سے درسِ عبرت پکڑنے اور نصیحت حاصل کرنے
کا بھی کہتا تھا۔ ہر نبی یاد کراتا تھا کہ اللہ نے قومِ نوح، قومِ عاد اور قومِ ثمود
کا کیا حشر کیا تھا، مَدیَن والوں کو اور نیست
ونابود ہونے والی قوموں کا کیا حال کیا تھا۔ تاریخ الٰہی کے واقعات سناتا تھا کہ اللہ
نے نعمتوں کے ناشکروں، نمک حراموں اور اپنی قوم کو تباہی کی دلدل میں دھکیلنے والوں
کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔
اے مؤمنو! اللہ کی نعمتیں بے شمار اور گنتی سے زیادہ ہیں۔ ہر لمحے میں کوئی نہ
کوئی نعمت ضرور ہوتی ہے، ہماری کوئی سانس نعمت سے خالی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالی کا فرمان
ذیشان ہے:
’’اللہ وہی تو ہے
جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے
تمہاری رزق رسانی کے لیے طرح طرح کے پھل پیدا کیے جس نے کشتی کو تمہارے لیے مسخر کیا
کہ سمندر میں اُس کے حکم سے چلے اور دریاؤں کو تمہارے لیے مسخر کیا۔ جس نے سورج اور
چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ لگاتار چلے جا رہے ہیں اور رات اور دن کو تمہارے لیے
مسخر کیا۔ جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار
کرنا چاہو تو کر نہیں سکتے حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔‘‘
(ابراہیم: ۳۲-۳۴)
انسان کو جو خیر بھی ملتی ہے، وہ اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہوتی ہے، بلکہ ہر برائی
سے بچنا اللہ کی ایک نعمت ہے۔
’’تمہیں جو نعمت
بھی حاصل ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے پھر جب کوئی سخت وقت تم پر آتا ہے تو تم لوگ خود
اپنی فریادیں لے کر اُسی کی طرف دوڑتے ہو۔‘‘ (النحل: ۵۳)
اللہ کی عظیم نعمتوں میں سرِ فہرست نعمتیں، اسلام، ہدایت، استقامت اور اللہ کی طرف متوجہ ہونے کی
نعمتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرام] پر اپنے احسان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’مگر اللہ نے تمہیں
ایمان کی محبت دی اور اس کو تمہارے لیے دل پسند بنا دیا، اور کفر و فسق اور نافرمانی
سے تمہیں متنفر کر دیا۔ ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل و احسان سے راست رو ہیں اور اللہ علیم
و حکیم ہے۔‘‘ (الحجرات: ۷-۸)
ایمانی بھائیو! اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھنے کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا اعتراف کیا
جائے، انہیں حقیقی داتا کی طرف منسوب کیا جائے۔ کیونکہ نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے
باوجود حقیقی داتا کو بھلائے رکھنا پروردگار کی بہت بڑی بے ادبی ہے۔ جب مسلمان نعمتوں
کا اعتراف کرتا ہے۔ تو پھر ان کے شکر کی بھی فکر کرتا ہے، انہیں حقیقی داتا کی خوشنودی
کمانے کے لیے استعمال بھی کرتا ہے۔ کلیم اللہ، موسیٰ نے کہا تھا:
’’اے میرے رب! یہ
احسان جو تو نے مجھ پر کیا ہے اِس کے بعد اب میں کبھی مجرموں کا مدد گار نہ بنوں گا۔‘‘
(القصص: ۱۷)
اگر تم یہ دیکھو کہ اللہ کسی بندے کو خوب نعمتیں دے رہا ہے حالانکہ وہ نافرمانی
پر ڈٹا ہواہے، تو جان لیجیے کہ اللہ نے وقتی طور پر اسے ڈھیل دے رکھی ہے۔
’’پھر جب انہوں نے
اس نصیحت کو، جو انہیں کی گئی تھی، بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے دروازے
ان کے لیے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ اُن بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں خوب
مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے۔‘‘
(الانعام: ۴۴)
امام قرطبیa بیان
کرتے ہیں کہ اللہ کا فرمان ہے:
’’انہیں ہم بتدریج
ایسے طریقہ سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی۔‘‘ (الاعراف: ۱۸۲)
’’یعنی: ان کی ہر
غلطی کے ساتھ ہم اپنی نعمتیں بڑھا دیں گے، تاکہ وہ استغفار کو بھولے رہیں۔‘‘
اے مؤمنو! ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ بندہ شکر گزار تبھی ہو سکتا ہے جب نعمت
کا اثر اس کے دل پر ظاہر ہو جائے، وہ محبتِ الٰہی سے بھر جائے اور توحید کی گواہی سے
سرشار ہو جائے۔ جب اس کی زبان نوازنے والے کی حمد وثنا اور اعترافِ نعمت سے تر ہو جائے۔
جب اس کے اعضائِ بدن سے اطاعت وفرماں برداری عیاں ہونے لگے۔ یعنی زبان ودل اور اعضاء
ِ جسم، ہر لحاظ سے نعمتوں کا شکر ادا کیا جانے لگے۔ شکر کی سب سے بڑی صورت یہ ہے کہ
عبادتِ الٰہی میں پیش قدمی کی جائے۔ فرمان باری تعالی ہے:
’’لہٰذا (اے نبی)
تم بس اللہ ہی کی بندگی کرو اور شکر گزار بندوں میں سے ہو جاؤ۔‘‘ (الزمر: ۶۶)
اللہ کے بندو! شکر گزاری سے نعمتیں برقرار بھی رہتی ہیں اور بڑہتی بھی ہیں۔ جسے
شکر کی توفیق مل جائے، اسے مزید نعمتیں بھی مل جاتی ہیں۔
’’اور یاد رکھو،
تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں
گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔‘‘ (ابراہیم: ۷)
امام ابن قیمa فرماتے
ہیں:
’’نعمتیں تین طرح
کی ہیں: ایک وہ جو حاصل ہو چکی ہوتی ہے اور بندے کو اس کا علم بھی ہوتا ہے، دوسری وہ
جس کا وہ امیدوار اور منتظر ہوتا ہے، اور تیسری وہ جو حاصل تو ہو چکی ہوتی ہے مگر بندے
کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔ جسے اللہ تعالیٰ نعمتِ کاملہ عطا فرمانے کا فیصلہ کر لیتا
ہے، اس میں احساسِ نعمت بیدار کر دیتا ہے، اسے شکر کی ایسی زنجیر عطا کردیتا ہے کہ
اس کے ہوتے ہوے نعمتیں بھاگ نہیں سکتیں۔ کیونکہ نعمتیں نافرمانی سے بھاگتی ہیں اور شکر سے برقرار رہتی ہیں۔ اور اسے ایسے کاموں
کی مزید توفیق دے دیتا ہے جن سے مزید نعمتوں کا حصول ممکن ہوتا ہے اور اسے ان نعمتوں
کا احساس بھی دلا دیتا ہے جو اسے حاصل ہیں مگر وہ انہیں جانتا نہیں۔‘‘
انسان جتنی بھی محنت کر لے، بہر حال وہ حقِ شکر ادا نہیں کر سکتا۔ چنانچہ یکتا
ویگانہ پروردگار کی خوشنودی کی تگ ودو ہی اس کے لیے کافی ہے۔ مگر ہر نئی نعمت کے ساتھ
نیا شکر بجا لانا انسان کا فرض ہے۔ حصولِ مزید کے لیے وہ دعا کے دروازے پہ دستک دیتا
رہے، تاکہ نعمتوں کے معاملے میں ہونے والی کوتاہی کا ازالہ ہو سکے۔ فرمان باری تعالیٰ
ہے:
’’جب وہ اپنی پوری
طاقت کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا تو اس نے کہا: اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ
میں تیری اُن نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائیں،
اور ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو، اور میری اولاد کو بھی نیک بنا کر مجھے سُکھ
دے، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور تابع فرمان (مسلم) بندوں میں سے ہوں۔‘‘ (الاحقاف:
۱۵)
اللہ کے نبی سلیمانu نے
کہا تھا:
’’اے میرے رب، مجھے
توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین
پر کیا ہے اور ایسا عمل صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح
بندوں میں داخل کر۔‘‘ (النمل: ۱۹)
انبیاءo نے
بھی اپنی قوموں کو شکر ہی کا حکم دیا تھا۔ سیدنا ابراہیمu نے
اپنی قوم سے کہا تھا:
’’تو اللہ سے رزق
مانگو اور اُسی کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو، اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے
ہو۔‘‘ (العنکبوت: ۱۷)
رسول اللہe نے
بھی صحابۂ کرام] کو
شکر ہی کی نصیحت کی۔ سنن ابی داؤد میں ہے کہ سیدنا معاذ بن جبلt نے
بیان کیا: رسول اللہe نے
میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:
’’معاذ! میں تمہیں
وصیت کرتا ہوں کہ کسی نماز کے بعد یہ دعا ہرگز ترک نہ کرنا: اے اللہ! اپنا ذکر کرنے،
شکر بجا لانے اور بہترین انداز میں اپنی عبادت کرنے میں میری مدد فرما۔‘‘ (سنن ابی
داؤد: ۱۵۲۲)
فرمان الٰہی ہے:
’’ہم اِس سے پہلے
موسیٰ کو بھی اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیج چکے ہیں‘ اسے بھی ہم نے حکم دیا تھا کہ اپنی
قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لا اور انہیں تاریخ الٰہی کے سبق آموز واقعات
سنا کر نصیحت کر اِن واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے جو صبر اور شکر
کرنے والا ہو۔‘‘ (ابراہیم: ۵)
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
اے مؤمنو! ماہِ محرّم کا دسواں دن اللہ تعالی کے دنوں میں سے ایک عظیم دن ہے۔
اس میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ اور قومِ موسیٰ کو نجات عطا فرمائی تھی، فرعون اور
اس کی فوج کو غرق کیا تھا۔ جب اللہ کوئی نعمت دیتا ہے، تو شکر کی شکل میں اس کا نتیجہ
دیکھنا بھی پسند کرتا ہے۔ اسی لیے سیدنا موسیٰu نے بطورِ شکر اس دن کا روزہ رکھا۔
رسول اللہ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے
ہوئے پایا تو رسول اللہe نے
ان سے فرمایا کہ اس دن روزہ رکھنے کی کیا وجہ ہے؟تو وہ کہنے لگے کہ یہ وہ عظیم دن ہے
کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰu اور
ان کی قوم کونجات عطا فرمائی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق فرمایا چنانچہ سیدنا موسیٰu نے
شکرانے کاروزہ رکھا اس لئے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں،تو رسول اللہe نے
فرمایا کہ ہم زیادہ حق دار ہیں اور تم سے زیادہ موسیٰu کے قریب ہیں تو رسول اللہe نے
بھی عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام] کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ (مسلم: ۱۱۳)
روزے داروں کے حق میں اللہ کے عظیم وعدے سے سرفراز ہونے کے لیے عاشوراء کا روزہ
رکھنا مستحب ہے۔ (صحیح مسلم) میں ہے کہ رسول اللہe نے اس روزے کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا:
’’یوم عاشورہ کاروزہ،میں
اللہ سے امید رکھتاہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم:
۱۱۶۲)
سنت یہ ہے کہ عاشوراء کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی رکھا جائے، کیونکہ آپe نے
فرمایا تھا:
’’اگر میں اگلے سال
تک زندہ رہا تو میں نویں دن کا روزہ رکھوں گا۔‘‘ (صحیح مسلم: ۱۱۳۴)
اے امت اسلام! عاشوراء کا دن اتحاد واتفاق کا دن ہے، اہل ایمان کی باہمی محبت اور
مودت کا دن ہے، چاہے ان کا حسب ونسب اور ان کی زبانیں مختلف ہی کیوں نہ ہوں، یا زمان
ومکان الگ الگ ہی ہوں۔ عاشوراء کا روزہ ہر مسلمان کو اس تاریخی واقعے کی یاد دلاتا
ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو سمندر میں خشک راستہ فراہم
کیا تھا۔ نبیوں کا باہمی تعلق بھی بڑا گہرا ہوتا ہے، ان کا پروردگار بھی ایک، ان کے
دین کی بنیاٰد بھی ایک، ان کی دعوت بھی ایک ہی معبود کی طرف ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری)
میں روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
’’میں دنیا اور آخرت
میں سب سے زیادہ عیسیٰ ابن مریم سے قریب تر
ہوں۔ تمام انبیاء آپس میں عَلاتی بھائی ہیں۔ ان کی مائیں، یعنی شریعتیں مختلف ہیں مگر
دین سب کاایک ہے۔‘‘ (بخاری: ۳۴۴۳)
اولیاء اللہ کے ساتھ امتِ محمدیہ کا تعلق اپنے نبیوں کو جھٹلانے والی قوموں کی
نسبت زیادہ گہرا اور مضبوط ہے۔ روزِ قیامت آخری نبی حضرت محمدe اور
آپ کی امت گواہی دے گی کہ تمام انبیاءo نے پیغامِ الٰہی پہنچا دیا تھا۔ (صحیح بخاری) میں ہے
کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
’’قیامت کے دن سیدنا
نوحu اور
ان کی امت آئے گی تو اللہ تعالیٰ (سیدنا نوحu سے) دریافت فرمائیگا: کیا تم نے انہیں میرا پیغام پہنچادیا
تھا؟ سیدنا نوحu عرض
کریں گے: میں نے انہیں تیرا پیغام پہنچا دیاتھا اے رب العزت! اب اللہ تعالیٰ ان کی
امت سے دریافت فرمائے گا: کیا انہوں نے تمہیں میرا پیغام دیا تھا؟وہ جواب دیں گے: نہیں!
ہمارے پاس تیرا کوئی نبی نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ سیدنا نوحu سے
دریافت فرمائے گا: تمہارا کوئی گواہ ہے؟وہ کہیں گے حضرت محمدe اورآپ
کی اُمت کے لوگ میرے گواہ ہیں، چنانچہ (میں اور میری امت کے لوگ) ہم سب اس امر کی گواہی
دیں گے کہ سیدنا نوحu نے
لوگوں کو اللہ کاپیغام پہنچا دیا تھا ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور اِسی طرح تو
ہم نے تمہیں ایک ’’امت وسط‘‘ بنایا ہے، تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو۔‘‘ وسط کے معنی عدل کے ہیں، یعنی تم عدل وانصاف کے
علم بردار ہو۔ (بخاری: ۳۳۳۹)
عاشوراء رحمت ومغفرت کا دن ہے، کرمِ الٰہی کے ظہور کا دن ہے۔ اس میں وہ مہربانی
فرما کر بہت تھوڑے کام کا بہت بڑا بدلہ دے دیتا ہے۔ ایک ہی دن کے روزے سے وہ پورے سال
کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔
عاشوراء نیکی کی تربیت کا دن ہے، عبادت کو عادت بنانے کا دن ہے۔ صحابۂ کرام] خود
بھی اس دن روزہ رکھتے اور اپنے بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالتے۔ (صحیح بخاری اور صحیح
مسلم)میں ہے رُبَیِّع بیان کرتی ہیں:
عاشوراء کے دن رسول اللہe نے
مدینہ منورہ کے ارد گرد موجود انصاری بستیوں میں پیغام بھجوایا کہ جس نے صبح سے روزہ
رکھا ہے، وہ اپنا روزہ برقرار رکھے، اور جس نے صبح سے روزہ نہیں رکھا وہ بقیہ دن کا
روزہ رکھ لے۔ اس کے بعد ہم اس دن کا روزہ رکھتے ور اللہ چاہتا تو ہم اپنے چھوٹے بچوں
کو بھی روزہ رکھواتے تھے اور ہم انہیں مسجد کی طرف لے جاتے اور ہم ان کے لئے روئی کی
گڑیاں بناتے۔ پس جب ان بچوں میں سے کوئی کھانے کی وجہ سے روتاتو ہم انہیں وہ گڑیا دے
دیتے تاکہ وہ افطاری تک ان کے ساتھ کھیلتے رہیں۔ (مسلم: ۱۱۳۶)
اسی طرح (صحیح مسلم)میں ہے کہ آپe فرماتے
ہیں:
’’ہم ان بچوں کے
لئے روئی کے کھلونے بناتے تاکہ وہ ان سے کھیلیں اور وہ ہمارے ساتھ مسجد میں جاتے تو
جب وہ ہم سے کھانا مانگتے تو ہم انہیں وہ کھلونا دے دیتے اور وہ ان سے کھیل میں لگ
کر روزہ بھول جاتے یہاں تک کہ ان کا روزہ پورا ہوجاتا۔‘‘ (مسلم: ۱۱۳۶)
امام نوویa فرماتے
ہیں:
’’اس حدیث سے ثابت
ہوتا ہے کہ بچوں کو نیکی کی مشق کرانی چاہیے، اور انہیں عبادت کی عادت ڈالنی چاہیے۔‘‘
اللہ کے بندو! رسول ہدایتe پر
درود وسلام بھیجو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں آپ کو یہی حکم دیا ہے۔
اے اللہ! ہمیں مہنگائی، وباؤں، سود، زنا، زلزلوں اور تمام آزمائشوں سے بچا۔ ظاہر
وپوشیدہ فتنوں سے محفوظ فرما! اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، معافی تجھے پسند ہے،
تو ہمیں معاف فرما! اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، معافی تجھے پسند ہے، تو ہمیں معاف
فرما! اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، معافی تجھے پسند ہے، تو ہمیں معاف فرما! اے اللہ!
ہماری مدد فرما! ہمارے خلاف دوسروں کی مدد نہ فرما! ہماری نصرت فرما! ہمارے خلاف دوسروں
کی نصرت نہ فرما! ہمارے لیے منصوبہ بندی فرما اور ہمارے خلاف منصوبہ بندی نہ فرما۔
ہمیں ہدایت عطا فرما اور ہدایت کی راہ ہمارے لیے آسان فرما۔ جو ہم پر زیادتی کرے، ہمیں
اس پر نصرت عطا فرما! اے اللہ! ہمیں اپنا ذکر کرنے والا بنا، اپنا شکر کرنے والا بنا،
اپنی طرف رجوع کرنے والا بنا۔ اپنے سامنے عجز وانکساری کرنے والا بنا۔
No comments:
Post a Comment