درسِ قرآن
تنزلی اور دنیوی عذاب
کی وجہ
ارشادِ باری ہے:
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ
يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ١ۙ فِي الدُّنْيَا
وَ الْاٰخِرَةِ١ؕ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۰۰۱۹﴾ (النور)
’’جو لوگ چاہتے ہیں
کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحاشی پھیلے
وہ دنیا میں اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔اللہ(عذاب کی شدت کو) جانتاہے اور
تم نہیں جانتے۔‘‘
یہ پڑھیں: درس قرآن: اجتماعی آزمائش اور دو گروہوں کا کردار درس حدیث: دھوکہ دہی اور ملاوٹ ایک قبیح عادت
قرآن کریم کی تعلیمات کسی بھی معاشرہ کی اخلاقی گراوٹ کے نتیجہ میں پیش آمدہ
حالات میں بہترین رہنماء ہیں ، بشرطیکہ اس معاشرہ کے افراد ان تعلیمات کا مطالعہ کریں
اور اپنی عادات و اطوار پر غور و فکر کریں ۔کوئی بھی معاشرہ جو انتہائی کمزور اور اخلاقی
لحاظ سے تنزلی کا شکارہو اس کے لیے قرآنی تعلیمات ہی بہترین تریاق ہیں۔آیت مذکورہ
کی روشنی میں ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ آیت کے مصداق ترک اعمال صالحہ کو اپنا شیوہ اور
فحاشی وبے حیائی کو اپنی فطرت ثانیہ بنا لیا جانا اخلاقی گرواوٹ اور معاشرتی تنزلی
کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔ جس کے نتیجہ میں مختلف اقسام کی آزمائش میں مبتلا
کرکے عذاب سے دو چار کیا جانا قانون قدرت ہے۔
فی زمانہ فحاشی و غلط کاری نہ صرف یہ کہ عام ہے، بلکہ بعض حوالوں سے تو اسے گناہ
شمار ہی نہیں کیا جاتا اور انٹرٹینمنٹ کے نام پر بچوں ، جوانوں اور عورتوں کے دل ودماغ
میں بدی کے بیج بوئے جارہے ہیں ۔سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر کی بھرمار اور پھر انہیں
آگے شیئر کرتے رہنے کا رواج عام ہے جوکہ ایک
لحاظ سے فحاشی کی شہرت ہی ہے۔ حیا امت مسلمہ کا اصل زیورتھا اور غیر مسلم اقوام یہود
ونصاریٰ ان سے یہ زیور چھیننے کی کوشش میں مصروف ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے:
[وَالْحَيَآءُ شُعْبَةٌ
مِّنْ الْإِيمَان] ’’ حياء ایمان کی
شاخ ہے۔‘‘ سیدنا عمران بن حصینt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا: [الحيآء لا يأْتي
إلاَّ بخير، وأنَّه خيرٌ کلّه] ’’شرم وحیاء خیر وبھلائی کے علاوہ کوئی چیز لے کر نہیں آتی۔‘‘ یعنی حیاء سے ہمیشہ
بھلائی ہی پیداہوتی ہے۔ اور ایک روایت میں ہے: ’’حیاء ساری کی ساری خیروبھلائی اور
خوبی ہی ہے۔‘‘
امام رازیa نے
آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ مسلمان معاشرہ میں فحاشی کا عمل کرنا یا حیا باختہ کہانیوں
کی شہرت کرنا ایک عظیم اور قابل مؤاخذہ گناہ ہے،جس کی سزاء دنیا اورآخرت دونوں میں بھگتنا ہوگی۔
یہ پڑھیں: درس قرآن: بد اعمالی اور نعمتوں کی ناشکری کے اثرات درس حدیث: زبان درازی اور لغو گفتگو
اگرامت مسلمہ ذلت وخواری کے اس عمیق غار سے نکلنا چاہتی ہے اور آخرت کے عذاب سے
بچنا چاہتی ہے تو دین اسلام کی طرف سچے دل سے پلٹنا ہوگا۔ شریعت اسلامیہ یعنی قرآن
وحدیث کو اپنے جسم ،گھر اور اپنے وطن میں عملاً نافذ کرتے ہوئے اپنے دعوی ایمان کا
ثبوت فراہم کرنا ہوگا، تبھی آخرت کی کامیابی و کامرانی بھی مقدر ہوگی اور دنیا میں
بھی عزت ووقار سے جی سکے گی۔
درسِ حدیث
اللہ سے ملاقات
رسول
اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
[عَنْ عُبَادَةَ
بْنِ الصَّامِتِ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِﷺ، قَالَ: مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ،
أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ، كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ.]
سیدنا عبادہ بن صامتt
کہتے ہیں کہ رسول اللہ e نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ
سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو محبوب رکھتا ہے ،جو شخص
اللہ تعالیٰ سے ملاقات پسند نہیں کرتا اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات پسند نہیں فرماتے۔‘‘
(مسلم)
قرآن
کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ﴾ یعنی
’’خسارہ ،گھاٹا اور نقصان ہے ان لوگوں کے لیے
جو دنیا اور اس کی عارضی چاندنی میں اس قدر محوہوگئے کہ انہوں نے قیامت کے دن اپنے
رب سے ملاقات کو ہی بھلا دیا۔‘‘
یہ پڑھیں:
سیدہ
عائشہr اس فرمان رسول e
کو سننے کے بعد کچھ پریشان ہوئیں اور پوچھنے لگیں :یارسول اللہ! ہم
میں سے ہر کوئی یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دن جیے اور موت کو نا پسند
کرتا ہے ، تو کیا جو شخص موت کو نا پسند کرتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں فرماتے؟
آپ e نے جواب دیا : نہیں عائشہ
(r) ایسا نہیں جیسا تم سمجھی ہو! بلکہ اس کامطلب
حالت نزع میں ، اور عین اس وقت کہ جب انسان کی روح قبض کی جانے لگتی ہے اس وقت انسان
کی جو کیفیت ہوگی اس کے مطابق اللہ تعالیٰ اس سے
معاملہ فرمائیں گے۔ یعنی اس وقت اگر انسان اللہ سے شوق ملاقات میں موت کو پسند
کررہا ہو گا تو اللہ بھی اس سے خوش ہوں گے اور اس سے ملاقات کو پسند فرمائیں گے اور
یہ تبھی ممکن ہوگا اگر انسان نے اپنے رب کی پسندیدگی اور رضا والے اعمال کیے ہوں گے
۔ اللہ کی پسندیدگی اور قربت والے اعمال اس کی عبادت کے ساتھ ساتھ اس کی مخلوق کے ساتھ
ہمدردی، الفت اور غمگساری کرنا ہے۔اجتماعی فلاح اور معاشرتی بہبود کے لیے اپنے حقوق
اور خواہشات کی قربانی دینا ہے ۔اگر انسان یہ سب کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر
اس کی روح قبض کرنے کے لیے اللہ تعالی رحمت کے فرشتوں کو بھیجیں گے جو اسے خوشخبر ی
دے رہے ہوں گے کہ:
﴿يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ رِضْوَانٍ وَّ
جَنّٰتٍ لَّهُمْ فِيْهَا نَعِيْمٌ مُّقِيْمٌۙ۰۰۲۱﴾
’’انہیں ان کا رب خوشخبری دیتا ہے اپنی
رحمت ، رضامندی اور دائمی جنتوں کی۔‘‘
یہ پڑھیں: درس قرآن: مصائب زندگی کی وجوہات درس حدیث: نوحہ
ایک
مومن حالت نزع میں رحمت کے فرشتوں کو دیکھ کر شوق ملاقات رب میں اور بھی بے چین ہو جاتا ہے تو پھر اللہ تعالی
بھی ایسے مومن سے ملاقات کو پسند فرماتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف وہ شخص جو دنیا میں رہتے
ہوئے مخلوق کی حق تلفی اور ان کی اذیت، ہمسایوں اور رشتہ داروں سے نا مناسب سلوک ،
والدین کی عدم توقیر اور حکم عدولی اور اپنے
رب کی نافرمانی کے سبب عذاب کے فرشتوں کو دعوت دیتا ہے جو اس کی روح قبض کرنے کے لیے
آتے ہیں ۔ اس وقت چونکہ اسے اپنے سامنے عذاب نظر آرہا ہوتا ہے اور فرشتے بھی اسے
اللہ کے عذاب کی وعید سنا رہے ہوتے ہیں تب وہ موت کو نا پسند کرتا ہے اور چاہتا ہے
کہ اللہ سے ملاقات ہی نہ ہو تاکہ عذاب سے بچا رہے۔ انسان کی اس نا پسندیدگی کی وجہ
سے اللہ تعالیٰ بھی ایسے بد بخت سے ملنا گوارا نہیں فرماتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment