23 ستمبر
... سعودی عرب کا قومی دن
عالم اسلام کے دل
سعودی عرب کا قیام 23 ستمبر 1932ء کو ہوا۔ مملکت
کا نام حجاز و نجد سے تبدیل کر کے سعودی عرب رکھ دیا گیا۔ مملکت سعودی عرب کا رقبہ
22 لاکھ 17 ہزار 949 مربع کلومیٹر ہے۔ اس طرح سعودی عرب کا شمار رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 15 بڑے ملکوں میں ہوتا ہے۔ سعودی عرب کی آبادی 2005ء کے اعداد و شمار
کے مطابق 26.4 ملین ہے جس میں 15.6 ملین غیر ملکی بسلسلہ روزگار آباد ہیں۔ سعودی عرب کو تیرہ صوبوں یا مناطق
میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مملکت کا تقریباً تمام علاقہ صحرائی و نیم صحرائی ہے جبکہ 2
فیصد علاقہ قابل کاشت ہے۔ خلیج فارس کے ساتھ ساتھ قائم مشرقی علاقہ پتھریلا اور ریتلا
ہے۔ جبکہ طائف، ابہا اور جیزان جیسے سرسبز اور خوشگوار موسم رکھنے والے علاقے بھی ہیں۔
سعودی عرب میں 1938ء میں جب تیل کے
ذخائر ملے تو اس ملک نے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی شروع کر دی۔
یہ پڑھیں: سعودی عرب کا قومی دن اور تحفظ حرمین
حجاز مقدس اور حرمین
کی نسبت سے سعودی عرب کو مسلمان پہلے ہی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے‘ جب سعودی عرب میں
تیل کی صورت میں رب ذوالجلال نے دولت کے ذخائر پیدا کر دئیے تو سعودی مملکت نے تیل
سے حاصل ہونے والی آمدنی سے نہ صرف مملکت سعودی عرب کو ترقی کی عروج بام تک پہنچا
دیا بلکہ غریب مسلم ممالک کی ہر لمحہ و لحظہ دل کھول کر مدد کی۔ سعودی عرب نے ملک کو
مضبوط بنیادوں پر ترقی دینے کے لیے تعلیم کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔ سعودی عرب
نے اپنے ملک میں علم کے فروغ کے لیے اپنی آمدنی یا بجٹ کے کل میزانیہ سے 25% تعلیم کے لیے مختص کر رکھا ہے، تعلیم کے فروغ کے لیے دنیا کا شاید ہی کوئی
ملک ہو جس نے اتنا بڑا بجٹ تعلیم و تعلم کے لیے مختص کر رکھا ہو۔ ہمارے ملک پاکستان
میں جہاں بدعنوان اور خودغرض حکمرانوں نے ہمیشہ تعلیم کے احیاء سے چشم پوشی اختیار
کی یہاں کبھی بھی بجٹ میں 5% سے 7% سے زیادہ رقم تعلیم کے فروغ کے لیے مختص نہیں ہوئی۔ سرکاری شخصیات اور بیوروکریٹس
نے بڑے بڑے مہنگے نجی ادارے قائم کر کے جہاں تعلیم کو مشکل، مہنگا اور کاروبار بنایا
ہے وہیں سرکاری بجٹ میں اضافے کی راہ میں یہ مافیا رکاوٹ ہے۔ آج سعودی عرب کے حکمرانوں
کی علم دوستی کی وجہ سے مسلم ممالک میں سب سے زیادہ شرح خواندگی سعودی عرب میں ہے جہاں
علم کا حصول نہایت ہی آسان بنا دیا گیا ہے۔
1932ء میں مملکت سعودی
عرب کے قیام کے وقت ہر باشندے کی تعلیم تک رسائی نہ تھی اور شہری علاقوں میں مساجد
سے ملحق مدارس میں تعلیم کی محدود اور انفرادی کوششیں ہو رہی تھیں۔ ان مدارس میں شریعت
اسلامی اور بنیادی تعلیم سکھائی جاتی تھی تاہم گزشتہ صدی کے اختتام تک سعودی عرب ایک
قومی تعلیمی نظام کا حامل ہے جس میں تمام شہریوں کو اسکول سے لے کر جامعات تک مفت تعلیم
و تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ سعودی تعلیمی نظام، جدید اور روایتی فنی و سائنسی شعبہ جات
میں معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم سعودی نظام کا بنیادی حصہ ہے۔ یہاں
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ، جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ، جامعہ امام محمد بن سعود الریاض،
خالص اسلامی تعلیم کے لیے وقف ہیں۔ جہاں پوری دنیا کے مسلم و غیر مسلم ممالک میں بسنے
والے مسلم طلبہ بغرض تعلیم آتے ہیں۔ سعودی عرب ان طلبہ کو نہ صرف مفت کتب و رہائش
دیتا ہے بلکہ ہر طالب علم کو 1000 سعودی ریال وظیفہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح ان طلبہ کو ہر سال اپنے اپنے ملک چھٹیاں
منانے کی غرض سے آنے جانے کا ہوائی ٹکٹ بھی دیا جاتا ہے۔ سعودی عرب کی ان یونیورسٹیوں
سے تشنگان علم اپنی علمی پیاس بجھانے کے بعد دنیا بھر میں دعوتی سفر کرتے ہیں۔ ان کی
دعوت سے ہر سال ہزاروں لوگ اسلام قبول کرتے ہیں۔ تعلیم کے احیاء کا ایک ذریعہ اشاعت
کتب بھی ہے۔ سعودی عرب میں حج کے موقع پر لاکھوں حجاج اور معتمرین کو ان کی مادری زبانوں
میں تحریر دعوتی کتب، سی ڈیز اور قرآن کریم مطبوعہ شاہ فہد قرآن کمپلیکس بطور ہدیہ
دئیے جاتے ہیں۔ ان مساعی جمیلہ کے سبب لاکھوں غیر مسلم بھی ان کتب و قرآن مجید تک
رسائی حاصل کرتے ہیں اور پھر حق واضح ہونے کے بعد کفر کی تاریکیوں سے نکل کر اسلام
کی صراط مستقیم پر زندگی کا بقیہ سفر شروع کر دیتے ہیں۔ مغرب میں اسلام کی مقبولیت
اور احیاء میں مرکزی کردار سعودی عرب کا ہی ہے۔
یہ پڑھیں: پاک سعودی تعلقات کا تاریخی جائزہ
1945ء میں شاہ عبدالعزیز
آل سعودؒ نے مملکت میں اسکولوں کے قیام کے لیے ایک جامع پروگرام کا آغاز کیا۔ 6 سال بعد مملکت میں 226 سکولوں میں 30 ہزار طلبہ زیرتعلیم تھے۔ 1954ء میں وزارت تعلیم
کا قیام عمل میں آیا۔ شاہ فہد اس کے پہلے وزیر تعلیم مقرر ہوئے اور سعودی عرب کی پہلی
’’ملک سعود یونیورسٹی‘‘ 1957ء میں ریاض میں قائم
ہوئی۔ آج سعودی عرب میں 25 جامعات، 24 ہزار سے زائد سکول اور بیسیوں کالج تعلیم کے فروغ میں مصروف ہیں۔ سعودی عرب
میں طالب علموں کو اسکالر شپ پروگرام کے تحت بیرون ملک بھی بھیجا جاتا ہے جن میں امریکہ،
کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان اور ملائیشیا شامل ہیں۔
سعودی عرب نے اسلامی
تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید فنی تعلیم کے لیے بھی بہت سی یونیورسٹیاں قائم کی ہیں۔ ان
میں سرفہرست شاہ فہد یونیورسٹی برائے پٹرولیم و معدنیات شامل ہے۔ اس طرح شاہ عبداللہ
یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور شاہ سعود بن عبدالعزیز یونیورسٹی برائے ہیلتھ
کام کر رہی ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی طرز پر عرب اوپن یونیورسٹی بھی علم
کے آسان فروغ کا ذریعہ ہے۔ بہت سے میڈیکل کالج اور ٹیکنالوجی کالج، انڈسٹریل ادارے،
کالج برائے سیاحت، ڈینٹل کالج، ٹیلی کام و الیکٹرونکس کالج، بزنس اینڈ ایڈمنسٹریشن
کالج، شہزادہ سلطان ایوی ایشن کالج، ویٹنری کالج اور میڈیسن کالج سمیت ان گنت ادارے
تعلیمی میدان میں مصروف عمل ہیں۔
سعودی عرب نے جہاں
اپنے عوام کو مفت تعلیم دی ہے وہیں علاج معالجہ کی سہولیات بھی مفت ہیں، کوئی سعودی
شہری دیہات سے دور کسی پہاڑی پر موجود ہو، اس کے قریب بھی ہسپتال اور ہیلتھ کلینک کی
سہولت ہوتی ہے۔ سعودی عرب نے پوری مسلم امہ کے دل جیت لیے ہیں۔ ہر سال حرمین کی زیب
و زینت اور آرائش کے لیے منصوبوں پر کام جاری رہتا ہے۔ جمرات پر کئی ایک پل اور راستے
بنا کر لوگوں کو بھیڑ اور ناگہانی حادثات سے محفوظ بنایا گیا۔ اسی طرح اپنی تاریخ کا
سب سے بڑا حرم توسیعی منصوبہ شروع ہے جس پر اربوں ریال خرچ ہوں گے۔ اس منصوبے کی تکمیل
کے لیے قرب و جوار کی بلند و بانگ عمارتیں اور ہوٹل جو اربوں ڈالر مالیت کے ہیں، صرف
ربانی مہمانوں کے لیے گرا کر مسجد حرام کو وسیع کیا جائے گا تاکہ حج و عمرہ کرنے والوں
کو مشکلات کا سامنا نہ رہے۔ اسی طرح حرم میں چھتریوں کا منصوبہ بھی ہے، مکہ ٹاور جہاں
جرمن ساختہ یہ کلاک ٹاور لندن میں نصب دنیا کے سب سے بڑے بگ بن سے 6 گنا بڑا ہے۔ اس ٹاور کے چاروں اطراف 4 بڑے گھڑیال ہیں جن پر
بڑے حروف میں ’’اللہ‘‘ لکھا ہوا ہے۔ گھڑیال کو 8 کلومیٹر سے آسانی سے
دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ 16 ایسی لیزر اسکائی لائٹس بھی نصب ہیں جو شعاعوں کی شکل میں ’’اللہ‘‘ کے نام
کو آسمان پر روشن کرتی ہیں۔ سعودی عرب کے کارناموں اور خدمت اسلام سے مرصع روز و شب
کو ایک صفحہ میں سمونا ناممکن ہے‘ اس کے لیے تو ہزاروں صفحات بھی کم ہیں۔
یہ پڑھیں: اسلام اور اس کے تقاضے
سعودی عرب نے ہمیشہ
پاکستان کا خوشی اور رنج و الم میں ساتھ دیا۔ سعودی عرب پاکستان کو مضبوط دیکھنا چاہتا
ہے، ان دیرینہ تعلقات کی بنیاد شاہ فیصل شہید نے رکھی۔ انہوں نے ہمیشہ سرکاری سطح پر
مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت کی۔ جب 71ء میں بنگلہ دیش
کو پاکستان نے تسلیم کیا تو اس کے باوجود انہوں نے بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔ اسی
طرح سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا تو سعودی عرب نے پاکستان
کو بری، بحری اور فضائی تربیت کا کام سونپ دیا۔ 1973ء میں سیلاب اور
1975ء میں سوات زلزلہ
میں سعودی عرب کا تعاون مثالی رہا۔ کشمیر میں زلزلہ سے تباہی اور سیلاب سے تباہی پر
بھی سعودی عرب نے جو تعاون کیا اس کا یہ احسان پاکستانی قوم کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
ہم ان خدمات پر اپنے برادر ملک اور محافظ اسلام خادم الحرمین الشریفین اور ارکان حکومت
کے شکر گزار ہیں اور قومی دن کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے مبروک کہتے ہیں اور دعاگو
ہیں کہ اللہ تعالیٰ سعودی عرب کو اندرونی و بیرونی دشمنوں کی دست بُرد سے محفوظ رکھے
اور اسے اسی طرح عالم اسلام کی خدمت کرنے کی توفیق دے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment