پاک سعودی تعلقات
تحریر: جناب مولانا
بلال احمد ربانی (سیالکوٹی)
حجاز مقدس آل سعود کے زیر نگیں آیا تو اسے سعودی عرب کا نام دیا گیا۔ سعودی عرب
کے مؤسس شاہ سعود کو شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہابa کی رہنمائی حاصل تھی لہٰذا شریعت مطہرہ کو اس ملک کا
آئین اور دستور قرار دیا جبکہ نظام حکومت رائج جمہوری نظام سے ہٹ کر ملوکیت پر استوار
ہے۔ دنیا کے حالات پچھلے سو سالوں میں بہت کچھ بدلا‘ لامحالہ سعودی عرب بھی انقلاب
زمانہ سے متاثر ہوا لیکن آج بھی اگر کسی ملک میں اسلامی تعلیمات کی ترویج اور تنفیذ
نظر آتی ہے تو وہ سعودی عرب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب زمانہ کے باوجود آج بھی سعودی
عرب کے عوام اپنے حکمران خاندان کے ساتھ ہیں۔
یہ پڑھیں: سعودی عرب کو قومی دن مبارک ہو
قریبی عرب ریاستوں میں انقلابی لہر کے باوجود سعودی عرب کا نظام حکومت قائم ہے
جس کی اور بھی وجوہات ہوں گی لیکن ان تمام وجوہات میں ایک اہم وجہ سعودی حکومت کا اپنے
عوام کے ساتھ دوستانہ رویہ ہے۔ جو سعودی عرب کے حکمران اپنے عوام کے ساتھ تو رکھتے
ہی ہیں اس کے علاوہ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے بھی اپنے دل میں درد محسوس
کرتے ہیں۔ امت مسلمہ کے پسماندہ طبقات کی بحالی کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔ سعودی عرب
کی انسانی فلاح و بہبود کی خاطر انجام دی گئی خدمات کے اثرات کوئی بھی صاحب نظر دنیا
بھر میں دیکھ سکتا ہے۔ ان تمام خدمات کی بنیاد اسلام اور اہل اسلام سے محبت پر استوار
ہے۔ حرمین الشریفین کے مجاور ہونے کی وجہ سے سعودی حکمرانوں کی امت مسلمہ کی قیادت
اور شعائر اسلام کے تحفظ کے لیے دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت ذمہ داریاں کچھ زیادہ ہیں
جنہیں پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسلامیان عالم میں حرمین الشریفین کے مراجع الخلائق
ہونے کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان ایک طرح سے سعودی عرب کو امت مسلمہ کی قیادت کے
منصب پر دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ سعودی عرب کے حکمران اپنی اس حیثیت کو سمجھتے ہیں اور
دنیا بھر کی مسلم ریاستوں اور مملکتوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے ہر کڑے وقت میں
اپنے مسلمان برادر ملکوں کی حمایت بھی کرتے ہیں۔ بین السطور تحریر دنیا بھر کے ممالک
کے ساتھ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ اختصار کے پیش نظر صرف
سعودی عرب اور پاکستان کے باہمی تعلقات کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو بہت سے حقائق
کی نقاب کشائی کے لیے مفید ہوگی۔
قیام پاکستان سے اب تک پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ خصوصی تعلقات ہیں۔ پاکستان
اور سعودی عرب کے مابین پہلا معاہدہ ۱۹۵۱ء میں ہوا‘ ان دنوں
شاہ عبدالعزیزa سعودی
عرب کے فرمانروا تھے۔ ان کے بعد شاہ فیصل کے
دور میں ان تعلقات کو بہت فروغ ملا۔ سعودی عرب کا شمار چند ان ممالک میں ہوتا ہے جن
کی حمایت مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کے موقف کو حاصل رہی۔ ستمبر ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی گئی۔
۱۹۶۵ء ماہ اپریل میں سعودی عرب کے دبنگ فرمانروا شاہ فیصل مرحوم
نے پاک سرزمین کا پہلا دورہ کیا اور اسلام آباد میں مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات
اپنے ذمے لینے کا اعلان کیا۔ شاہ فیصل کے نام سے موسوم یہ مسجد پاک سعودی تعلقات کی
گہرائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یہ پڑھیں: 23 ستمبر .. سعودی عرب کا قومی دن
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اعتماد کا یہ رشتہ اور بھی اس وقت مضبوط ہوا کہ
جب ۱۹۶۷ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ
ہوا جس کی رو سے سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کاکام پاکستان کو
سونپا گیا۔ اس سے پہلے یہ کام برطانوی ماہرین حرب و ضرب انجام دیا کرتے تھے۔ اپریل
۱۹۶۸ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ماہرین کو رخصت کردیا گیا اور
ان کی جگہ پاکستان ماہرین کی خدمات حاصل کرلی گئیں۔ ۱۹۷۱ء میں جب سقوط مشرقی پاکستان ہوا اور بنگلہ دیش کی صورت میں اک نئی مملکت دنیا
کے نقشے پر بنگلہ دیش کے نام سے وجود میں آئی۔ اس المناک سانحے کی ٹس سعودی عرب کے
فرمانروا شاہ فیصل نے اپنے دل پر محسوس کی جس کی وجہ سے وہ انتہائی زیادہ رنجیدہ ہوئے۔
پاکستان نے بنگلہ دیش کے وجود کو تسلیم کرلیا لیکن انہوں نے یہ اقدام اٹھانا گوارا
نہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام اور خواص سبھی ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے
ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان کے بڑے اور معروف
صنعتی شہر لائلپور کا نام انہی کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا۔ اس کے علاوہ کراچی میں
بھی کئی مقامات شاہ فیصل مرحوم کے نام سے موسوم ہیں۔ یہی وہ سال تھے کہ جب پاکستان
کو سعودی عرب کی حمایت میں اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ اس
میں شاہ فیصل مرحوم کی خصوصی دلچسپی کارفرما تھی۔ ۱۹۷۵ء میں شاہ فیصل کی شہادت کے بعد شاہ خالد
نے سعودی اقتدار کی زمام سنبھالی تو یہ تعلقات برابر اپنی نہج پر استوار رہے۔ ۱۹۷۵ء سے ۱۹۸۲ء ان سات سالوں میں سعودی عرب پر شاہ خالد مرحوم حکومت کرتے
رہے۔ آپ بالغ نظر سیاست دان، زیرک و فہم مدبر اور اعلی درجے کے منتظم تھے۔ سعودی حکومت
کو اسی نہج پر جاری رکھا جس نہج پر ان کے اسلاف چھوڑ گئے تھے۔ ارض پاک پر موجود بین
الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد پاک سعودی تعلقات کی ایسی تصویر ہے جس کا اہل
علم کے دلوں میں انتہائی زیادہ احترام ہے۔ ۱۹۸۰ء میں اس یونیورسٹی کی پاکستان کی طرف سے سرکاری حیثیت کو تسلیم کیا گیا۔ اس وقت
سے لے کر آج تک صدر پاکستان کی سربراہی میں اسے ایک وفاقی ادارے کی حیثیت حاصل ہے
اور کنگ سعود یونیورسٹی سعودی عرب کے وائس چانسلر بطور پرو وائس چانسلر خدمات انجام
دے رہے ہیں۔ اس یونیورسٹی سے خاصی تعداد میں اہل علم مستفید ہورہے ہیں‘ اس کے علاوہ
دنیا بھر کی طرح پاکستان سے بھی طلبہ کی معقول تعداد ہر سال سعودی جامعات میں تحصیل
علم کی خاطر پہنچتی ہے جن کی میزبانی سعودی حکومت کرتی ہے۔
شاہ خالد کے بعد شاہ فہد اور شاہ عبداللہ بالترتیب سعودی عرب کے حکمران بنے‘ ہر
دور میں سعودی حکمرانوں کے پاکستانی حکومتوں کے ساتھ تعلقات مثالی رہے۔ سعودی فرمانروا
شاہ عبداللہ تو پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فرطِ جذبات
میں اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ زلزلہ ہو سیلاب
ہو یا کوئی اور آفت پاکستان میں متاثرین کی بحالی کے لیے سعودی عرب کے حکمران اور
عوام ہمیشہ پیش پیش رہے۔ سعودی خدمات کے یہ اثرات ماضی قریب میں زلزلے سے متاثرہ بالائی
علاقوں اور سیلاب سے متاثرہ نشیبی خصوصاً سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں تیار گھروں
کی صورت میں نظر آتے ہیں۔
یہ پڑھیں: پاک سعودی تعلقات
۲۵ لاکھ سے زائد پاکستانی سعودی عرب میں مقیم ہیں جو سعودی عرب
کی تعمیر وترقی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اور کثیر زرمبادلہ کما کر پاکستان میں
بھیجتے ہیں۔
سعودی عرب کی ان محبتوں کا جواب بھی پاکستانی عوام اور خواص کی جانب سے محبت ہی
کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ اس کے متعلق سابق سعودی سفیر ’’ڈاکٹر علی عواد العسیری‘‘
اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں:
’’۱۹۹۰ء میں پاکستان نے عراق کی جانب سے کویت پر حملے کے بعد سعودی عرب کے دفاع کے لیے
اپنی زمینی فوج بھیجی۔ تین دہائیاں بعد پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف
دہشت گردی سے جنگ کے لیے بنائے جانے والے ۴۱ ملکی اسلامی اتحادی
فوج کی سربراہی کر رہے ہیں۔‘‘
سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی گہرائی کا اقرار کرتے ہوئے ڈاکٹر علی عواد
العسیری لکھتے ہیں:
’’شراکت داری کی
اہمیت میں اس وقت اضافہ ہو گیا جب ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس
موقعے پر وزیراعظم عمران خان نے ان کی عزت افزائی کرتے ہوئے ہوائی اڈے سے وزیراعظم
ہاؤس تک ان کی گاڑی خود چلائی۔‘‘
ان کے درمیان ذاتی تعلق جو کہ ایک سال قبل قائم ہوا تھا اس کے مثبت نتائج آنا
شروع ہو گئے۔ ولی عہد نے پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر سے زائد کے معاشی ریلیف پیکج پر
دستخط کیے جن میں تین ارب ڈالر کا قرض اور
3.2 ارب ڈالر کا ادھار تیل اگلے
تین سال کے لیے دیا جانا تھا۔ اس سے پاکستان کے فارن ایکسچینج ریزرو میں اضافہ ہوا
اور ادائیگیوں کے توازن میں بحران کو ٹالا گیا۔
یہ ہنگامی ریلیف پیکج گذشتہ دو دہائیوں میں دیے جانے والے پیکیجز کا ایک تسلسل
تھا جب سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کی معیشت کو مشکلات سے نکالنے کے لیے مدد کی جاتی
رہی۔ لیکن اس بار یہ معاشی بحران سنگین تھا کیونکہ پاکستان اپنا بیرونی قرضہ نہ ادا
کر پانے پر دیوالیہ ہو سکتا تھا۔
سعودی عرب وہ پہلا ملک تھا جس نے نومبر ۲۰۱۸ء میں پاکستان کو 6.2 ارب ڈالرز کا ریلیف پیکج دیا تھا۔ بعد میں متحدہ عرب امارات بھی
اس میں شامل ہو گیا۔ یہ آئی ایم ایف کی جانب سے جولائی ۲۰۱۹ء میں چھ ارب ڈالرز کے قرض کی منظوری سے مہینوں پہلے کی بات ہے۔
یہ پڑھیں: سعودی عرب کے معمار اول ... شاہ عبدالعزیز آل سعود رحمہ اللہ
لیکن اس کے باوجود ولی عہد کے دورے کے دوران پاکستان میں تاریخ کی سب سے بڑی سعودی
سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا جس میں گوادر میں ۲۰ ارب ڈالرز کی آئل
ریفائنری اور ۱۰ ارب ڈالرز کے پیٹروکیمیکل
کمپلیکس، کان کنی اور قابلِ تجدید توانائی کے منصوبے شامل تھے۔
یہ وہ حقائق ہیں جو پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی گہرائی کا پتہ دیتے ہیں
لیکن رواں سال میں جب بھارت کی جانب سے کشمیر کی متنازع حیثیت کو ختم کیا گیا تو پاکستان
میں موجود ایک بڑی تعداد اس موقع پر سعودی عرب کی تمام خدمات بھلا کر سعودی عرب کو
کوسنے لگ گئی۔ اس کے اثرات پاکستان کے اعلی ایوانوں میں بھی دکھائی دئیے لیکن جلد ہی
اس آگ کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کے دورہ سعودی عرب
کے بعد کنٹرول کرلیا گیا۔
کشمیر کے معاملے میں سیخ پاہوکر سعودی عرب کے خلاف محاذ لگانے سے پہلے ہمیں اپنی
بھی پالیسیوں پر غور کرنا چاہئے۔ ہمیں یہ تسلیم کرتے ہوئے کیوں جھجک محسوس ہوتی ہے
کہ ہم مسئلہ کشمیر پر ویسی سفارت کاری کر ہی نہیں سکے جیسی کرنی چاہئے تھی۔ اس کی بڑی
وجہ ہمارے موجودہ حکمران طبقے کی عدم دلچسپی ہے اور ہم اس کا سارا ملبہ سعودی عرب پر
ڈالنے کے لیے مصر ہیں۔
ترکی اور ایران متاثرین اگرچہ اس سے پہلے سعودی دسترخوان سے نوالے چنتے رہے ہیں
لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ترجیحات بدلتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اس لیے سعودی عرب کی خوبیاں
بھی اب انہیں خامیاں نظر آتی ہیں اور یہی خوبیاں وہ بزور و زبردستی ترک فرمانروا میں
ایڈجسٹ کرنے کی کوششوں میں ہیں لیکن تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے۔ تھوڑا عرصہ پہلے جب
یہاں میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے سعودی عرب اور ایران تنازع کھل کے دنیا کے سامنے
آیا اور ایرانی حکومت سعودی عرب کے پڑوس میں یمن کے حوثیوں کی حکومت کے خلاف بغاوت
میں مدد کرتی پائی گئی۔ ان دنوں دنیا پر اک نئی جنگ کے خطرات منڈلانے لگے‘ انہی دنوں
کی بات ہے پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کو دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کا خیال
آیا۔ اس سفر کی دلچسپ روئیداد جاوید چوہدری نے اپنے ایک کالم میں لکھی تھی جو آج
بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ جاوید چوہدری دلچسپ انداز میں سعودی فرمانروا شاہ سلمان
کی جانب سے والہانہ استقبال اور پاکستانی وفد کے اراکین کے ساتھ محبت کا اقرار کرتے
ہیں تو ساتھ ہی واپسی پر ایران کے دورے کی روئیدار بھی لکھتے ہیں اور اس بات کا اقرار
کیے بنا رہ نہیں سکے کہ پاکستانی وفد کو جو محبت اور اعتماد سعودی عرب کے فرمانروا
کی جانب سے ملا اس کا عشر عشیر بھی ایرانی حکومت نہیں فراہم کرسکی۔ اس سے اندازہ کیا
جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کس قدر مخلص ہے اور ایرانی حکومت کی نیت بھی پرکھی جاسکتی
ہے۔
یہ پڑھیں: مملکۃ التوحید والامن
حالیہ دنوں متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیے گئے
تو ہمارے یہاں ارطغرلوں کی اکثریت سعودی عرب کو بھی اسی بلاک میں جاتا دیکھنے لگی۔
لیکن وہ تو بھلا ہو سعودی فرمانروا کا کہ جنہوں نے دو ٹوک ان قیاس آرائیوں کی نفی
کی اور فلسطینیوں کے حقوق اور ان کی سرزمین کی واپسی کے لیے آواز بلند کی۔ ایسی قیاس
آرائیاں فقط اک خاص مخاصمت والا ماحول پیدا کرنے کے لیے کی جاتی ہیں جن کا ادراک پاکستان
کے غیور عوام رکھتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment