سعودی عرب کو قومی دن مبارک ہو
تحریر: جناب مولانا
عبدالرحمن ثاقب (سکھر)
سعودی عرب دنیا میں وہ خطہ ہے جہاں پر عالم اسلام کے دو عظیم شہر واقع ہیں۔ ایک
بلد الامین مکہ مکرمہ جو کہ ہمارے نبی حضرت محمدe کا مولد و منشاء اور مہبط وحی ہے۔ دوسرا شہر مدینہ منورہ
جو کہ رسول اکرمe کی
ہجرت گاہ اور آپ کا مدفن ہے۔ ان دونوں شہروں کے نام ذہن میں آتے ہی مسلمان خوشی سے
سرشار ہوجاتا ہے۔ اس کے دل میں اس سرزمین کی طرف جانے کا خیال آنے لگتا ہے اور ان
کے تصور میں ہی خوشی سے نہاں ہوجاتا ہے۔ یہ شہر اہل ایمان کی محبتوں کے محور اور مرکز
ہیں‘ کوئی بھی صاحب ایمان ان شہروں کی محبت سے خالی نہیں۔
یہ پڑھیں: سعودی عرب کے معمار اول ... شاہ عبدالعزیز آل سعود رحمہ اللہ
مکہ میں جنت کا پتھر حجر اسود ہے تو مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کا حصہ جنت ہے۔
عالم اسلام کی اس عظیم مملکت کی بنیاد ۲۳ ستمبر ۱۹۳۲ء کو شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن السعودa نے رکھی تھی۔ ۸۷ ہزار مربع میل پر
پھیلے ہوئے اس خطے میں جو کہ براعظم ایشیا‘ یورپ اور افریقہ کے سنگم پر واقع ہے ایک
جدید اسلامی اور مثالی مملکت قائم کی گئی۔ جس کی تعمیر قرآن وسنت سے رہنمائی لے کر
ملک کو استحکام‘ خوشحالی‘ تحفظ اور امن و امان کا گہوارہ بنا کر پائیدار مسلم معاشرے
کے طور پر اقوام عالم میں عزت و وقار سے روشناس کروایا گیا۔
دنیا میں یہ واحد ملک ہے جس کا دستور قرآن وسنت ہے اور سعودی حکمرانوں کا مقصد
نظام اسلام کا قیام اور توحید و سنت کا غلبہ ہے۔
سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں امت مسلمہ کا دل کھول کر تعاون کیا‘ امت کی پریشانی
کو اپنی پریشانی سمجھ کر حل کرنے کی کوشش کی۔ سعودی عرب کے حکمرانوں نے ہمیشہ پاکستان
کو اپنا برادر اسلامی ملک سمجھا اور ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ نبھایا۔ پاکستان
کی سالمیت کو سعودی سالمیت قرار دیا۔ جب پاکستان ایک سانحہ سے دولخت ہوگیا تو اس وقت
پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دینے والا عظیم حکمران شاہ فیصل شہید پاکستان کے دولخت
(سقوط ڈھاکہ کے وقت) ہونے پر جس طرح سے دھاڑیں مار مار کر رویا تھا شاید کہ اس طرح
سے کوئی پاکستان کا ذمہ دار حکمران یا سیاستدان رویا ہو۔ مرحوم سعودی شاہ کی یہ دل
گرفتگی اور گریہ زاری پاکستان سے تعلق خاطر اور جذباتی وابستگی کی اس پرعظمت داستان
کی گواہی ہے کہ فضائے بسیط میں وسیع اور تاباں خود خادم الحرمین شریفین شاہ سلمانd دیکھ
رہے ہیں جس کی علمی شہادت پاکستان میں سعودی سفیر اپنے تحرک اور پاکستانیوں سے اپنے
لگاؤ کی صورت میں پیش کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان اور پاکستانیوں کا کوئی مسئلہ ہو سعودی
عرب کے حکمران اور عوام سب سے آگے ہوتے ہیں۔ وہ ہمارے معاشی حالات یا ملک و قوم کے
استحکام اور بقا کا مرحلہ ہو یا دفاعی ضروریات کا مسئلہ ہو یا آفات ارضی و سماوی کا
مسئلہ ہو تمام تر نشیب و فراز کے مراحل و مواقع
پر سعودی پاکستان کے ساتھ وفادار بھائی کی طرح سے کھڑا نظر آتا ہے۔ سیاچن کے
کٹھن مراحل سے لے کر ایٹم بم اور ایف ۱۶ طیاروں کی خریداری‘
۲۰۰۸ء کا تباہ کن زلزلہ یا ۲۰۱۰ء کا قیامت خیز سیلاب یا افغان مہاجرین
کا بوجھ اور ایٹمی دھماکے کی وجہ سے لگنے والی عالمی پابندیاں‘ وہ کون سا موقع اور
لمحہ ہے جب ساری دنیا میں سب سے پہلے اور آگے بڑھ کر سعودی حکمرانوں اور اس کے محب
و مخلص عوام نے ہمیں اپنے گلے نہیں لگایا۔ جریدہ عالم پر پاک سعودیہ دوستی بڑی گہری
اور نمایاں ہے۔ حقیقت میں یہ دوستی دونوں ملکوں کے عوام و خواص کو ’’یک جان دوقالب‘‘
کرچکی ہے۔
سعودی حکومت کے اہم کارنامے
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کا قیام
یہ پڑھیں: پاک سعودی تعلقات
آل سعود نے دین اسلام کی خدمت کے لیے اپنے ملک کے خزانوں کے منہ کھول رکھے ہیں۔
قرآن وسنت کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے ۱۹۶۱ء میں ایک شاہی فرمان کے ذریعہ سے مدینۃ الرسول میں ایک عالمی یونیورسٹی بنام
’’ جامعۃ الاسلامیۃ‘‘ بنانے کا اعلان کیا اس عظیم جامعہ اسلامیہ میں اکناف عالم میں
رہنے والے اہل اسلام کو تعلیم حاصل کرنے کی دعوت دی اور دنیا بھر سے چن چن کر وقت کے
بڑے بڑے مشائخ عظام کو تدریس کے لیے متعین کیا جن میں وقت کے محدثین بھی شامل تھے مثلا
محدث العصر علامہ ناصر الدین البانیa حافظ
محمد محدث گوندلویa و
دیگر۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ۸۵ فی صد غیر ملکی
طلبہ کو داخلہ دیا جاتا ہے‘ ان کی مکمل کفالت کرنے کے ساتھ ساتھ عمدہ رہائش‘ وظیفہ
اور ہر روز شام کے وقت طلبہ کو مسجد نبوی میں لے جانے اور واپس لانے کے لیے ٹرانسپورٹ
کا انتظام بھی کیا گیا۔ تا کہ طالبان علوم نبوت مسجد نبوی کے نورانی ماحول میں درس
قرآن اور درس حدیث کی منعقد ہونیوالی مجالس سے بھرپور مستفید ہوسکیں۔ سعودی حکومت
جامعہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو ہر ممکن سہولت فراہم کرتی ہے حتی کہ
ان کے سفر کے لیے ایئر ٹکٹوں کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ پھر اس عالمی دانش گاہ سے
بڑے بڑے علماء‘ مشائخ‘ خطباء‘ مدرسین‘ معلمین اور دعاۃ فراغت حاصل کرکے نکلے جنہوں
نے اپنے اپنے علاقوں اور ملکوں میں جا کر نور توحید و سنت کو عام کرنے میں کوئی کسر
نہیں اٹھا رکھی۔
مساجد کی تعمیر اور ان کا اہتمام
:
حکومت سعودیہ نے اسلام کی دعوت کو عام کرنے کی غرض سے اہم ذریعہ مساجد کو بنایا
ہے۔ سعودی حکومت اور پرائیویٹ اداروں کی طرف سے پوری دنیا میں بے شمار مساجد و دینی
مراکز تعمیر کیے گئے۔ ان میں علماء و مدرسین کا تقرر کیا گیا کیونکہ مساجد اسلام کا
محور و مرکز ہوتی ہیں۔ مسجد امت مسلمہ کے لیے وہ مدرسہ اور اسکول ہوتا ہے جہاں سے مسلمان
طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ انہی مساجد و مراکز کے ذریعہ سے بہت سے لوگوں کے عقائد و
اعمال کی درستگی ہوتی ہے‘ مساجد و دینی مراکز ہی اسلامی تعلیمات کو پھیلانے اور عام
کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
یہ پڑھیں: پاک سعودی تعلقات کا تاریخی جائزہ
شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس
قرآن مجید اللہ تعالی کی مضبوط رسی اور سیدھا راستہ ہے جو کہ ہدایات ربانی ہے۔
وہ دراصل خالق کون و مکاں کی طرف سے انسانیت کے لیے واضح عربی میں خطاب ہے جس کے پہنچانے
کا حکم اس خالق نے دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت نے قرآن مجید اور اس کی تعلیمات
کو عام کرنے کا خاص اہتمام کیا ہے۔ خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیزa نے
قرآن کی طباعت اور تقسیم کے لیے ’’شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس‘‘ قائم کیا۔
آپ نے مدینہ منورہ میں تبوک روڈ پر ۱۶ محرم ۱۴۰۳ھ بمطابق ۲ نومبر ۱۹۸۲ء اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس کمپلیکس کا رقبہ ۰۰۰‘۵۰‘۲ مربع میٹر ہے اور
یہ کمپلیکس فن تعمیر کا ایک دلکش اور خوبصورت نمونہ ہے۔ اس پرنٹنگ کمپلیکس میں اعلی
معیاری اور غلطیوں سے پاک قرآن مجید کے نسخے طبع کیے جاتے ہیں۔ قیام سے لے کر اب تک
اس کمپلیکس سے مختلف انواع و سائز کے تقریباً بیس کروڑ نسخے شائع ہوچکے ہیں اور دنیا
کے تقریباً ۸۰ ممالک کے لوگ یہاں
سے طبع ہونے والے قرآن مجید کے نسخوں سے مستفید ہوچکے ہیں۔ یہ کمپلیکس اب تک چالیس
زبانوں میں ترجمہ و تفاسیر طبع و تقسیم کرچکا ہے۔ شاہ فہدa نے قرآن مجید کو گھر گھر تک پہنچانے اور اس کی تعلیمات
کو عام کرنے کے لیے دنیا کی مختلف زندہ زبانوں میں اس کے ترجمہ و تفاسیر اور اس کی
توزیع و تقسیم کرکے جو عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے وہ ان شاء اللہ قیامت تک یاد رکھا
جائے گا اور ان کی حسنات کے میزان میں بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا۔
مجمع خادم الحرمین الشریفین الملک سلمان بن عبدالعزیز آل سعود للحدیث النبوی
گذشتہ سال ماہ اکتوبر میں سعودی فرمانروا خادم الحرمین الشریفین ملک سلمان بن عبدالعزیزd نے
اپنے ایک حکومتی فرمان کے ذریعہ سے ’’مجمع خادم الحرمین الشریفین الملک سلمان بن عبدالعزیز
آل سعود للحدیث النبوی‘‘ یعنی خدمت حدیث کے لیے ایک مستقل کمپلیکس قائم کرنے کا حکم
جاری کیا۔ جس کی علمی کمیٹی دنیا بھر سے چیدہ چیدہ جید علماء حدیث پر مشتمل ہوگی۔ اس
کے رئیس سعودی ’’ھیئۃ کبار العلماء‘‘ کے رکن اور امام مجدد الدعوہ الشیخ محمد بن عبدالوہاب
رحمہ اللہ کے خاندان کے چشم وچراغ شیخ محمد بن حسن d ہوں گے۔ قرآن کمپلیکس کی طرح سے حدیث کمپلیکس کے لیے
بھی مدینۃ الرسول کو منتخب کیا گیا ہے۔ خدمت حدیث کے لیے شاہ سلمان بن عبدالعزیز سلمہ
اللہ کا یہ عالم اسلام میں سب سے بڑا منصوبہ ’’اشاعت حدیث کا بہت بڑا منصوبہ‘‘ اشاعت
حدیث کا بہت بڑا ذریعہ اور منکرین حدیث کا منہ توڑ جواب بھی ہو گا۔ ان شاء اللہ۔ امید
واثق ہے کہ جس طرح سے قرآن کمپلیکس کے توسط سے اقوام عالم میں قرآن کریم فری تقسیم
کیا گیا بعینہٖ کتب حدیث کو بھی اسی طرح سے بڑے پیمانے پر مفت تقسیم کیا جائے گا۔ اہل
اسلام اور باالخصوص حاملین کتاب و سنت کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ مملکت توحید اور اس کے
محب اسلام حکمرانوں باالخصوص شاہ سلمان بن عبدالعزیزd کو اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھیں تا کہ یہ خاندان
حسب روایت اسلام اور حرمین شریفین کی خدمت کرتا رہے اور اہل ایمان ان کی خدمات سے مستفید
ہوتے رہیں۔
یہ پڑھیں: سعودی عرب کا قومی دن اور تحفظ حرمین
خدمت حرمین شریفین :
بڑے عظیم لوگ ہیں جو دن رات ان دونوں مقدس مقامات یعنی حرم مکی اور حرم مدنی کی
خدمت و نگبہانی کرتے ہیں اور ان کی توسیع‘ طہارت و نظافت اور ضیوف الرحمن کی خدمت میں
دن رات کوشاں رہتے ہیں۔
حرمین شریفین کی زیارت کرنے والے حجاج کرام جو دنیا کے کونے کونے سے حاضر ہوتے
ہیں وہ جب ان مقدس و متبرک شہروں میں جاتے ہیں اور حرمین کی توسیع اور اس کی خوبصورتی
کو دیکھتے ہیں تو بے اختیار آل سعود یعنی خادمین حرمین شریفین کی تعریف کرنے پر مجبور
ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے محنت‘ لگن اور محبت سے کس طرح ان کو خوبصورت بنانے کی سعی و
کوشش کی ہے۔ آج یہ عمارت اپنے وسیع رقبے‘ خوبصورت ڈیزائن اور مناسب سہولتوں کے سبب
زیارت کرنے والوں کو متأثر کرتی ہیں۔
خادمین حرمین شریفین نے ان دونوں مقامات کی زیارت کرنے والوں کے لیے بنیادی سہولتیں
اور ان کے مکمل تحفظ کا خیال رکھا ہے۔ تاکہ ضیوف الرحمن حجاج کرام اور معتمرین کو کسی
قسم کی پریشانی نہ ہو بلکہ حجاج کرام مناسک حج ادا کرنے کے لیے جن مقامات مثلا منی‘
عرفات‘ مزدلفہ جاتے ہیں وہاں بھی ان کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے اور ہر ممکن سہولت فراہم
کی جاتی ہے۔
سعودی فرماں روا حرمین شریفین کی کھلے دل کے ساتھ خدمت کرکے واقعی خادم الحرمین
الشریفین کہلانے کے حق دار ہیں اور اس پر انہیں فخر ہے اور ہونا بھی چاہیے۔
دعاۃ و معلمین کا تقرر :
دعوت دین اور اسلامی عقیدہ کی اشاعت ہر مسلمان پر فرض ہے‘ مسلمان کو جس قدر بھی
اسلامی تعلیمات ہوں انہیں پھیلانے اور عام کرنے کا شرعی حکم ہے۔ انسانوں کی اس ضرورت
کو پورا کرنے کے لیے سعودی حکومت نے مستقل بنیادوں پر مختلف ممالک کے مراکز اسلامی
اور مساجد میں دعوت دین کا کام کرنے اور تعلیم دینے کے لیے دعاۃ و معلمین کو مبعوث
کیا ہے جن کی تعداد کئی ہزار ہے۔ ان کی سرپرستی سعودی حکومت اور سعودی خیراتی ادارے
کرتے ہیں۔ یہ مبلغین و معلمین خالص توحید اور قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح عقیدہ
کی دعوت دیتے ہیں۔ علوم قرآنی اور علوم حدیث کو ہی بنیاد بناتے ہیں جس کی وجہ سے بڑی
تعداد میں لوگوں نے اپنے عقائد کی اصلاح کی اور بہت سے لوگ ان کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام
ہوئے۔ یہ مبلغین‘ دعاۃ اور معلمین اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ عربی زبان
کو عام کرنے پر بھی توجہ دیتے ہیں۔
یہ پڑھیں: حرمین شریفین (نظم)
خدمت انسانیت :
سعودی حکومت جہاں بھی اور کسی بھی صورت میں عام انسانوں یا مسلمانوں کو مصائب و
آلام میں مبتلا پاتی ہے تو وہ ان کی مدد کے لیے وہاں پہنچ جاتی ہے۔ یہ امر کسی سے
بھی مخفی اور پوشیدہ نہیں کہ سعودی حکومت باہمی ہمدردی‘ شفقت و محبت اور دوستی کے اصولوں
کو مدنظر رکھتے ہوئے مظلوم انسانوں کی مدد کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے غذائی‘ ادویاتی
اور نقد مالی اعانت جاری رکھتی ہے۔ دنیا میں جہاں بھی اور جب بھی طوفانوں‘ زلزلوں‘
بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے نقصان ہوا سعودی حکومت فوری طور پر ان نقصانات کا ازالہ
کرتے ہوئے نظر آئی۔ سعودیہ عربیہ کی طرف سے رابطہ عالم اسلامی اور ھیئۃ الاغاثۃ الاسلامیۃ
وغیرہ آگے آگے نظر آئی ہیں۔
آل سعود کی حقیقی کامیابی :
آل سعود کی حقیقی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے اسلام بطور دین اپنایا ہوا ہے۔ قرآن
و سنت کو اپنا دستور بنا رکھا ہے۔ وہ علم (جھنڈا) جو کلمہ طیبہ سے مزین ہے اس کو کبھی
سرنگوں نہیں ہونے دیا‘ اس لیے حکومت کو کبھی بھی اپنے عوام کے سامنے شرمسار نہیں ہونا
پڑا۔
عقیدت و محبت کے مرکز و محور اور پاکستان کے محسن و مخلص ملک سعودی عرب کا ۹۰ واں ’’الیوم الوطنی‘‘
(قومی دن) ہے تو اہل سعودیہ کی طرح اہل پاکستان بھی نہایت شاداں و فرحاں ہیں‘ ان کے
دل بھی اپنے سعودی بھائیوں کی طرح معطر و منور ہورہے ہیں۔ ہر کسی کے جذبات ہیں کہ ہماری
جانیں تک اس مقدس سرزمین پر قربان‘ ہم اپنے لہو سے وہاں کے چراغوں کو روشن رکھیں گے۔
ان شاء اللہ!
یہ پڑھیں: 23 ستمبر ... سعودی عرب کا قومی دن
اس مبارک موقع پر ہم آل سعود‘ خادم حرمین شریفین جناب شاہ سلمان بن عبدالعزیز
d‘ جناب شہزادہ محمد
بن سلمان بن عبدالعزیزd و
دیگر اعیان مملکت کو ان کے قومی دن (الیوم الوطنی) پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک
باد پیش کرتے ہیں اور بارگاہِ رب العالمین مین دست بدعا ہیں کہ اللہ ان کی زندگیوں
میں برکت عطاء فرمائے تا کہ یہ خاندان حرمین شریفین اور سعودی عوام کی مزید خدمت کرتا
رہے۔
No comments:
Post a Comment