ایک ہوں
مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے!
اس حقیقت سے
انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عالمی استعماری طاقتیں مسلمانوں کو مختلف مسائل ومشکلات
میں ڈال کر اور ان میں تفرقہ پیدا کر کے خود ان کو اپنا دست نگر بنانا چاہتی ہیں۔
بہت سی مسلمان مملکتیں جو بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال‘ انہیں افرادی قوت اور
ہنر مند افراد بھی حاصل ہیں مگر وہ اپنے وسائل کو کما حقہ استعمال کرنے کا اختیار
نہیں رکھتیں۔ افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کی ساٹھ سے زیادہ مملکتیں
ہیں مگر وہ آپس میں متحد نہیں۔ ان کی سوچ اور فکر مختلف اور کامیابی کے پیمانے
مختلف ہیں۔ اس کے برعکس [الکفر ملّة واحدة ] ہے۔ آج دنیا میں
مسلمانوں کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہے مگر بین الاقوامی طور پر انہیں کوئی وقعت
حاصل نہیں۔ اس کی وجہ آپس میں اتحاد کا فقدان ہے۔
یہ پڑھیں: مدیر اعلیٰ ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ چل بسے
بلاشبہ اس وقت
مسلمان جس کٹھن دور سے گزر رہے ہیں وہ گزشتہ دو تین سو سالہ دور سے بھی زیادہ جاں
گسل ہے۔ پہلے تو وہ سیاسی واقتصادی طور پر پریشان تھے اب تو مسلمانوں سے جینے کا
حق بھی چھینا جا رہا ہے۔ فلسطین میں مسلمانوں کی نیل کشی کی جا رہی ہے۔ اسی طرح
مقبوضہ کشمیر میں مسلمان موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ بچے یتیم ہو رہے ہیں۔
دوشیزاؤں کے سہاگ لٹ رہے ہیں۔ بہو بیٹیوں کی عصمتوں کے آبگینے چکنا چور ہو رہے ہیں۔
برما‘ فلپائن اور اریٹیریا کے مسلمان بڑے مقہور ومجبور ہیں۔ آہ ان بے بس مسلمانوں
کی آہیں اور سسکیاں کب تک بے اثر رہیں گی؟ ان کی مصائب وآلام کا مداوا کب ہو گا؟
عراق‘ مصر‘ شام اور لیبیا میں کتنے مسلمان موت کی وادی میں چلے گئے۔ ظالم وجابر
لوگ تاریخ کو فراموش نہ کریں کہ جبر وتشدد کی بنیاد پر قائم کوئی نظام زیادہ دیر
تک نہیں چل سکتا۔ روس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس کے ظلم وستم کے خاتمہ سے کتنی ریاستیں
آزادی سے ہمکنار ہوئیں۔ آج برہمنی سامراج اس لیے پریشان ہے اور مقبوضہ کشمیر پر
بہرصورت اپنا اقتدار قائم رکھنا چاہتا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ کشمیر کی آزادی
کے بعد بھارت کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں
جب مقبوضہ کشمیر سے ظلم کی شب ختم اور آزادی کی صبح طلوع ہو کر رہے گی۔
یہ بات یاد
رکھنے کے قابل ہے کہ امریکہ اور یورپ کی خوشحالی کا دار ومدار اس بات پر ہے کہ ایشیا
اور افریقہ میں بھاری صنعتیں قائم نہ ہونے پائیں اور وہ خام مال کے عوض اپنی
مصنوعات یورپ سے منگواتے رہیں۔ اگر ان ممالک میں بھی کسی طرح کاریں‘ انجن‘ ٹینک
اور طیارے بننے شروع ہو جائیں تو یورپ کی معیشت چند سال میں تہہ وبالا ہو کر رہ
جائے اور ان کے اپنے کارخانے بند ہو جائیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری متمول
ریاستیں اپنی دولت بڑی بڑی عمارتوں‘ ہوٹلوں اور محلات پر خرچ کر رہی ہیں اور سٹیل
ملوں اور اسلحہ ساز فیکٹریوں کی طرف ان کی توجہ نہیں ہے۔
یہ پڑھیں: سعودی عرب کا قومی دن
اس حقیقت سے
انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یورپ اور امریکہ خرمن اسلام سے اٹھنے والی چنگاریوں سے
بھی خائف ہیں اور وہ اسلام دشمنی میں اس قدر آگے جا چکے ہیں کہ ان سے کسی خیر کی
توقع نہیں کی جا سکتی۔ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں جو کتاب وسنت کی تعلیم دینے میں
اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ استعماری طاقتوں کو یہ بھی پسند نہیں۔ آخر میں یہ تلخ حقیقت
تسلیم کیے بغیر چارا نہیں کہ پورا کفر‘ اسلام کے خلاف متحد ہے۔ اس سے نبرد آزما
ہونے کے لیے ہمارے پاس وہی نسخہ کیمیا ہے جسے قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا
ہے:
{وَلَا
تَہِِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ٭}
اس مقام پر یہ
بھی ضروری ہے کہ
ایک ہوں مسلم
حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے
لے کر تا بخاک کاشغر