ماہِ صفر ... ایک تحقیقی جائزہ
تحریر: جناب مولانا
عادل سہیل
ماہِ صفر، اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے۔ اللہ اور
رسول اللہe کی طرف سے اِس
مہینے کی نہ کوئی فضلیت بیان کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات جِس کی وجہ سے اِس
مہینے میں کِسی بھی حلال اور جائز کام کو کرنے سے رُکا جائے۔ جو مہینے فضلیت اور حُرمت
والے ہیں اُن کے بارے میں رسول اللہe نے فرمایا:
’’سا ل اپنی اُسی
حالت میں پلٹ گیا ہے جِس میں اُس دِن تھا جب اللہ نے زمین اور آسمان بنائے تھے،
سال بار ہ مہینے کا ہے جِن میں سے چار حُرمت والے ہیں، تین ایک ساتھ ہیں، ذی
القعدہ، ذی الحج، اور مُحرم اور مُضر والا رجب جو جمادی اور شعبا ن کے درمیان
ہے۔‘‘ (بخاری: ۷۹۱۳)
یہ پڑھیں: اسلام کا نظریۂ اجماع
دو جہانوں کے سردار ہمارے محبوب مُحمدe نے سال کے بارہ مہینوں میں سے چار
کے بارے میں یہ بتایا کہ وہ چار مہینے حُرمت والے ہیں یعنی اُن چار مہینوں میں
لڑائی اور قتال نہیں کرنا چاہیے، اِس کے عِلاوہ کِسی بھی اور ماہ کی کوئی اور خصوصیت
بیان نہیں ہوئی‘ نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور نہ رسول اللہe کی طرف سے!!!!
حیرانگی کی بات ہے کہ اللہ اور رسول اللہe کی طرف سے کوئی خبر نہ ہونے کے
باوجود کچھ مہینوں کو با برکت مانا جاتا ہے اور من گھڑت رسموں اور عِبادت کے لیے
خاص کیا جاتا ہے۔ کُچھ کے بارے میں یہ خیال کِیا جاتا کہ اُن میں کوئی خوشی والا
کام، کاروبار کا آغاز، رشتہ، شادی بیاہ، یا سفر وغیرہ نہیں کرنا چاہیے، حیرانگی
اِس بات کی نہیں کہ ایسے خیالات کہاں سے آئے، بلکہ حیرانگی اِس بات کی ہے کہ جو
باتیں اور عقیدے کِسی ثبوت اور سچی دلیل کے بغیر کانوں، دِلوں اور دِماغوں میں
ڈالے جاتے ہیں اُنہیں تو فوراً قبول کر لِیا جاتا ہے لیکن جو بات اللہ اور رسول
اللہe کی طرف سے بتائی
جاتی ہے اور پوری تحقیق کے ساتھ سچے اور ثابت شُدہ حوالہ جات کے ساتھ بتائی جاتی
ہے اُسے مانتے ہوئے طرح طرح کے حیلے بہانے، منطق و فلسفہ، دِل و عقل کی کسوٹیاں
اِستعمال کر کے راہ فرار تلاش کرنے کی بھر پُور کوشش کی جاتی ہے اور کچھ اِس طرح
کہا اور لکھا جاتا ہے کہ
اجی یہ بات دِل کو بھاتی نہیں ... کچھ ایسا ہے کہ عقل میں آتی نہیں!
افسوس اُمتِ مُسلّمہ روایات میں کھو گئی
مُسلّم تھی جو بات خُرافات میں کھو گئی
اِن ہی خُرافات میں سے ماہ ِ صفر کو منحوس جاننا ہے۔
پہلے تو یہ سُن لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے کِسی چیز کو منحوس نہیں بنایا، ہاں یہ
اللہ تعالیٰ کی مرضی اور حِکمت ہے کہ وہ کِس چیزمیں کِس کے لیے بر کت دے اور کِس
کے لیے نہ دے، آئیے اللہ کے رسولe کا ایک فرمان
آپ کو سُناؤں، جو ہمارے اِس موضوع کے لیے فیصلہ کن ہے۔
سیدنا عبداللہ ابن عمرw سے روایت ہے کہ
رسول اللہe کے سامنے نحوست
کا ذِکر کِیا گیا تو فرمایا:
’’ اگر
نحوست(کِسی چیز میں) ہوتی تو اِن تین میں ہوتی: عورت، گھر اور گھوڑا ۔‘‘ (مسلم: ۲۲۲۵)
یہ پڑھیں: ضعیف اور موضوع احادیث
رسول اللہe کا یہ فرمانا
کہ (اگر نحوست کِسی چیز میں ہوتی) صاف بیان فرماتا ہے کہ کوئی چیز منحوس نہیں ہوتی۔
یہ بات بھی ہر کوئی سمجھتا ہے کہ جب ’’کوئی چیز‘‘ کہا جائے گا تو اُس میں مادی و غیر
مادی ہر چیز شامل ہو گی یعنی وقت اور اُس کے پیمانے بھی شامل ہوں گے، لہٰذا رسول
اللہe کے اِس فرمان
مُبارک سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ نحوست کِسی چیز کا ذاتی جُز نہیں ہوتی،
اللہ تعالیٰ جِس چیز کو جِس کے لیے چاہے برکت والا بنائے اور جِس کے لیے چاہے بے
برکتی والا بنائے، یہ سب اللہ کی حکمت اور مشیت سے ہوتا ہے‘ نہ کہ کِسی بھی چیز کی
اپنی صفت سے۔ دیکھ لیجیے کوئی دو شخص جو ایک ہی مرض کا شِکار ہوں ایک ہی دوا
اِستعمال کرتے ہیں‘ ایک کو شِفاء ہو جاتی ہے اور دوسرے کو اُسی دوا سے کوئی آرام
نہیں آتا بلکہ بسا اوقات مرض بڑھ جاتا ہے۔ کئی لوگ ایک ہی جگہ میں ایک ہی جیسا
کاروبار کرتے ہیں کِسی کو فائدہ ہوتا ہے کِسی کو نُقصان اور کوئی درمیانی حالت میں
رہتا ہے۔ کئی لوگ ایک ہی جیسی سواری اِستعمال کرتے ہیں‘ کِسی کا سفر خیر و عافیت
سے تمام ہوتا ہے اور کِسی کا نہیں، اِسی طرح ہر ایک چیز کا معاملہ ہے۔
یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سے ذہن نشین کرنے کی ہے کہ برکت اور اضافے میں بہت
فرق ہوتا ہے، کِسی کے لیے کِسی چیز میں اضافہ ہونا یا کِسی کے پاس کِسی چیز کا زیادہ
ہونا اِس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ اُسے برکت دی گئی ہے، عموماً دیکھنے میں آتا
ہے کہ کافروں اور بدکاروں کو مسلمانوں اور نیک لوگوں کی نسبت مال ودولت، اولاد،
حکومت اور دُنیاوی طاقت وغیرہ زیادہ ملتی ہے، تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اُنہیں
برکت دی گئی ہے، بلکہ یہ اللہ کی طرف سے اُن پر آخرت کا مزید عذاب تیار کرنے کا
سامان ہوتا ہے، کہ لو اور خُوب آخرت کا عذاب کماؤ، یہ ہمارا اِس وقت کا موضوع نہیں
لہٰذا اِس کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جا رہی۔
بات صفر کے مہینے کی ہو رہی تھی کہ نہ تو اِس کی کوئی فضلیت قُران و سُنّت میں
ملتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات جِس کی وجہ سے اِس مہینے کو بے برکت یا بُرا
سمجھا جائے، جی ہاں، اِسلام سے پہلے عرب کے کافر اِس مہینے کومنحوس اور باعثِ
نُقصان سمجھتے تھے، اور یہ سمجھتے تھے کہ صفر ایک کیڑا یا سانپ ہے جو پیٹ میں ہوتا
ہے اور جِس کے پیٹ میں ہوتا ہے اُس کو قتل کر دیتا ہے اور دوسروں کے پیٹ میں بھی
مُنتقل ہو جاتا ہے، یعنی چُھوت کی بیماری کی طرح اِس کے جراثیم مُنتقل ہوتے ہیں‘
اِسی لیے اپنے طور پر ایک سال چھوڑ کر ایک سال میں اِس مہینے کو محرم سے تبدیل کر
لیتے اورمحرم کی حُرمت اِس پر لاگو کرتے کہ شایدحُرمت کی وجہ سے صفر کی نحوست کم یا
ختم ہو جائے۔ دوسرا سبب یہ ہوتا کہ محرم کی حُرمت صفرپر لاگو کرکے محرم کو دوسرے
عام مہینوں کی طرح قرار دے کر اُس میں وہ تمام کام کرتے جو حُرمت کی بنا پر ممنوع
ہوتے۔
یہ پڑھیں: رفع سبابہ ... مقام، کیفیت واہمیت
لیکن رسول اللہe نے مندرجہ بالا
اِن سب اور اِن جیسے دوسرے عقیدوں کو غلط قرار دیا۔
سیدنا ابو ہُریرہt سے روایت ہے کہ
رسول اللہe نے فرمایا:
’’نہ (کوئی)
چُھوت (کی بیماری)ہے، نہ ھامہ ہے، نہ پرندوں (یا کِسی بھی چیز)سے شگون لینا (کوئی
حقیقت رکھتا) ہے، نہ صفر (کوئی بیماری یا نحوست والا مہنیہ ہے اور نہ اِس کی کِسی
اور مہینہ کے ساتھ تبدیلی)ہے۔‘‘ (مُسلم: ۲۲۲۰)
الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ یہ حدیث دیگر صحابہ سے بھی روایت کی گئی ہے اور تقریباً
حدیث کی ہر کتاب میں موجود ہے، میں نے حوالے کے لیے صِرف صحیح البُخاری اور صحیح
مُسلم پر اِکتفاء کِیا ہے کہ اِن کے حوالے کے بعد کِسی اور حوالے کی ضرورت نہیں
رہتی، اور قوسین () کے درمیان جو الفاظ لکھے گئے ہیں وہ رسول اللہe کے نہیں لیکن
سب کے سب اِن احادیث کی شرح سے اور جِن کتابوں کا حدیث کے ساتھ حوالہ دِیا گیا ہے
اُن میں سے لیئے گئے ہیں اپنی طرف سے نہیں لکھے گئے۔
عرب صفر کے مہینے کے بار ے میں منحوس ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے، افسوس کہ اِسی
قِسم کے خیالات آج بھی مُسلمانوں میں پائے جاتے ہیں اور وہ اپنے کئی کام اِس مہینے
میں نہیں کرتے، آپ نے دیکھا کہ رسول اللہe نے اِس مہینے کے بارے میں پائے
جانے والے ہر غلط عقیدے کو ایک حرف میں بند کر کے مُسترد فرما دِیا، سال کے دیگر
مہینوں کی طرح اِس مہینے کی تاریخ میں بھی ہمیں کئی اچھے کام ملتے ہیں، جو اللہ
تعالیٰ کی مشیئت سے اُس کے بندوں نے کیے، مثلاً،
\ ہجرت کے بعد
جہاد کی آیات اللہ تعالیٰ نے اِسی مہینے میں نازل فرمائیں، اور رسول اللہe نے اپنے رب کے
حُکم پر عمل کرتے ہوئے پہلا غزوہ اِسی مہینے میں کِیا، جِسے غزوہ الاَبواء بھی کہا
جاتا ہے اور ’’ودّان‘‘بھی۔
\ اِیمان والوں
کی والدہ مُحترمہ خدییجہ بنت الخولیدr سے رسول اللہe کی شادی مُبارک
اِسی مہینے میں ہوئی۔
\ خیبر کی فتح
اِسی مہینے میں ہوئی۔
یہ پڑھیں: مساجد ومدارس کا مقام
یہ سب جاننے کے بعد بھلا کون مُسلمان ایسا ہو گا جو اِس مہینے کو یا کِسی بھی
مہینے کو منحوس جانے اور کوئی نیک کام کرنے سے خود کو روکے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو
ہدایت دے اور اُس پر عمل کرتے ہوئے ہمارا خاتمہ فرمائے۔
ابھی جو حدیث نقل کی گئی اُس میں ’’ھامہ‘‘کا ذِکر تھا، بہت اختصار کے ساتھ اُس
کا معنی بیان کرتا چلوں، یہ بھی عربوں کے غلط جھوٹے عقائد میں سے ایک تھا، کہ جِسے
قتل کیا جاتا ہے اس کی روح اُلّو بن جاتی ہے اور اپنا انتقام لینے کے لیے رات کو
نکلتی ہے، اور جب تک اُس کا اِنتقام پورا نہیں ہوتا وہ اُلّو بن کر راتوں کو گھومتی
رہتی ہے۔ سانپوں کے بارے میں بھی ایسا ہی عقیدہ پایا جاتا تھا، کُچھ اور معاشروں میں
اِسی قِسم کا عقیدہ چمگادڑ وغیرہ کے بارے میں پایا جاتا ہے، عرب اپنے اِس باطل عقیدے
کی وجہ سے اُلّو کی آواز کو بھی منحوس جانتے اور اُس کو دیکھنا بھی بدشگونی
مانتے۔ سانپوں کے انتقام، چمگادڑوں اور اُلوؤں کے عجیب و غریب کاموں‘ قوتوں اور
اثرات کے بارے میں بے بُنیاد جھوٹے قصے آج بھی مروج ہیں اور اُسی طرح کے جھوٹے
عقائد بھی لوگوں کے دِلوں ودِماغوں میں گھر بنائے ہوئے ہیں۔
جبکہ رسول اللہe نے اِن تمام
عقائد کو باطل قرار دِیا ہے جیسا کہ ابھی بیان کِیا گیا۔ اللہ تعالیٰ اِن مختصر
معلومات کو پڑھنے والوں کی ہدایت کا سبب بنائے اور میری یہ کوشش قُبُول فرمائے۔
ماہِ صفر کی مخصوص عبادات
ہمارے ملک میں بعض علماء کا خیال ہے کہ صفر کے مہینہ کے آخری بدھ میں چاشت کے
وقت ایک سلام کے ساتھ چار رکعت نفل پڑھیں‘
ہر رکعت میں سترہ (۱۷) بار سورۃ فاتحہ
اور سورۃ الکوثر اور پچاس بار سورۃ الاخلاص (قل ہو اللہ احد) اور معوذتین (سورۃ
الفلق اور سورۃ الناس) ایک ایک بار پڑھیں، ہر رکعت میں ایسا ہی کریں اور سلام پھیری
جائے، جب سلام پھیری جائے تو تین سو ساٹھ (۳۶۰) بار
[اللہ غالب علی
أمرہ ولکن أکثر الناس لا یعلمون۔]
یہ پڑھیں: سر کے بال ... احکام ومسائل
اور تین بار جوہر کمال پڑھنا مشروع ہے، اور سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون،
وسلام علی المرسلین، والحمد للہ رب العالمین پڑھ کر ختم کی جائے، اور فقراء و مساکین
پر کچھ روٹی صدقہ کی جائے.اور اس آیت کی خاصیت یہ ہے کہ یہ صفر کے مہینہ کے آخری
بدھ کو پہنچنے والی تکلیف اور پریشانی کو دور کرتی ہے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ
ہر برس تین سو بیس تکلیفیں اور آزمائشیں اترتی ہیں، اور یہ ساری کی ساری ماہ
صفر کے آخری بدھ میں ہیں، تو اس طرح پورے سال میں یہ دن سب سے مشکل ترین دن ہوتا
ہے، اس لیے جو بھی اس مذکورہ کیفیت میں نماز ادا کرے گا اللہ تعالی اپنے فضل و کرم
سے اس دن میں نازل ہونے والی ساری تکلیفوں پریشانیوں اور آزمائشوں سے اس کی حفاظت
فرمائے گا، تو کیا یہی حل ہے؟
مذکور نوافل کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی اصل اور دلیل نہیں، ہمارے نزدیک تو
امت کے سلف صالحین میں سے کسی ایک سے بھی ثابت نہیں کہ اس پر کسی نے عمل کیا ہو،
بلکہ یہ بدعت اور منکرات میں سے ہے۔
نبی کریمe کا یہ فرمان
ثابت ہے کہ
’’جس کسی نے بھی
کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے دین میں نہیں تو وہ عمل مردود ہے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ
’’جس نے بھی
ہمارے اس دین میں کوئی نیا کام ایجاد کیا جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘
جس کسی نے بھی اس نماز اور اس کے ساتھ جو کچھ ذکر کیا گیا ہے کو نبیe یا
کسی صحابی کی طرف منسوب کیا تو اس نے بہت عظیم بہتان بازی کی، اور وہ اللہ تعالی کی
جانب سے جھوٹے اور کذاب لوگوں کی سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔ (دیکھیں: فتاوی اللجنۃ
الدائمۃ للبحوث العلمیہ والافتاء: ۲/۳۵۴)
یہ پڑھیں: ایک گواہ اور ایک قسم کے ساتھ فیصلہ
شیخ محمد عبد السلام الشقیری فرماتے ہیں:
’’جاہلوں کی
عادت بن چکی ہے کہ سلام والی آیات مثلا {سَلَامٌ عَلیٰ نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ} لکھ کر برتنوں میں رکھ کر ماہ صفر کے آخری بدھ کو پیتے
اور اس سے تبرک حاصل کرتے اور ایک دوسرے کو ہدیہ اور تحفہ بھی دیتے، کیونکہ ان کا
اعتقاد ہے کہ اس سے شر اور برائی جاتی رہتی ہے، یہ اعتقاد باطل‘ فاسد اور اس سے
نحوست پکڑنا مذموم، اور بہت ہی قبیح قسم کی بدعت ہے، جو شخص بھی کسی کو یہ عمل
کرتے ہوئے دیکھے اس سے روکنا واجب اور ضروری ہے۔‘‘ (دیکھیں: السنن والمبتدعات: ۱۱۱-۱۱۲)