تحفّظ
ناموسِ صحابہ]
وطن عزیز پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصہ سے تحفظ ناموس صحابہ] کے حوالے سے مختلف ادارے تنظیمیں اور جماعتیں بڑے بڑے جلوس نکال
رہی ہیں‘ جلسے ہو رہے ہیں اور سیمینارز منعقد کیے جا رہے ہیں۔ صحابہ کرام] ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیe
کے پاکباز ساتھی ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں کو اسلام اور پیغمبر اسلام u کی خدمت کے لیے وقف فرمایا‘ وہ مہاجرین ہوں یا انصار‘ وہ بنے
اسلام کے مددگار۔ قرآن پاک نے ان کے فضائل کا تذکرہ فرمایا ہے‘ ان کے تذکرے ان کے
آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تورات وانجیل میں بھی فرما دیئے۔ ارشاد ہے: ﴿ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی
التَّوْرَاةِ وَمَثَلُہُمْ فِی
الْاِنْجِیْلِ﴾ (الفتح)
یہ پڑھیں: ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
اسلام کی بنیادوں کی مضبوطی میں ان کے خون اور مال کام آئے‘ ان کے ایمان کو
معیار ایمان قرار دیا گیا۔ انہیں اللہ کی جماعت یعنی حزب اللہ کہا گیا۔ انہیں
اُخروی کامیابی کے سرٹیفکیٹ دیئے گئے‘ یہ بھی واضح فرمایا گیا کہ اللہ نے ان کے
دلوں کا امتحان لیا اور انہیں پرہیز گار ومتقی پایا۔
یہ بڑے بڑے مثالی جلوس کیوں نکالے گئے؟ ملک کے مختلف شہروں میں ان کی ضرورت کیوں
پیش آئی؟ ان کے اسباب ومحرکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ محرم الحرام یا اس سے
پہلے امن کمیٹیوں کے متعدد اجلاس ہوتے ہیں۔ ان میں بھائی چارے کی فضاء قائم رکھنے
کی ضرورت اور اہمیت بتائی جاتی ہے اور اس فضاء کو قائم رکھنے کے عزم کا ہر طرف سے
اظہار کیا جاتا ہے۔ لیکن مواعظ ومجالس کے ضوابط طے کرنے والے خود ان کی پابندی نہیں
کرتے۔
گذشتہ برسوں میں بھی اس حوالے سے کوتاہیاں ہوتی تھیں لیکن موجودہ حکومت کے
برسر اقتدار آنے کے بعد اور بالخصوص اس سال اس حوالے سے بڑی کوتاہی دیکھنے اور
سننے میں آئی ہے۔
سوشل میڈیائی آزادی کے دور میں کوئی کسی نشست میں کیا کہتا ہے اب اسے چھپانا
ممکن نہیں رہا۔ لہٰذا کمال احتیاط کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت صرف دنیا داری یا رکھ
رکھاؤ کے لیے نہیں بلکہ ان پاکباز ہستیوں کے متعلق نازیبا الفاظ کا استعمال انسان
کے ایمان کے لیے مضر ہے اور نجات اُخروی سے محرومی کا باعث بھی۔
تحفظ ناموس صحابہ] ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ صحابہ کرام]
کے ساتھ ساتھ اہل بیت عظام] کے مناقب اور فضائل پر یقین رکھنا بھی جزو ایمان ہے۔ اہل بیت میں
نمایاں درجہ رسول اکرمe کی ازواج مطہرات کا ہے جو مومنوں کی مائیں ہیں۔
یہ پڑھیں: تئیس ستمبر ... سعودی عرب کا قومی دن
تحفظ ناموس صحابہ] کے لیے علماء کرام کی قیادت میں اسلامیانِ پاکستان کا اکٹھ نہایت
خوش آئند ہے۔ کراچی میں دینی جماعتوں کے تین مثالی اجتماعات دیکھنے کو ملے‘ ان میں
سے ایک اجتماع اہل حدیث ایکشن کمیٹی کے اشتراک سے مرکزی جمعیت اہل حدیث کراچی نے
منعقد کیا جس سے صوبائی اور شہری امیر نے خطابات فرمائے۔
اسلام آباد میں دینی جماعتوں کی مقامی قیادت نے ایک مشترکہ اجتماع منعقد کرنے
کا فیصلہ کیا جس میں خطابات کے لیے مرکزی قائدین کو بھی مدعو کیا گیا۔ یہ اجتماع میں
بھی حاضری کے اعتبار سے اسلام کے تاریخی اجتماعات میں شمار کیا جائے گا۔
ازاں بعد ملتان میں بھی تاریخی اجتماع منعقد ہوا جس میں امیر محترم علامہ سینیٹر
پروفیسر ساجد میرd نے خصوصی شرکت کی اور خطاب فرمایا۔ ملتان کی تاریخ میں یہ اجتماع
بھی ان مٹ نقوش چھوڑ گیا۔
ان اجتماعات کے پس منظر اور پیش منظر کے متعلق چند گذارشات قابل ذکر ہیں‘ ایک
بات یہ ہے کہ صحابہ کرام] کی عظمت کے تحفظ کے لیے عوام کا بڑی تعداد میں گھروں سے باہر
نکلنا اور گھنٹوں تک ان جلوسوں میں شامل رہنا قابل قدر ہے کہ ایمان کی تازگی اور
ولولوۂ تازہ کی یہ لہر ان جذبوں کی عکاس ہے جن کی بنیاد پر مملکت خدا داد پاکستان
معرض وجود میں آئی تھی اور وہ ہے ’’نفاذ اسلام‘‘۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کی مذہبی قیادت نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ عوام کی
بے چینی کا ادراک کرتے ہوئے ان کی درست سمت میں رہنمائی کرتی ہے اور ان کی آواز
پر لبیک کہنے والے لاکھوں کی تعداد میں کسی ملی قومی اور دینی معاملے پر کہیں بھی
اکٹھے ہو سکتے ہیں۔
اسی ضمن میں یہ گذارش کی جا سکتی ہے کہ ملک وقوم کی مشکلات جس طرح آئے روز
بڑھ رہی ہیں اور ذمہ داران اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں تو علماء کا یہ اتحاد عوام
کی خواہشات اور ضروریات کا جائزہ لے کر ان کی مشکلات کے حل میں مددگار ہو سکتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ گذشتہ حکومت کو گرانے کے لیے یا اور مواقع پر کئی سیاسی یادیگر
تنظیموں نے جو اجتماعات منعقد کیے اور جلوس نکالے وہ پر امن نہیں تھے‘ ان میں
تشدد‘ افراتفری‘ املاک کا نقصان‘ اداروں کی بربادی کی کوشش‘ سرکاری اور نجی قیمتی
گاڑیوں وغیرہ کے بے حساب نقصان کے لیے گئے۔ معمولی واقعہ ہو اور چند لوگ کسی
معاملے پر حق یا ناحق اکٹھے ہوں تو اس کا عموما کم از کم نتیجہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ
بعض گاڑیوں کے شیشے ضرور توڑ دیئے جاتے ہیں۔
اس کے برعکس ہمارے مذہبی رہنما اور جماعتیں چونکہ محب وطن اور اسلام کے نظریۂ
سلامتی اور عدم تشدد پر پورے طور پر کار بند ہیں اس لیے ایسا کوئی نقصان ان بڑے
بڑے اجتماعات میں دیکھنے میں نہیں آیا اور ہم اس حد تک بھی کہہ سکتے ہیں کہ کہیں
احتجاجا ایک پتہ بھی نہیں توڑا گیا۔
یہ پڑھیں: مدیر اعلیٰ ’’اہل حدیث‘‘ چل بسے
جہاں یہ باتیں قابل اطمینان اور خوش آئند ہیں وہاں یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ
ناموس صحابہ] کے تحفظ کی یہ تحریک جن وجوہ سے شروع ہوئی ہے ان کا تدارک کیوں نہ
کیا گیا؟ بلکہ الٹا تحفظ اور پشت پناہی کا احساس عوام تک کیوں محسوس کیا گیا؟!
ہم واضح طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ رویہ ملک میں اتحاد کی فضاء کو خراب کرنے
والا ہے اور جن کے ذمے اصلاح اور کنٹرول کا اختیار ہے اگر وہ بگاڑ اور افتراق کا
باعث بنیں تو یہ نیک شگون نہیں۔ اور تحفظ ناموس صحابہ] کی اہمیت تو کبھی دلوں سے
نکالی نہیں جا سکتی۔ ؎
ہم فخر سے کہتے ہیں
ہمارے ہیں صحابہ
واللہ! ہمیں جان سے پیارے
ہیں صحابہ
وہ چاند جو روشن ہوا بطحاء کے افق پر
اس چاند کے روشن ستارے
ہیں صحابہ