Friday, October 16, 2020

بانکے رام سے محدّث زماں تک 20-22

ھفت روزہ اھل حدیث,بانکے رام,محدث زماں,بانکے رام سے محدث زماں تک,
 

بانکے رام سے محدّث زماں تک

(پہلی قسط)         تحریر: جناب ڈاکٹر عبدالرب ثاقب (برمنگھم)

بارِ دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو

ایسا کچھ کرکے چلو ،یاں کہ بہت یاد رہو

ایک انٹرویو میں علامہ ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمیؒ فرماتے ہیں کہ میں اعظم گڑھ یوپی کے ایک دیہات میں ھندوبرہمن گھرانے میں پیدا ہوا، میرے والد میرے خاندان کے بڑے تاجرتھے ان کے کاروبار کلکتہ میں تھے میں نے مڈل تک کی تعلیم اپنے گاؤں کے مڈل اسکول میں حاصل کی ،اس کے بعد آگے کی تعلیم کے لئے شبلی کالج اعظم گڑھ میں داخلہ لیا کیونکہ وہاں ہائی کلاسز کی سہولت موجود تھی ،یہیں تحریک اسلامی سے تعارف ہوا۔

یہ پڑھیں:        گنگا سے زم زم تک ... ڈاکٹر پروفیسر ضیاء الرحمن اعظمی

۱۹۵۹ء میں میٹرک کا امتحان دینے کے بعد ایک دوست نے مجھے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب ’’دین حق ‘‘ کا ہندی ترجمہ پڑھنے کے لیے دیا ،مجھے کتابوں کے مطالعہ کا بہت شوق تھا چنانچہ میں نے بڑے انہماک سے اس کا مطالعہ کیا اور مجھے محسوس ہوا کہ میں ا ب تک کفرکی مہیب تاریکیوں میں گم کردہ راہ ہوں اور اسلام میرے دل ودماغ میں اُتر گیا اور تسکین قلب کے لئے میں نے اس کو باربار پڑھا اور ہر بار میرے دل ودماغ کی تاریکیاں چھٹ رہی تھی اور روشنی سے قریب ہورہا تھا ۔اب میں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اس کے مصنف کی ہندی میں ترجمہ شدہ پوری کتابیں پڑھ لوں گا !

میں نے ہندومذہب کا باقاعدہ مطالعہ نہیں کیا تھا مگر اس گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے مجھ میں شدید عصبیت پیدا ہوگئی تھی اور میں صرف اسی مذہب کو حق مانتا تھا اور دیگر مذاہب کو باطل ! جیسا جیسا میں نے ہندومذہب کا مطالعہ شروع کیا اسی طرح میرے دماغ میں الجھنیںبڑھتی گئیں کیونکہ ہندومذہب میں صرف دیومالائی قصے اور کہانیاں ہیں جو ناقابل فہم ہیں ، میری یہ خوشی قسمتی تھی کہ مولانا مودودی کی ہندی ترجمہ شدہ کتابیں مجھے بآسانی مل گئیں ! اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ۱۹۵۳ء میں اسلامی نظام کے قیام کے اعلان پر اُنھیں پاکستان کی عدالت نے سزائے موت کی سزا سنائی تھی، بہی خواہوں نے اُنھیں اس بات پر زور دیا کہ وہ رحم کی اپیل کریں تاکہ اس سزا سے بچ سکیں مگر مودودیؒ نے یہ کہا کہ میرے لئے اللہ کی راہ میں شہید ہونا بہتر ہے اس بات سے کہ میں ان ظالموں سے رحم کی اپیل کروں ، ڈاکٹر ضیاء ان کے اس کردار سے بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں یہ سمجھتا تھا کہ ایسی مثالیں ابتدأ اسلام میں ہوچکی ہیں اب ایسی مثالیں قائم نہیں ہوسکتیں ! مگر سید مودودی ؒ کی اس مثال سے معلوم ہوا کہ آج بھی اسلام کے جیالے موجود ہیں جو اس کی خاطر رسن ودار سے گزرنے کے  لئے بالکل تیار ہیں بلکہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں ! اسی دوران خواجہ حسن نظامی کا ہندی میں ترجمہ قرآ ن مل گیا، ان ہی دنوں شبلی کالج کے ایک استاذ جو سید مودودی کی فکر سے متاثر تھے انھوں نے اپنے ہفتہ واری درس میں شرکت کی مجھے اجازت دی! مسلسل سید مودودیؒ کی کتابوں کے مطالعے اور حلقۂ درس میں شریک ہونے سے میرے آتش شوق کو دو آتشہ کر دیا! البتہ اپنی بہنوں کے تعلق سے پریشان رہتا کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا ؟ ان جیسے اور بھی خدشات نے مجھے پریشان کررکھا تھا ان ہی دنوں استاذ درس مولانا عبد الحکیم صاحب نے قرآن کی ایک آیت پڑھی:

’’جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے کو اپنا کارساز بنارکھا ہے ان کی مثال مکڑی کی سی ہے جو گھر بناتی ہے اور سب سے بودا گھر مکڑی کا ہوتا ہے کاش وہ اس حقیقت سے باخبر ہوتے۔‘‘ (العنکبوت آیت ۴۱)

یہ پڑھیں:        دار العلوم سراجیہ سلفیہ (نیپال) کے شیخ الحدیث مولانا عبدالمنان سلفی

اس آیت کی جب تشریح میں نے سنی تو ایسا لگا کہ یہ آیت میرے دل میں اُتر گئی ہے اور مجھے یہ یقین ہوگیا کہ اللہ کے علاوہ دنیا جہاں کے سارے سہارے کمزور اور بودے ہیں اور مجھے اسلام قبول کرلینے میں دیر نہیں کرنی چاہئے میں درس کے بعد مولانا کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا اور اگلی نماز مغرب میں ان کے پیچھے نمازیوں کے ساتھ شامل ہوگیا یہ میری زندگی کی پہلی نماز تھی ،میری خواہش پر کہ نماز کیسے پڑھیں ؟

انہوں نے ہندی میں ایک کتاب میرے حوالے کی جس سے بہت ہی جلد ی سے نماز سیکھ لی ! علامہ صاحب نے بتایا کہ ان کے ایک جگری دوست نے اُنھیں ایسا نہ کرنے پر بہت خوب سمجھا یا مگر مجھ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو اس نے والد صاحب کو کلکتہ خط لکھ دیا کہ اپنے بچے کو آکر بچالو ورنہ یہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گا ! والد صاحب آکر میرے حالات کا جائزہ لیتے رہے پھر جن یا بھوت کا سایہ سمجھ کر بہت سے پنڈتوں اور پروھتوں کے پاس مجھے لے گئے اور وہ جو کچھ بھی دیتے میں بسم اللہ کہہ کر کھالیتا ،جب اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا تو والد صاحب مجھے کلکتہ لے گئے تا کہ یہاں کے دوستوں سے میرا رابطہ منقطع ہوجائے اور وہاں پر بھی میرے علاج کے لئے بہت کچھ کیا بالآخر میرے علاج کے لیے مجھے الہ آباد بھیج دیا، وہاں پر بھی پنڈتوں اور پروہتوں نے میرے علاج اور مجھے سمجھا نے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی ،میں جب ان کے پنڈتوں اور پیروھتوں سے ہندو مذھب کے متعلق سوال کرتا تو اس کا جواب نہ دے پاتے اور نہ مجھے مطمئن کرسکتے تھے ۔

میں نے اُنھیں کہا کہ میں نے خوب سمجھ کر اسلام قبول کیا ہے کسی زور زبردستی سے نہیں ! بالآخر ہر جگہ سے لاعلاج قرار دیا گیا تو والدصاحب مجھے واپس گھر لائے اور ایک کمرہ میں مجھے مختص کردیا گیا اور یہ کہ کوئی مجھ سے ملنے کے لئے باہر سے نہ آئے ! میری ماں ،بھائی اور بہنیں رو رو کر ان کی حالت خراب ہورہی تھی آخر ایک دن سارے گھر والوں نے بھوک ہڑتال کردی کہ جب تک اسلام نہیں چھوڑو گے ہم کوئی چیز نہ کھائیں گے اور نہ پئیں گے ! یہ سخت مرحلہ بھی میری آنکھوں کے سامنے آیا مگر اللہ نے مجھے استقامت عطا فرمائی ! آخر کار ایک مولوی صاحب کو میرے پاس لایا گیا، انہوں نے کہا کہ اگر والدین دوسرے مذہب کے ہیں تو آپ پر اپنے اسلام کو پوشیدہ رکھناچاہئے نماز وغیرہ سب روک دینا چاہئے جب وہ دنیا سے اُٹھ جائیں تو اُس وقت آپ اپنے اسلام کو ظاہر کریں ،مجھے اسلام کے متعلق زیادہ معلومات نہیں تھیں ،میں نے سمجھا کہ شاید اسلام یہ بتلاتا ہے میں نے ان مولوی صاحب کی بات مان لی اور اسلام کو میں نے چھپائے رکھا اب گھر میں ہر طرف خوشیوں کی لہر دوڑ گئی! بعد میں مجھے پتہ چلاکہ یہ مولوی صاحب غلط بات مجھے بتاگئے ہیں ،میں ایک مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا چند ھندؤں نے وہاں ہلہ بول دیا اور مسجد میں ہنگامہ شروع کردیا اب میں نے سمجھا کہ میرے کھل کر اسلام قبول کرنے کا بہترین وقت ہے ۔

یہ پڑھیں:        حکیم اجمل خاں (ہریانہ بھارت) کا سانحۂ ارتحال

چنانچہ میرے والد صاحب نے مجھے ایک کٹر مسلم دشمن تنظیم کے حوالہ کردیا ،ان کا کام یہی تھا کہ وہ آدمی کو اسلام سے ہٹاکر اُسے ھندو بنادینا یا پھر موت سے ہمکنار کرنا ! ایک ہفتہ مجھے دوستوں نے مویشیوں کے باندھنے کی جگہ رکھا، کیونکہ لوگ میری تلاش میں گھر گھر اور مسجد ومدرسہ پھررہے تھے وہاں سے مجھے رات کے پچھلے پہر ایک ٹرین کے ذریعے بدایوں کے دیہات میں لے جایا گیا کیونکہ وہ ایک گمنام دیہات تھا لیکن ڈیڑھ سال بعد ہندو وہاں بھی پہنچ گئے ،اللہ کا یہ فضل ہوا کہ ان کے آنے سے پہلے انکی اطلاع مجھے مل جاتی جس کی وجہ سے میں ان کی گرفت سے بچ نکلتا با لآخر کافی غور وخوص کے بعد مجھے مدراس اسٹیٹ کے ایک گمنام دیہات عمرآباد پہنچایا گیا جہاں ’’جامعہ دارالسلام‘‘ کے نام سے دینی درسگاہ ہے اس میں میں نے آٹھ نو سال کا کورس چھ سال میں مکمل کرلیا ! اسی دوران میں اردو سیکھ لی کیونکہ درس نظامی کے لیے ہندی زبان نہیں چل سکتی کیونکہ اس کا اکثر ذخیرہ اُردو میں ہے ۔

میں یہاں پانچ سال مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ کے لیے اپنے آبائی وطن پہنچا میرا قیام اسی مقام پر تھا جہاں چند سال قبل ’’دین حق ‘‘  کتاب پڑھنے کو ملی اس دوران عید الفطر بھی آگئی تو مجھے وہیں امامت وخطابت کا موقع دیا گیا ، مسلمان بڑے جوش وخروش کے ساتھ وفود دروفودنماز عید کے لیے عید گاہ پہنچ گئے اور عید گاہ کے اطراف ہندو لوگ مجھے دیکھنے اور میری تقریر سننے کے لئے جمع ہوگئے ان کے لئے یہ بات بڑی حیران کن تھی کہ چند سال قبل میں ہندو تھااور اب مسلمانوں کا روحانی پیشوا (امام وخطیب) ہوں۔ چنانچہ میرے خطبۂ عید سے وہ بہت متأثر ہوئے بعد ازاں میرے محسن کے گھر مجھ سے ملاقات کرنے لئے بہت سے ہندو پہنچ گئے اور میری تبدیلی اور استقامت پر حیرت زدہ تھے! میرے والدین کے سامنے بھی اسلام کے قبول کرنے کے بعد جونامساعد حالات کا اور مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں اس سے گھبراتے تھے ورنہ بہت ممکن ہے کہ وہ بھی حلقہ بگوش اسلام ہوجاتے! میں جامعہ دارالسلام عمرآباد سے فراغت کے بعد مدینہ یونیورسٹی میں پڑھنا چاہتا تھا۔

یہ پڑھیں:        مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف

الحمدللہ جامعہ کے ذمہ داران کاکامحمد عمر ؒ ،کاکا سعید احمد عمری ،ناظم جامعہ حافظ عبد الواجد رحمانیؒ ، نائب ناظم مولانا عبد السبحان اعظمی عمری ،استاذ جامعہ مولانا حافظ حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی وغیرہم کی دعاؤں اور کوششوں نے مجھے مدینہ یونیورسٹی پہنچا دیا وہاں چار سالہ کورس پورا کرکے گرائجویٹ بن گئے تو آگے مزید تعلیم کے لیے جامعہ الملک عبد العزیز (جامعہ ام القریٰ) مکہ مکرمہ سے یم اے کیا اور اس کے لئے میں نے صحابی رسول ؐ حضرت ابوہریرہ ؓ کی شخصیت کا انتخاب کیا ،کیونکہ جہاں منکرین حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ کی بہت زیادہ … روایت کردہ احادیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ وہ غیر فقہیہ تھے اس لئے تین سال کے مختصر عرصہ میں تقریباً ساڑھے پانچ ہزار احادیث کس طرح روایت کر دیں؟ جب کہ بیس بیس سال آپ ؐ کے ساتھ رہنے والے صحابہ کرام ؓ اتنی کثیر تعداد میں احادیث روایت نہیں کرسکے…! 

1       یہ کتاب جو سات سو صفحات پر مشتمل ہے اُس میں مؤلف نے ثابت کیا کہ حضرت ابوھریرہ ؓ کی مرویات میں اکثر و بیشتر احادیث دیگر صحابہ کرام] بھی روایت کئے ہیں اور سیدنا ابوہریرہt نے غزوۂ تبوک ۹ھ میں اسلام قبول کیا آپe کی معیت میں تین سال رہے تو اس مدت میں انہوں نے ڈیڑھ ہزار سے دو ہزار احادیث روایت کی ہیں۔ اور ایک دن میں دو حدیث روایت کرنا ایک صحابی کے لئے جس کا نہ تو کوئی کاروبار تھا اور نہ کام کاج جو ہر وقت صفہ پر موجود رہتے اور نبی کریم e کو دیکھتے اور آپ ؐ سے سنتے رہتے روزانہ آپ ؐ سے دو حدیثیں روایت کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ! ایسی تحقیق سے انھوں نے بہت سے مسلمانوں کی غلط فہمی کو دور کردیا اسی لئے علامہ شیخ البانیؒ، ڈاکٹر ضیاء الرحمن کو یا صاحب ابی ہریرہt (اے ابوہریرہt والے) سے خطاب کرتے تھے! بلکہ انھوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’تم نے جو موضوع منتخب کیا ہے وہ ایسا سمندر ہے جس کی گہرائی اور کنارے تمہیں تھکادیں گے‘‘ اب بانکے رام کا نام ڈاکٹر محمد عبد اللہ اعظمی عرف ضیاء الرحمن ہے، انہوں نے علوم حدیث کی خدمت میں پچاس ہزار صفحات سے زائد لکھ ڈالے ہیں!  ۱۴۲۲ھ میں آپ کلیۃ الحدیث کی پرنسپل شب سے ریٹائر ڈ ہوئے ویسے تو مدنیہ منورہ کے ڈاکٹر ضیف اللہ بن محمد العامری الشمرانی نے ان کی ۱۹ کتابوں کا تذکرہ کیا ہے  ،لیکن ہم یہاں ان کی چند ہی تصنیفات کا ذکر کرتے ہیں۔

یہ پڑھیں:        پروفیسر حافظ ثناء اللہ خان

2       امام حافظ بیہقی ؒ کی السنن الکبریٰ کی شرح المنۃ الکبریٰ کی ۹ جلدیں لکھیں۔

3       ان کی ناقابل فراموش تصنیف’’الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل‘‘ ہے جس میں دنیا میں ساری پھیلی ہوئی کتب احادیث میں سے احادیث صحیحہ کو ایک جگہ جمع کیا اس کام کے لئے انھیں زندگی کے چودہ سال بلکہ بیس سال لگے ،مگر دنیا کو احادیث صحیحہ کا ایک ایسا مجموعہ دیا ۔جو آج تک کسی نے نہیں دیا! انھوں نے ۲۲؍جون ۲۰۱۴ ء؁ میں اپنے استاذ عمرآباد حضرت شیخ الحدیث مولانا ظہیر الدین اثری صاحب ؒ کے ہاتھوں مدینہ منورہ میں اس کتاب کا اجرأ کروایا اور اس کی وجہ تالیف یہ بتائی کہ زمانہ ٔ طالب علمی سے یہ خیال ذہن میں آرہا تھا کہ قرآن کی طرح احادیث رسول ؐ کا بھی ایک ’’صحیح مجموعہ‘‘ ہونا چاہئے جس میں اللہ کے رسول اکرم e کی ساری احادیث ایک ہی کتاب میں مل جائیں اور الحمدللہ بسیار محنت شاقہ کے بعد چودہ ہزار صفحات پہ مشتمل انیس جلدوں میں یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچا جس میں سولہ ہزار آٹھ سو ۱۶۸۰۰ صحیح احادیث جمع کردی گئی ۔یہی ایک کام اُنھیں قیامت تک زندہ جاوید رکھنے کے لئے کافی تھا مگر اللہ نے اُن سے کئی ایک ایسی تصنیفات دنیا کو دیںکہ جس سے امت مسلمہ قیامت تک استفادہ کرتی رہے گی! اگلا مرحلہ ان کا پی۔ایچ۔ڈی کا تھا جس کے لئے انھوں نے جامعہ أزھر مصر کا انتخاب کیا اور رسول اکرم e نے جتنے فیصلے کئے ہیں اُنھیں ایک کتاب میں جمع کردیا ہے اور ان میں صحیح اور ضعیف بھی الگ کرکے بتادئیے ہیں اور اس ضخیم کتاب کا نام

4       ’’ أقضیۃ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ رکھا ہے! جس کا اُردو ترجمہ دارالسلام پاکستان سے شائع ہوا ہے ۔

ملازمت کا آغاز رابطہ عالم اسلامی سے ہوا مگر چونکہ وہ انتظامی نہیں بلکہ علمی شخصیت تھے اس لئے وہ مدینۃ الرسول ؐ چلے گئے اور ۱۹۷۲ء میں استاذ حدیث سے بعد میں عمید الکلیۃ اورڈین بنے اور الحمدللہ اُنھیں سعودی نیشنلٹی (شہریت) ملی اور مسجد نبوی ؐ میں حدیث کے مدرس مقرر ہوئے ،مذاھب پر بھی آپ کی تصنیفات میں

یہ پڑھیں:        پروفیسر عبدالرحمن لدھیانوی ... عظمت وسادگی کا حسین پیکر

5       یہودیت نصرانیت ،بدھ مت اور جین مت پر کتابیں ہیں جو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے نصاب تعلیم میں شامل ہیں !

ڈاکٹر صاحب نے ہندی زبان میںقرآن انسائیکلو پیڈیا تیار کیا جس میں قرآن مجید کی اصطلاحات کا تعارف کرایا گیا ہے تاکہ غیر مسلم بآسانی ان اصطلاحات کو سمجھ سکیں اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے!

6       انہوں نے خود اپنی آپ بیتی لکھی ہے جس کا نام ’’ گنگا سے زمزم تک ‘‘ رکھا ہے اور ایک

7       کتاب ’’دعوۃ الاسلام الی غیرالمسلمین‘‘ (اسلام کی دعوت غیر مسلموں کے لئے) لکھی ہے۔

……… (جاری ہے)


درس بخاری شریف


دینی مدارس کے طلبہ کے لیے انتہائی مفید


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)