پاکستانی حجاج کے مسائل اور سعودی وژن 2020ء
تحریر: جناب حافظ شفیق
کاشف
حج اسلام کا
پانچواں رکن اور دنیا کے ہر مسلمان کی دلی خواہش ہے ۔اخراجات میں بے تحاشہ اضافے
اور پاکستان کے روپے کی گرتی ہوئی قیمت نے غریب عوام سے سفر حج کی سکت بھی چھین لی
ہے۔ اب سعودی حکومت کی طرف سے آئندہ سالوں میں حج و عمرہ کو نجی شعبے کے حوالے
کرنے کی خبروں نے جہاں غریب عوام کو غمگین کر دیا ہے وہاں پر یہ ایک اچھی خبر ہے
کہ موجودہ حکومت پاکستانی عازمین حج سے انڈونیشاء اور ملائشیاء کی طرز پر قسطوں میں
پیسے وصول کرکے حج پر بھیجنے پر غور کر رہی ہے۔
یہ پڑھیں: حج وعمرہ کے ثواب والے اعمال
حکومت اس میں
کس قدر کامیاب ہوتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر سعودی حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے
کہ سیاحت کو انڈسٹری کا درجہ دے کر دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے سعودی عرب کے دروازے
کھولنے ہیں اور عمرہ زائرین کی سالانہ تعداد جو اس وقت ۹ ملین ہے اس کو
بڑھا کر ۲۰۳۰ء
تک ۳۰
ملین کرنا ہے۔ اسی طرح آخری سال حج ۲۰۱۹ء میں بیرون سعودی عرب سے ۱۸ لاکھ ۵۰ ہزار عازمین
حج نے فریضہ حج کی سعادت حا صل کی تھی اور ۷ لاکھ کے قریب
سعودی عرب میں مقیم مسلمانوں نے حج کی سعادت حاصل کی۔ اب ۲۰۳۰ء تک عازمین حج
کی تعداد ۴۰
لاکھ سے زائد ہوگی جبکہ سیاحتی ویزوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ اعداد و شمار کے
مطابق سعودی عرب کی حکومت بجٹ میں ٹریول ٹریڈاور سیاحت کی انڈسٹری سے سالانہ ۱۰۰ ارب ڈالر سے
زائد حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے۔
گذشتہ سال تک
سعودی حکومت حج و عمرہ ویزہ کی فیس وصو ل نہیں کرتی تھی اور نہ ہی اس پر کوئی اضافی
ٹیکس لاگو تھے ۔ اب نہ صرف ویزوں کی فیس دینا پڑے گی بلکہ ود ہولڈنگ ٹیکس، انکم ٹیکس،
کارپوریشن ٹیکس وغیرہ بھی لاگو کر دیئے گئے ہیں۔ اسلامی ورثہ جیسے مقد س مقامات
اور تاریخی سیاحتی مقامات کی تزئین ارائش کا کام تیزی سے جاری ہے۔ یورپین ممالک کے
پاسپورٹ کے حامل افرا د اور ان ممالک کے ویزا کے حامل ایشین شہریوں کو سعودی عرب
کے تمام ائیر پورٹس پر آن آرائیول وزٹ ویز ا کی سہولت کا آٖغاز کرو نا وائرس سے
پہلے ہی کر دیا گیا تھا‘ اس پیش کش سے لاکھوں سیاحوں نے فائدہ اٹھایا جو خود سعودی
حکام کے لیے بھی حیران کن تھا۔
دلچسپ بات یہ
ہے کہ سیاحتی ویزوں کے اخراجات حج و عمرہ ویزوں سے کم ہیں‘ اس ساری صورت حال کے
تناظر میں پاکستان کو اپنی حج و عمرہ پالیسی ترتیب دینا ہے جو کہ دسمبر جنوری میں
متوقع ہے۔ جس طرح گذشتہ سال موجودہ حکومت نے سابقہ حکومت کی حج پالیسی کو یکسر
مسترد کرتے ہوئے عازمین حج کے لیے سبسڈی کو ختم کر دیا تھا جس کی وجہ سے اخراجات میں
یقینا اضافہ ہونا تھا کیوں کہ سابقہ حکومت نے سبسڈی اور دیگر ذرائع اختیا رکرکے حج
کو سستا کر رکھا تھا۔
یہ پڑھیں: پاک سعودی تعلقات ... حقائق نامہ
سعودی حکام
موجودہ حج پالیسی سے خوش ہیں اور پاکستان کے حجاج کے بجٹ کو بڑھانا چاہتے ہیںتاکہ
شکایا ت کا خاتمہ کیا جائے۔ اسی لیے سعودی حکومت کی پہلی ترجیح یہی ہے کہ پاکستان
کے تمام حج کوٹہ کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کیا جائے یا پھر سعودی عرب کی مارکیٹ
میں مقابلے کے لیے سرکاری پیکج میں مزید اضافہ کیا جائے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ
حکومت اپنی باقی مدت کے لیے حج کی مستقل پالیسی بنا کر حج کو نجی شعبے کے حوالے کر
دے اور خود نگرانی کرے۔ کیوں کہ حکومت بھی سرکاری حج پیکج پر ایک اندازے کے مطابق
ایک لاکھ روپے فی حاجی قومی بجٹ سے خرچ کر دیتی ہے اور شکایات پھر بھی ختم ہونے کا
نام نہیں لیتیں۔ ویسے بھی سعودی عرب میں حج و عمرہ کے انتظامات کے حوالے سے جو تبدیلیاں
ہو رہی ہیں سرکاری سطح پر کم اخراجات میں حج کروانا حکومت کے لیے ممکن نہیں رہے
گا۔
سعودی حکومت فیصلہ
کر چکی ہے کہ سعودی عرب کا پرائیویٹ سیکٹر ہی حج وعمرہ کے انتظامات کرے گا حکومت
صرف نگرانی کرے گی اور نجی شعبے کی خدمات کی نگران ہوگی۔ کیوں کہ ہر سال سعودی عرب
کی تقریبا ساڑھے تین لاکھ تعداد میں نفری حج انتظامات میں حصہ لتی ہے جس کے
اخراجات سعودی حکومت برداشت کر تی ہے۔ آئندہ سالوں میں انہی ممالک کے زائرین کو
حج و عمرہ کے ویزے جاری ہوں گئے جو مالی طور پر مستحکم ہوں گے۔ اگر سرکاری سطح پر
کوئی حکومت اس پالیسی کو قبول نہیں کر تی تو سعودی عرب براہ راست زائرین کو سروسز
دینے کے لیے نجی شعبے پر انحصار کرے گا۔ کیوں کہ سعودی عرب نے پاکستان سمیت دنیا
بھر کے لیے ۲۰۰۴ء
میں حج و عمرہ کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کا بتدریج آغاز کر دیا تھا‘ اگر
اس وقت کے وزیر مذہبی امو ر اعجاز الحق کے سا تھ کیے گئے معاہدے کی پاسداری بعد میں
آنے والے حکومتیں کرتیں تو کئی سال پہلے ہی پاکستان کا حج کوٹہ نجی شعبے کے حوالے
کر دیا جاتا۔ کیوں کہ اخراجات میں اضافہ کے باوجود بھی سرکاری سکیم کے حاجیوں کو
منی اور عرفات میں کھانا نہیں ملتا‘ مناسب ٹرانسپورٹ نہیں ملتی اور مشاعر مقدسہ میں
خیموں میں جگہ نہیں ملتی۔
حکومت کا کام
حج کروانا نہیں بلکہ انتظامات کی نگر انی کرنا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے پرائیویٹ کے
مہنگے حج کا تو حکومت اپنے حصے کا کوٹہ سرکاری پیکج اور سروس چارجز کے ذریعے پرائیویٹ
سیکٹر کے ذریعے آفر کرے تو بہترین نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ
پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کی بات کرتے ہیں اور پرائیویٹائیزیشن کے حق میں ہیں
اس لیے وزارت مذہبی امور کی کارکردگی کو بھی بہتر بنائیں اور اُسے اتحاد بین المسلمین
اور بین المذاہب ہم آہنگی پر کام کرنے دیں دینی‘ مدارس و مساجد پر کام کرنے دیں۔
زکو ۃاور دیگر امور پر توجہ دینے دیں‘ موجودہ وزیر مذہبی امور ڈاکٹر پیر نو ر الحق
قادری بھی اس موقف کے حامی ہیں کہ حج کے متعلق سعودی حکام کا موقف صحیح ہے اور حج
کے انتظامات سعودی عرب نے کرنے ہیں اور ۳ ملین لوگوں کو
حج کروانا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سعودی تعلیمات و ہدایات کی روشنی میں ہی
حج پالیسی مرتب کرنی چاہیے اس سے حجاج کی شکایات ختم کی جاسکتی ہیں۔
یہ پڑھیں: پاک سعودی تعلقات کا تاریخی جائزہ
انہوں نے مزید
بتایا کہ سعودی حکومت نے حج انتظامات کے حوالے سے پاکستان کے ہر مطالبے کو تسلیم کیا
ہے۔ لہٰذاہمیں بھی چاہیے کہ سعودی حکام کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر ہم اپنے
انتظامات کو بہتر بنائیں۔ یہ بھی طے ہے کہ کرونا وائرس کے مہینوں کے اثرات کے
ماحول میں حج ۲۰۲۱ء
بھی متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا‘ لہٰذا ابھی سے حج انتظامات کی تیاری کی جائے
اور اس کے لیے فوری طور پرنجی شعبے کو متحرک کیا جائے۔ کیوں کہ ہوائی کمپنیوں‘
سرکاری و نجی اداروں کے اخراجات میں بے پناہ اضافے کے بعد حج کے اخراجات میں بے
تحاشا اضافہ ہوگا ۔