پیغامِ پاکستان کی روشنی میں ضابطۂ اخلاق
یہ ضابطۂ اخلاق
اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان نے ماہ صفر ۱۴۴۲ھ کو جاری کیا ہے‘ جس
پر ملک کی نمائندہ مذہبی تنظیموں کے سربراہان کے دستخط ہیں‘ جن میں امیر محترم
علامہ ساجد میرd‘ وفاقی وزیر مذہبی امور اور چیئرمین اسلایم نظریاتی کونسل کے
دستخط نمایاں ہیں۔
1 تمام شہریوں
کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو تسلیم کریں‘ ریاست پاکستان
کی عزت وتکریم کو یقینی بنائیں اور ہر حال میں ریاست کے ساتھ اپنی وفاداری کے حلف
کو نبھائیں۔
یہ پڑھیں: جاگ اُٹھے ہیں دیوانے
2 اسلامی جمہوریہ
پاکستان کے تمام شہری دستور پاکستان میں درج تمام بنیادی حقوق کے احترام کو یقینی
بنائیں‘ ان میں مساوات‘ سماجی اور سیاسی حقوق‘ اظہار خیال‘ عقیدہ‘ عبادت اور
اجتماع کی آزادی شامل ہیں۔
3 دستور پاکستان
کی اسلامی ساخت اور قوانین پاکستان کا تحفظ کیا جائے گا۔ پاکستان کے شہریوں کو یہ
حق حاصل ہے کہ شریعت کے نفاذ کے لیے پر امن جد وجہد کریں۔
4 اسلام کے نفاذ
کے نام پر جبر کا استعمال‘ ریاست کے خلاف مسلح کارروائی‘ تشدد اور انتشار کی تمام
صورتیں بغاوت سمجھی جائیں گی اور یہ شریعت کی روح کے خلاف ہیں اور کسی فرد کو یہ
حق نہیں کہ وہ حکومتی‘ مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی کے اداروں کے افراد سمیت کسی
بھی فرد کو کافر قرار دے۔
5 علماء‘ مشایخ
اور زندکی کے ہر شعبے سے متعلق افراد کو چاہیے کہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں خاص
طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج کی بھر پور حمایت کریں تا کہ
معاشرے سے تشدد کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔
6 ہر فرد ریاست
کے خلاف لسانی‘ علاقائی‘ مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی بنیاد پر چلنے والی تحریکوں
کا حصہ بننے سے گریز کرے۔ ریاست ایسے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔
7 کوئی شخص فرقہ
وارانہ نفرت‘ مسلح فرقہ وارانہ تنازعہ اور جبراً اپنے نظریات کسی دوسرے پر مسلط نہ
کرے کیونکہ یہ شریعت کی کھلی خلاف ورزی ہے اور فساد فی الارض ہے۔
8 کوئی نجی یا
سرکاری یا مذہبی تعلیمی ادارہ عسکریت کی تبلیغ نہ کرے‘ تربیت نہ دے اور نفرت انگیزی‘
انتہا پسندی اور تشدد کو فروغ نہ دے۔ ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد اور اداروں کے
خلاف قانون کے مطابق ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر سخت کارروائی کی جائے گی۔
یہ پڑھیں: ہم مسافر ہیں عمر بھر کے
9 انتہا پسندی‘
فرقہ واریت اور تشدد کو فروغ دینے والوں‘ خواہ وہ کسی بھی تنظیم یا عقیدے سے ہوں‘
کے خلاف سختی انتظامی اور تعزیری اقدامات کیے جائیں گے۔
0 اسلام کے تمام
مکاتب فکر کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے اپنے مسالک اور عقائد کی تبلیغ کریں‘ مگر کسی کو
کسی شخص‘ ادارے یا فرقے کے خلاف نفرت انگیزی اور اہانت پر مبنی جملوں یا بے بنیاد
الزامات لگانے کی اجازت نہیں ہو گی۔
! کوئی شخص خاتم
النبیین حضرت محمدe‘ جملہ انبیائے
کرامu‘ امہات المؤمنین‘
اہل بیت اطہار‘ خلفائے راشدین اور صحابہ کرام] کی توہین نہیں کرے گا۔ کوئی فرد یا
گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے گا نہ ہی توہین رسالت کے کیسز کی تفتیش یا
استغاثہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔
@ کوئی شخص کسی
مسلمان کی تکفیر نہیں کرے گا اور صرف مذہبی سکالر ہی شرعی اصولوں کی وضاحت مذہبی
نظریے کی اساس پر کرے گا۔ البتہ کسی کے بارے میں کفر کے مرتکب ہونے کا فیصلہ صادر
کرنا عدالت کا دائرہ اختیار ہے۔ (مسلمان کی تعریف وہی معتبر ہو گی جو دستور‘
پاکستان میں ہے۔)
یہ پڑھیں: تحفظ ناموس صحابہ واہل بیت]
# کوئی شخص کسی
قسم کی دہشت گردی کو فروغ نہیں دے گا‘ دہشت گردوں کی ذہنی وجسمانی تربیت نہیں کرے
گا‘ ان کو بھرتی نہیں کرے گا اور کہیں بھی دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہو گا۔
$ سرکاری‘ نجی
اور مذہبی تعلیمی اداروں کے نصاب میں اختلافِ رائے کے آداب کو شامل کیا جائے گا کیونکہ
فقہی اور نظریاتی اختلافات پر تحقیق کرنے کے لیے سب سے موزوں جگہ صرف تعلیمی ادارے
ہوتے ہیں۔
% تمام مسلم شہری
اور سرکاری حکام اپنے فرائض کی انجام دہی اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان کی
روشنی میں کریں گے۔
^ بزرگ شہریوں‘
خواتین‘ بچوں‘ خنثیٰ اور دیگر تمام کم مستفیض افراد کے حقوق کے حوالے سے اسلامی
تعلیمات ہر سطح پر دی جائیں گی۔
& پاکستان کے غیر
مسلم شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب اور مذہبی رسومات کی ادائیگی اپنے
اپنے مذہبی عقائد کے مطابق کریں۔
* اسلام خواتین
کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خواتین سے ان کے ووٹ‘
تعلیم اور روزگار کا حق چھینے اور ان کے تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچائے۔ ہر فرد غیرت
کے نام پر قتل‘ قرآن پاک سے شادی‘ ونی‘ کاروکاری اور وٹہ سٹہ سے باز رہے‘ کیونکہ یہ
اسلام کی رو سے ممنوع ہیں۔
یہ پڑھیں: ناموس رسالت وناموس صحابہ پر حملے نا قابل قبول
( کوئی شخص
مساجد‘ منبر ومحراب‘ مجالس اور امام بارگاہوں میں نفرت انگیزی پر مبنی تقاریر نہیں
کرے گا اور فرقہ وارانہ موضوعات کے حوالے سے اخبارات اور ٹی وی یا سوشل میڈیا پر
متنازعہ گفتگو نہیں کرے گا۔
) آزادی اظہار
اسلام اور ملکی قوانین کے ماتحت ہے‘ اس لیے میڈیا پر ایسا کوئی پروگرام نہ چلایا
جائے جو فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کا سبب بنے اور پاکستان کی اسلامی شناخت کو
مجروح کرے۔