قول عمل کی اذیّت رسانی
امام الحرم المکی الشیخ
ڈاکٹر سعود الشریم d
ترجمہ: جناب عاطف
الیاس ………………… نظر ثانی: جناب
محمد ہاشم یزمانی
حمد و ثناء کے بعد!
بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے۔ بہترین طریقہ نبی اکرم e کا طریقہ ہے۔ ایجاد کردہ عبادتیں
بد ترین کام ہیں۔ ہر ایجاد کردہ عبادت بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ مسلمان
جماعت کے ساتھ جڑے رہو۔ کیونکہ اللہ کا ہاتھ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ہے۔ جو اس
سے الگ ہوتا ہے وہ جہنم میں جا گرتا ہے۔ اے لوگو! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو
اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ ہمیں ہر کھلے اور چھپے معاملے میں اللہ سے ڈرتے
رہنا چاہیے، اپنی بول چال میں اور اپنے ہر کام میں خوفِ خدا ملحوظ رکھنا چاہیے، لین
دین اور معاملات میں پرہیزگاری اپنانا چاہیے۔
’’نافرمانی سے
پرہیز کرنے والے یقیناً باغوں اور نہروں میں ہوں گے۔ سچی عزت کی جگہ، بڑے ذی
اقتدار بادشاہ کے قریب۔‘‘ (القمر: ۵۴-۵۵)
یہ پڑھیں: خطبہ حرم مدنی ... مسجدیں آباد کرنے کی فضیلت ... امام
الحرم المدنی الشیخ عبداللہ البعیجان﷾
اللہ کے بندو! اچھے اور بلند اخلاق نرم ورحیم، پرہیزگار اور پاکیزہ مسلمانوں
کا شیوہ ہے۔ دوسروں کے لیے مفید مسلمانوں اور پُر امن مسلمانوں کا طریقہ ہے، جن کے
دل میں کدورتوں یا حسد کی کوئی جگہ نہیں ہوتی، خود پسندی ہوتی ہے اور نہ تکبر۔ جو
اپنے حقوق حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ، ادائیگیِ حقوق کی بھی فکر کرتے ہیں۔ جو سمجھ داری سے کام لیتے ہیں اور بخوبی جانتے
ہیں کہ انہیں اور ان کے معاشرے کو کدورتوں اور نفرتوں کی نہیں، بلکہ محبت اور رحم
دلی کی ضرورت ہے۔ جو دانشمندی سے کام لیتے ہوئے دوسروں کی عزت کو مد نظر رکھتے ہیں،
دوسروں کو اذیت یا تکلیف پہنچانے سے بچتے
ہیں، چاہے وہ زیادہ ہو یا معمولی۔ مسلمان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے
مسلمان بھائی کے امن وسکون کا ذریعہ ہو، امت اسلامیہ کے اس جسم کا ایک فعّال حصہ
ہو جس کا اگر ایک حصہ تکلیف میں ہو تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں رہتا ہے۔ ایسا
مسلمان ہی سمجھ سکتا ہے کہ مشکلات ومسائل ایسے معاشرے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے جو
الفت ومحبت پر قائم ہو، جس کا ہر فرد دوسروں کو اپنی زبان اور ہاتھ کے شر سے محفوظ
رکھے۔ کیونکہ اذیت رسانی معاشرے کی لہروں سے ٹکراتی کشتی کے لیے ایک مہلک سوراخ کے
برابر ہے، اذیت کی ہر شکل ایک سوراخ جو اگر بڑھ جائیں تو کشتی کو ڈوبنے سے کوئی نہیں
بچا سکتا۔
اللہ کے بندو! لفظِ اذیت کا اطلاق ایسے ہر کام اور بات پر ہوتا ہے جو دوسروں
کو نقصان پہنچائے، چاہے وہ نقصان جسمانی ہو یا جذباتی۔ اس اعتبار سے لفظِ اذیت کی
کسی طرح بھی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ اس میں کسی لحاظ سے بھی کوئی بھلائی نہیں ہے۔
قرآن کریم یا سنت رسول میں اس کا ذکر جب بھی آیا ہے، مذمت کے پیرائے میں ہی آیا
ہے۔ اسی طرح سلف صالحین اور دانشمند
بزرگوں کی باتوں میں بھی یہ لفظ مذموم ہی پایا گیا ہے۔ راست باز اور پاکیزہ لوگ تو
اس لفظ سے بھی دور بھاگتے ہیں، بھلا اس کے نتائج اور اثرات کو کیوں کر اچھا سمجھیں
گے؟ صحیح اور تندرست دل والے تو اذیت کا سہارا لینے سے گریزاں رہتے ہیں، کیونکہ اذیت
تو سانپوں اور بچھوؤں کی صفت ہے۔ اللہ ہمیں اور آپ کو محفوظ فرمائے۔
یہ پڑھیں: خطبہ حرم مدنی ... علاج معالجہ کے آداب .. امام الحرم
المدنی الشیخ صلاح البدیر﷾
اللہ کے بندو! اذیت رسانی سے گریز کا مفہوم اتنا ہی نہیں ہے کہ خود کسی کو اذیت
نہ دی جائے، بلکہ اس کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ حتیٰ الامکان لوگوں کو اذیت
سے بچایا بھی جائے۔ چاہے راستے میں پڑی موذی چیزوں کو ہٹا ہی دیا جائے۔ صحیح حدیث
میں ہے: رسول اللہ e نے فرمایا:
’’ایمان کے حصے
ستر سے یا ساٹھ سے کچھ زیادہ ہیں۔ جن میں سب سے اعلیٰ حصہ لا الٰہ الا اللہ، کہنا
ہے، سب سے کم تر حصہ اذیت ناک چیز کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کا ایک
حصہ ہے۔‘‘
اہل علم ایک نقطہ بیان کرتے ہیں کہ اگر راستے سے اذیت ناک چیز کو ہٹانے کا
اتنا اجر ہے، تو دلوں کو اذیت سے بچانا اس سے بھی افضل ہو گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ
جس طرح کچھ کرنے یا کہنے سے دوسروں کو تکلیف ہو سکتی ہے، اسی طرح کچھ نہ کرنے یا
خاموش رہنے سے بھی انہیں اذیت پہنچ سکتی ہے، خاص طور پر ایسے مواقع پر جب سکون یا
خاموشی سے کسی کا حق جاتا ہو یا باطل کی ہاں میں ہاں ملتی ہو۔ کیونکہ امام بخاری
نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ e نے فرمایا:
’’اپنے بھائی کی
مدد کرو،چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! جب وہ مظلوم
ہوگا تو میں اس کی مدد کروں گا، لیکن جب وہ ظالم ہو گا، تو میں اس کی مدد کیسے
کروں گا؟ آپ e نے فرمایا: تب
اسے ظلم سے روک دینا یا باز کر دینا۔ یہی اس کی مدد ہو گی۔‘‘
اذیت کا سہارا چھوٹے دل والے ہی لیتے ہیں، کیونکہ انہیں اذیت کے سوا کچھ آتا
ہی نہیں۔ دلیر تو وہ ہے جو اذیت رسانی سے دور رہے، جبکہ بزدل وہ ہے جو اذیت میں
جرأت دکھاتا ہے۔ سمجھ دار وہ ہے جو لوگوں کی اذیت برداشت تو کرے، مگر جواب میں
انہیں اذیت نہ دے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک اپنی طرف سے دوسروں کو پہنچنے والی اذیت
کو بھی اسی پیمانے سے ناپے جس سے وہ دوسروں کی طرف سے خود کو پہنچنے والی اذیت کو
ناپتا ہے تو یقینی طور پر لوگوں میں اذیت کی شرح کم ہو جائے۔
یاد رکھنا! تباہی اس شخص کی منتظر ہے، جس کا نامہ اعمال اذیت رسانی سے بھرا
ہو۔ تباہی اس کی منتظر ہے۔ تباہی اس کی منتظر ہے۔ حقیقی ہار جیت والے دن اس شخص کا
صحیفۂ مفلسی پھیلا دیا جائے گا، تا کہ وہ منہ کے بل گر جائے،
’’اُس کی دنیا
بھی گئی اور آخرت بھی‘ یہ ہے صریح خسارہ۔‘‘ (الحج: ۱۱)
یہ پڑھیں: خطبہ حرم مدنی .. سیرت رسول ﷺ کے چند اہم واقعات .. امام
الحرم المدنی الشیخ عبداللہ البعیجان﷾
ہمیں مفلسی کی نہیں، منافع کی ضرورت ہے۔ عقلمندی بھی یہی ہے کہ انسان اپنے
جبڑوں کو قابو میں رکھے، اپنی زبان کو دوسروں کی اذیت کے لیے بے لگام نہ چھوڑے، ایسا
نہ ہو کہ وہ نفع کی بجائے نقصان کر بیٹھے۔ اسی طرح یہ بھی دانشمندی ہے کہ اپنے
ہاتھ کو کھلا چھوڑ دیا جائے، مگر صرف پُر امن ہاتھوں میں ہاتھ ڈالنے کے لیے، نہ کہ
دوسروں کو تنگ کرنے یا ظلم وستم کے لیے، اور نہ مولیٰ کو ناراض کرنے کے لیے۔ صحیح
بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ e نے فرمایا:
’’مسلمان وہ ہے
جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
حدیث میں پہلے زبان کا ذکر کیا، حالانکہ قوت تو بازو میں ہوتی ہے، وہ اس لیے
کہ زبان سے ملنے والا زخم معنوی، نفسیاتی اور جذباتی لحاظ سے ہاتھ سے ملنے والے
زخم کہیں گہرا اور سخت ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہa فرماتے ہیں:
’’بعض لوگ صرف
تنقید کرتے نظر آتے ہیں، یہ دوسرے گروہوں اور نسلوں کی نیکیاں بھلا دیتے ہیں، مگر
ان کی غلطیاں خوب یاد رکھتے ہیں۔ ان کا حال بالکل مکھیوں کی طرح ہے۔ وہ بھی صحیح
اور تندرست جگہ کو چھوڑ کر زخم اور تکلیف والی جگہ پر بیٹھتی ہیں۔ یہ ان نفس کی
برائی اور مزاج کے فساد کی علامت ہے۔‘‘
ایسے شخص کی رسوائی کتنی سخت ہو گی جس سے لوگ اس ڈر سے بھاگنے لگیں، کہ کہیں
وہ اس کی زبان کی تیزی یا ہاتھ کی چالاکی کی لپیٹ میں نہ آ جائیں۔ اور ایسے شخص کی
کامیابی کے کیا کہنے جو خود کو بھی اذیت نہ دے، اپنے ہمسائے کو بھی نہ دے، اپنے قریب
کسی شخص کو بھی نہ دے، بلکہ کسی مسلمان کو بھی تکلیف نہ دے۔ جو نبی کریم e کی اس حدیث کو یاد
رکھے جس میں آپ e فرماتے ہیں:
’’اے اللہ! اے
زمین وآسمان کو پیدا کرنے والے! کھلی اور چھپی چیزوں کو جاننے والے! تیرے سوا کوئی
الٰہ نہیں! تو ہی ہر چیز کا پروردگار اور مالک ہے۔ میں تیری پناہ میں آتا ہوں،
اپنے نفس کے شر سے، شیطان اور شرک کے شر سے، خود کو یا کسی مسلمان کو برائی میں
ڈالنے سے۔‘‘ (ترمذی)
سنو! کامیاب وہ ہے جو اپنی زبان کو غیبت، چغلی، ذو معنی جملوں اور برے اشاروں
اور کنایوں سے بچا لے، اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ہاتھ کو بھی اذیت رسانی سے محفوظ کر
لے، پھر اپنے دل کو ہر قسم کے کینے اور حسد سے بھی پاکیزہ کر لے، بے سکونی اور
اضطراب پیدا کرنے سے دور ہو جائے، دوسروں پر الزام تراشی سے رک جائے، ان کی غلطیوں
اور لغزشوں کی تاڑ میں نہ رہے۔ انہیں برا کہے اور نہ ان کی مصیبت پر خوش ہو۔ ان کی
باتوں کا بتنگڑ بنائے اور نہ ان کے خلاف لوگوں کو اکسائے۔
یہ پڑھیں: خطبہ حرم مکی .. تاریخ الٰہی سے چند سبق آموز واقعات ..
امام الحرم المکی الشیخ ماہر المعیقلی ﷾
معزز اور سمجھ دار وہ ہے جو اپنے ہاتھوں کو اذیت سے روک لے، خود کسی کو اذیت
نہ دے بلکہ انہیں دوسروں کی اذیت سے بھی بچانے کی کوشش کرے۔
ہشاش بشاش چہرہ لے کر سب سے ملے، اپنی زبان کو بھی قابو میں رکھے اور اپنے
ہاتھ کو بھی لگام دے کر رکھے۔
سنو! اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو۔ ہر شخص خود کو برے لوگوں میں شمار ہونے سے
بچا لے، جن کے بارے میں رسول اللہ e نے فرمایا ہے:
’’قیامت کے دن
اللہ کے ہاں سب سے بد ترین آدمی وہ ہوگا جس کے شر سے بچنے کے لیے لوگ اس سے میل
ملاقات چھوڑ دیں۔‘‘ (بخاری)
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! جان لو کہ
ایک صدقہ ایسا عظیم ہے کہ انسان کو فائدہ بھی پہنچاتا ہے اور بلندی بھی بخشتا ہے،
ایسا صدقہ جس کے لیے مال کی ضرورت بھی نہیں، جس کے لیے جسمانی تگ ودو کی ضرورت بھی
نہیں، زبان ہلانے کی بھی ضرورت نہیں۔ جس میں طاقتور اور ضعیف برابر ہوتے ہیں، جس میں
مال دار اور فقیر یکساں ہوتے ہیں۔ یہ صدقہ دوسروں کو اپنے شر سے بچانے کا صدقہ ہے۔
سیدنا ابو ذرt بیان کرتے ہیں:
میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! کونسا عمل زیادہ افضل ہے؟ آپ e نے فرمایا: ’’اللہ پر ایمان لانا،
اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘ بیان کرتے ہیں: میں نے کہا: کون سے غلام آزاد
کرنا زیادہ افضل ہے؟ آپ e نے فرمایا:
’’جو مالکوں کی نظر میں سب سے پسندیدہ ہو، اور جس کی قیمت زیادہ ہو۔‘‘ بیان کرتے ہیں:
میں نے کہا: اچھا اگر میں یہ نہ کر پاؤں تو؟ آپ e نے فرمایا: ’’کسی کمزور کی مدد کر
دو، یا بے ہنر اناڑی کو کچھ بتا دو۔‘‘ بیان کرتے ہیں: میں نے کہا: اچھا! اگر میں یہ
بھی نہ کر سکوں تو؟ آپ e نے فرمایا:
’’لوگوں کو اپنے شر سے بچا لو۔ کیونکہ یہ بھی تمہاری طرف سے اپنے اوپر ایک صدقہ ہو
گا۔‘‘ (بخاری ومسلم)
یہ پڑھیں: خطبہ حرم مدنی .. چند قابل غور نصیحتیں .. امام الحرم
المدنی الشیخ عبدالمحسن قاسم ﷾
اس بات میں تو کوئی عقلمند شک نہیں کر سکتا کہ برائی رک جانا، بھلائی کی تلاش کا راستہ ہے۔
کہا جاتا ہے: [کما تُدِین تُدانُ] ’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘‘ یہ بھی کہا گیا ہے
کہ [الجزاء من جنس العمل] ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ جو اپنے مسلمان بھائی کو ستائے
گا، اسے بھی تکلیف ہو گی، چاہے وہ جلد ہو یا بدیر۔ امام مالکa فرماتے ہیں:
’’میں نے اہلِ
مدینہ میں ایسے لوگوں کو دیکھا جو بے عیب تھے۔ مگر جب وہ لوگوں کی عیبوں پر نظر
رکھنے لگے، تو ان میں بھی عیب آ گئے۔ میں نے وہاں ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جن میں
عیب موجود تھے، مگر وہ لوگوں کے عیبوں سے خاموش رہے، تو لوگ بھی ان کے عیب بھول
گئے۔‘‘
تو اللہ کے بندو! بچ کر رہو اور چوکنے رہو۔ اذیت رسانی کے برے نتائج تمہیں گھیر
نہ لیں، اذیت رسانی ہلاکت خیز نفس کا نتیجہ ہے، سب نیکیوں پر پانی پھیرنے والا عمل
ہے، جس سے بہت گناہ بھی ہوتا ہے اور عذاب مہین بھی ملتا ہے۔ اللہ اپنے کتابِ محکم
میں فرماتا ہے:
’’جو لوگ اللہ
اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے
اور اُن کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کر دیا ہے۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو
بے قصور اذیت دیتے ہیں اُنہوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے
لیا ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۵۷-۵۸)
سنو! اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! درود وسلام بھیجو ساری مخلوق میں افضل ترین
ہستی پر، انسانوں میں پاکیزہ ترین بشر پر، محمد بن عبد اللہ e پر، صاحبِ حوض کوثر اور شافع مشفع
پر۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں آپ کو یہی حکم دیا ہے۔ فرمایا:
’’اے لوگو جو ایمان
لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔‘‘ (الاحزاب: ۵۶)
اے اللہ! رحمتیں، برکتیں اور سلامتیاں نازل فرما، اپنے بندے اور رسول، محمد e پر جو روشن
چہرے والے ہیں۔ اور چمکتی پیشانی والے ہیں۔ اے اللہ! چاروں خلفائے راشدین سے راضی
ہو جا! ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے، نبی اکرم e کے تمام صحابہ کرام] سے اور تابعینS سے راضی ہو جا!
اور قیامت تک استقامت کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔
یہ پڑھیں: خطبہ حرم مکی ... بہترین نصیحت ... امام الحرم المکی الشیخ
عبداللہ عواد الجہنی ﷾
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما! اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو
عزت عطا فرما! اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما! اے اللہ! اپنے دین،
اپنی کتاب، سنت رسول اور اپنے مؤمن بندوں کی مدد فرما! اے اللہ! ہمیں ہمارے ملکوں
میں امن نصیب فرما! ہمارے حکمرانوں اور اماموں کی اصلاح فرما! اے پروردگار عالم!
ہماری حکمرانی ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دے جو تجھ سے ڈرنے والے اور پرہیز گار ہوں
اور اے پروردگار عالم! جو تیری خوشنوی کے طالب ہوں۔ اے اللہ! ہمارے حکمران کو ان
کاموں کی توفیق عطا فرما جن سے تو خوش اور راضی ہوتا ہے۔ اے اللہ! اے زندہ وجاوید!
اچھے اقوال اور اچھے اعمال کی توفیق عطا فرما! اے اللہ! ہمارے دین کی اصلاح فرما
جس پر ہمارے معاملات کا دار ومدار ہے۔ ہماری دنیا کی اصلاح فرما جس میں ہمارا
روزگار ہے۔ ہماری آخرت کی اصلاح فرما جس کی طرف ہم نے لوٹنا ہے۔
ہماری زندگی کو نیکیوں میں اضافے کا ذریعہ بنا اور موت کو ہر برائی سے نجات کا
سبب بنا۔ اے اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں
ایسی نعمتوں کا جن کا کوئی اختتام نہیں، ایسی آنکھوں کی ٹھنڈک کا، جو کبھی ختم نہیں
ہوتی۔ اور تیرے چہرۂ اقدس کے دیدار کی لذت چاہتے ہیں، تیری ملاقات کا شوق وجذبہ
مانگتے ہیں، کسی نقصان کے بغیر اور ہر قسم کے گمراہ کن فتنے سے محفوظ رہ کر۔ اے رب
ذو الجلال!
’’اے ہمارے
پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی! اور آگ کے عذاب
سے ہمیں بچا۔‘‘ (البقرۃ: ۲۰۱)
اللہ کے بندو!، اللہ عظیم وجلیل کو یاد کرو، وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اس کی
نعمتوں اور نوازشوں کا شکر ادا کرو، وہ تمہیں مزید عطا فرمائے گا۔ اللہ کا ذکر تو
سب سے بڑی چیز ہے۔ اور اللہ آپ کے اعمال سے باخبر ہے۔