وفاؤں کا پیکر تھا جو چل بسا ہے
تحریر: جناب پروفیسر
عتیق اللہ عمر
ہنستا مسکراتا چہرہ، وجیہ شکل دین داروں سے محبت، ایماندار تاجر، سادہ اور
ستھرا سیاستدان‘ یہ ہیں مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے ناظم مالیات حاجی
عبدالرزاقa قیام پاکستان
سے پہلے گوجرانوالہ سیالکوٹ کے علاقوں میں ابتدائی زندگی گذارنے کے بعد ۱۹۵۴ء کے اندر لاہور میں آباد ہوئے اور پھر باقی عمر یہیں گذاری۔ ابتدائی تعلیم
آبائی علاقوں سے حاصل کی۔ تجارت کا مشغلہ بھی آبائی طور پر منتقل ہوا۔ ۸۴ سال کی بھرپور زندگی گذارنے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
یہ پڑھیں: عظمت وسادگی کا پیکر ... پروفیسر عبدالرحمن لدھیانویa
سچی بات یہ ہے اس جہاں میں آنے والے انسانوں کی تو کوئی خبر نہیں کہ کون کتنا
بڑا اور کتنے اہم کردار کا مالک چلا آیا ہے لیکن جاتے ہوئے انسان بہت ساری کہانیاں
چھوڑ جاتے ہیں۔ ہم رہ جانے والوں کے لئے جہاں ان کی موت سب سے بڑی عبرت ہوتی ہے
وہاں ان کی زندگیوں سے سیکھنے کے لیے بہت سا سامان بھی موجود ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر انسان
انسانوں سے سیکھنا شروع کردیں تو انسانوں کے بہت سارے مسائل خود بخود حل ہوجائیں۔
حاجی عبدالرزاق مرحوم رحمۃ اللہ علیہ کو میں عرصہ ۲۳ سال سے جانتا ہوں۔میری ان کے ساتھ تین طرح کی نسبتیں ہیں سب سے پہلے تو یہ کہ
وہ جماعت کے ساتھ تھے اور میرا ان کا پہلا تعلق بھی یہی تھا۔بعد ازاں ان کا ایک
صاحب زادہ حافظ حفیظ الرحمن میرے پاس ابوہریرہ اکیڈمی لاہور میں تعلیم بھی حاصل
کرتا رہا اور تیسری نسبت یہ بنی کہ میری رہائش لاہور ٹاؤن شپ میں ہے تو حاجی صاحب
محترم کے بیٹوں کا کاروبار میرے پڑوس میں ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات یہاں قریب
مسجد میں ان سے ملاقات ہو جاتی تھی۔
میں پوری ایمانداری کے ساتھ اگر ان کی زندگی کے ان ۲۳ سالوں کا کا تجزیہ کروں جو میری آنکھوں کے سامنے گذرے ہیں تو یقین جانیے ایک
بہت خوبصورت انسان جو خوش شکل بھی خوش گفتار بھی خوش کردار بھی اور خوش مزاج بھی
اتنی خوشیاں جب ایک جگہ اکٹھی ہوتی ہیں تو وہ سوائے اللہ کی رحمت کے کچھ نہیں
ہوتا۔
یہ پڑھیں: شیخ القراء قاری محمد یحییٰ رسولنگریa
حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کو اگر ایک سبق کے طور پر دیکھا جائے
تو سیکھنے کے لائق بہت کچھ ہے۔ میرے خیال میں ان کی سب سے بڑی خوبی ان کا پانچ وقت
کا نمازی ہونا تھا اور عام نمازی نہیں بلکہ پختہ نمازی ان کے اپنے بقول یہ عادت
بچپن سے انہیں اپنے والد محترم سے ملی تھی اور آج ہم یہ بات سمجھ لیں کہ کیا ہم
بھی اپنے پیچھے کچھ ایسا ورثہ چھوڑ کے جا رہے ہیں کہ جو ہماری نسلوں کو نماز سے
جوڑے رکھے۔
قارئین کرام! بڑی خبر دار کر دینے والی بات یہ
ہے کہ اگر میں نماز پڑھتا ہوں تو اس کا فائدہ صرف میری ذات کو نہیں بلکہ میری
نسلوں کو ہے اور مجھے اس کا صدقہ جاریہ قبر تک ملتا رہے گا اور خدانخواستہ اگر
معاملہ اس کے الٹ ہے تو بھی نقصان اتنا ہی زیادہ ہے۔
دوسری اہم خوبی تجارت میں ان کی ایمانداری تھی پیسہ ایک ایسی چیز ہے جو بڑے
بڑوں کا ایمان لرزا دیتا ہے۔حاجی صاحبa اس میدان میں
بھی پاک پاکیزہ نظر آئے ۲۳ سال سے میں
حلفاً کہہ سکتا ہوں کبھی ان کی دیانت داری پر کوئی حرف نہیں سنا اور جماعت میں وہ
عرصہ ۳۵ سال تک ناظم مالیات رہے۔ بلاشبہ یہ بھی بہت بڑا امتحان تھا
لیکن کبھی کوئی مالی سیکنڈل تو دور کی بات ایک روپے کے ہیر پھیر کی بات بھی نہ سنی
گئی اور یہ بھی اللہ کی رحمت کے سوا ممکن نہیں ہے۔
یہ پڑھیں: علوم اسلامیہ کا سائباں جو اُٹھ گیا ... پروفیسر عبدالرؤف
ظفر a
حاجی صاحبa کی تیسری بڑی
خوبی جماعت کے ساتھ بے لوث وابستگی ہے بہت سے لوگوں کو رنگ بدلتے دیکھا لیکن سچی
بات ہے تقریبا ۳۸ سال سے جماعت کا ایسا ساتھ نبھایا کہ وفاؤں کے پیکر بن گئے
اگر جماعتی زندگی میں کسی نے وفا سیکھنی ہو تو وہ حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی
زندگی کو ضرور دیکھے۔
مرحوم کی چوتھی خوبی جو اس وقت میرے سامنے ہے وہ اطاعت امیر ہے۔ عمر میں شاید
امیر محترم کے قریب تر تھے دولت میں بہت بڑے تھے سیاست میں اچھی جگہ پر تھے لیکن
اس کے باوجود پوری جماعتی زندگی کے دوران ایک مؤدب کارکن کی طرح موجود رہے ہم نے
بہت سارے اطاعت امیر کے دعویداروں کو بہت ساری جگہوں پر حکم عدولی کرتے دیکھا ہے لیکن
حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے حکم عدولی تو دور کی بات ہے یقین جانیے کبھی
کوئی ایک جملہ نہیں ایک لفظ بھی ایسا نہیں سنا جو اطاعت امیر کے خلاف ہو۔
پانچویں چیز جو قارئین کرام میں آپ سے شیئر کرنا چاہوں گا وہ ان کی خوش طبعی۔
پیرانہ سالی کے باوجود مشکل ترین شعبے کو نبھاتے ہوئے بھی ان کے ماتھے پر بہت کم
شکن دیکھی گئی چھوٹے کارکنوں کو بھی اپنے بیٹے بچوں کی طرح دیکھتے حوصلہ افزائی
کرتے ہمت بندھاتے اور کبھی پروٹوکول نام کی کوئی چیز ان کو چھو کے نہ گذری۔
یہ پڑھیں: حیات وخدمات ... حافظ صلاح الدین یوسفa
حاجی عبدالرزاقa آج اپنے رب کے
مہمان ہیں لیکن ان کی زندگی کی سب سے بڑی گواہی ان کا جنازہ تھا میں نے بڑے بڑے
علماء کے جنازہ بھی پڑھے ہیں لیکن شاید جنازوں کی اتنی بڑی حاضری کم لوگوں کے نصیب
میں آتی ہے اور مجھے ایک اور بات جو بہت اچھی لگی اور جس کا تذکرہ بالخصوص یہاں
کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ ان کا جنازہ ان کے صاحبزادے نے خود پڑھایا اور کیا خوب
پڑھایا خدا کرے سبھی کی اولاد اتنی فرمانبردار اور دین دار ضرور ہو کہ وہ اپنے
جانے والے والدین کا کم از کم جنازہ تو پڑھا سکیں۔
قارئین کرام!یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے کیونکہ جتنے درد دل کے ساتھ بیٹا جنازہ
پڑھا سکتا ہے شاید کوئی بہت بڑا امام بھی نہیں پڑھا سکتا۔ کیوں کہ جو دردا سے ہوا
کوئی دوسرا محسوس بھی نہیں کر سکتا۔
قارئین کرام ۲۰۲۰ء کے سال کو اگر عام الحزن کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا کیونکہ بہت سارے ذاتی
اور جماعتی عزیز رشتہ دار اور قریبی رخصت ہوگئے اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے کہ اسی
غم کے سال میں میں نے اپنی ماں کو کھو دیا۔
یہ پڑھیں: تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اب صرف دعا یہی ہے اللہ تعالیٰ جانے والوں کی اگلی منزلیں آسان فرما۔ انہیں کروٹ کروٹ اپنی رحمت کے سائے تلے جنت
الفردوس کے اعلی درجے نصیب فرما۔ اور ہم رہ جانے والوں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ
بنے کی توفیق عطا فرما۔ ہمیں یہ صدمے برداشت کرنے کی توفیق بھی دے صبر بھی دے اور
اجر بھی دے اور کل روزقیامت ہم سب کو پہلے حوض کوثر اور پھر جنت کے باغ و بہار میں
اکٹھا بھی فرما اب تو بس اسی کا انتظار ہے!