ماں باپ سے حسن سلوک
تحریر: جناب حافظ
بشارت اللہ
ان کے دل میں اللہ
رب العالمین نے ایک دوسرے کے ساتھ رحم وکرم کرنے کا مادہ رکھا ہے جس کی وجہ سے انسان
دنیا میں ایک دوسرے سے الفت ومحبت‘ پیار‘ دلجوئی اور دل لگی کرتا ہے اور عزت واحترام
سے پیش آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور رسول اللہe کی اطاعت کے بعد انسانی رشتوں
میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔ اللہ تعالیٰ والدین کے ساتھ پیار ومحبت‘ رحم وکرم سے
پیش آنے کا حکم فرماتا ہے‘ چونکہ وہ خود ارحم الراحمین ہے‘ اسی رحم کا کچھ حصہ اس نے
اپنے بندوں میں بھی تقسیم کر دیا ہے جس کی وجہ سے انسان آپس میں ایک دوسرے سے الفت
ومحبت‘ رحم وکرم‘ عزت واحترام سے پیش آتے ہیں۔
یہ پڑھیں: سورۂ فاتحہ کے شروع میں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا (پہلی قسط)
یہ مادہ اللہ تعالیٰ
نے جانوروں‘ حیوانوں‘ درندوں اور پرندوں میں بھی رکھا ہے‘ جانوروں میں دیکھیے کہ کتے
اپنے بچوں سے اور بچے بچپن میں اپنے ماں باپ سے پیار ومحبت کرتے ہیں‘ لیکن انسانوں
اور جانوروں کی محبت میں فرق ہے کہ جانوروں کی اولاد اپنے والدین سے صرف چند دنوں کے
لیے محبت کرتی ہیں‘ لیکن جیسے ہی وہ کھانے‘ پینے اور کھیلنے کودنے کے قابل ہو جاتے
ہیں تو ان کی یہ رشتہ داری ختم ہو جاتی ہے اور بعد میں انہیں یہ پتہ بھی نہیں چلتا
کہ ان کے ماں باپ کون ہیں؟ اسی طرح پرندوں اور دیگر مخلوقات کا بھی یہی حال ہے۔ غور
کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ تمام ایک دوسرے سے محبت تو کرتے ہیں لیکن خاطر وتواضع‘ خدمت
اور بڑھاپے میں دیکھ بھال نہیں کر سکتے‘ جس طرح انسان کرتے ہیں۔
انسان کو یہ نہیں
بھولنا چاہیے کہ اس کے اس دنیا میں آنے کا ذریعہ اس کے ماں باپ ہیں‘ اس کے وجود کا
ذریعہ اس کے ماں باپ ہیں‘ اس کے حسن تربیت کا ثمرہ اس کے ماں باپ ہیں‘ اس کے نہایت
ہی تندرستی والے بدن کا ملجا اس کے ماں باپ ہیں۔
ماں باپ اپنی زندگی
میں بچے کے ابتدائی مراحل سے لے کر اس دار فانی سے کوچ کرنے کے درمیانی وقت میں جب
بھی اس کو کوئی تکلیف یا پریشانی لاحق ہوتی ہے یا وہ ذرا سی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے
تو ماں باپ اپنے بچے کے بارے میں بہت فکر مند ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھار یہ فکر ان
کی راتوں کی نیند چھین لتیی ہے اور دل کا سکون وقرار اڑا دیتی ہے اور کھانا حلق سے
نیچے اترنا بھی ان کے لیے مشکل امر بن جاتا ہے۔ اس بے وفا اور دھوکہ کی دنیا میں انسان
کے لیے ایک ماں باپ ہی ہیں جو اپنے بچوں کے بارے میں کبھی بھی برا نہیں سوچتے اور نہ
ہی کبھی ان کا برا ہونے دیتے ہیں اور کبھی کبھار اپنی خواہشات پر بچوں کی خواہش کو
ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح اس کے ساتھ خوشی وغمی کے لمحات گزارنے کے بعد اور تمام معاملات
یکجا کرنے کی صورت میں اس سے محبت میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے اور کیوں نہ ہو
ماں نے جو اسے نو ماہ پیٹ میں رکھا اور اس کو جنا اور دودھ پلایا اور باپ برابر اس
کا ساتھ دیتا رہا‘ عورت کے حالت حمل کے نازک پن کا خیال کرتا رہا اور وضع حمل (پیدائش
کے وقت) ماں جسمانی تکلیف کو برداشت کرتی رہی تو باپ اس کے وسائل کے بارے میں کوشش
کرتا رہا اور پیدائش کے بعد دودھ کی ذمہ داری ماں کی تھی تو باپ اس بچے کے دودھ کے
خرچ کا ذمہ دار قرار پا کر حق نبھاتا رہا۔
بھلا بتائیے! جب
انسان کے پیدائش سے لے کر اس کے بڑا ہونے تک اس کی پرورش ودیکھ بھال اور تربیت میں ماں باپ کا اتنا بڑا کردار اور رول ہے
تو کیوں نہ ان کے اس احسان کو اولاد ان کے بڑھاپے میں یاد کر کے ان کے ساتھ حسن سلوک
کرنے کے مستحق قرار پائیں؟
اسی احسان کو اللہ
رب ذوالجلال والاکرام نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے اور یہ بھی کہا
ہے کہ حقوق اللہ کی ادائیگی کے بعد والدین حسن سلوک کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔
یہ پڑھیں: سورۂ فاتحہ کے شروع میں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا
آیات
قرآنی:
’’اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ
کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک واحسان کرو۔‘‘ (النسآء: ۳۶)
مذکورہ آیت کریمہ
میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور شرک کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن
سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ یعنی انسان حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد میں پہلے اپنے ماں
باپ کے حقوق کو ادا کرے۔
دوسری جگہ اللہ
تعالیٰ نے قوم موسیٰ‘ بنی اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا کہ تم
اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔‘‘ (البقرہ:
۸۳)
سابقہ امت بنی اسرائیل
کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا تھا اور عہد بھی لیا گیا تھا اور
ہمیں (امت محمدیہ) کو بھی حکم دیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بعد والدین کی
اطاعت وفرمابرداری کریں۔
’’آپ کہہ دیجیے کہ آؤ میں تم کو وہ چیزیں پڑھ
کر سناؤں جن (کی مخالفت) کو تمہارے رب نے تم پر حرام کیا ہے‘ وہ یہ ہیں کہ اللہ کے
ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو۔‘‘ (الانعام: ۱۵۱)
’’اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ
تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا‘ اگر تیری موجودگی
میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا‘ نہ انہیں
ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے
ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار!
ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا کہ انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل:
۲۳)
’’اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق
(حسن سلوک کی) نصیحت کی ہے‘ اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اُٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور
اس کی دودھ چھڑائی دو برس ہے‘ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر (تم سب کو)
میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘ (لقمان: ۱۴)
’’اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن
سلوک کا حکم دیا ہے‘ اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت
کر کے اسے جنا‘ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے۔ یہاں
تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا کہ اے میرے پروردگار!
مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں
باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری
اولاد بھی صالح بنا۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘ (الاحقاف:
۱۵)
یہ پڑھیں: عورت کا استحصال ... ایک معاشرتی بگاڑ
احادیث
نبویہ:
سیدنا عبداللہ بن
مسعودt بیان کرتے ہیں کہ
میں نے نبی اکرمe
سے دریافت کیا‘ اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب
عمل کونسا ہے؟ آپe نے فرمایا: [الصلاۃ علی وقتہا]
’’نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا۔‘‘ میں نے پوچھا پھر کونسا؟ آپe
نے فرمایا: [بر الوالدین] ’’والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔‘‘
(بخاری ومسلم)
اس حدیث میں اللہ
کے نزدیک پہلا محبوب عمل اللہ تعالیٰ کی عبادت ذکر کیا گیا ہے‘ یعنی اللہ کی عبادت
(فرض) نماز کو اس کے اول وقت میں ادا کرنے کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک‘ والدین
کی خدمت‘ والدین کے آرام وراحت‘ والدین کے ساتھ خیر خواہی کرنا ہے۔
معاویہ بن جاہمہ
السلمی فرماتے ہیں کہ جاہمہ نبی کریمe کے پاس آئے اور کہا‘ اے اللہ
کے رسول! میں جہاد کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے مشورہ لینے آیا ہوں؟ آپe
نے فرمایا: ’’کیا تمہاری ماں ہے؟‘‘ انہوں نے کہا ہاں‘ آپe
نے فرمایا: [الزمہا فان الجنۃ عند رجلیہا] اسے
لازم پکڑو (اس کی خدمت کرو) کیونکہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے۔‘‘ (صحیح نسائی: ۲۹۹۸)
سیدنا ابوہریرہt
نے بیان کیا ہے کہ ایک صحابی رسولe کی خدمت میں حاضر ہوئے اور
عرض کیا کہ
یا رسول اللہ! میرے اچھے سلوک کا سب سے
زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا کہ ’’تمہاری ماں‘‘ پھر پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ فرمایا
کہ ’’تمہاری ماں۔‘‘ انہوں نے پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ آپe نے فرمایا کہ ’’تمہاری ماں۔‘‘
پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ تب آپe نے فرمایا: ’’پھر تمہارا باپ۔‘‘
(بخاری‘ الادب‘ باب من احق الناس بحسن الصحبۃ: ۵۹۷۱)
معلوم ہے کہ ماں‘
باپ سے تین گنا زیادہ حسن سلوک کی مستحق کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ حمل‘ وضع حمل
اور دودھ پلانا۔ یہ تینوں مشقتیں ماں کے ساتھ ہی خاص ہیں‘ باپ کا ان سے کوئی تعلق ہی
نہیں۔
سچ کہا ہے کسی نے:
ماں کی دعا خالی نہیں جاتی
اس کی بد دعا بھی ٹالی نہیں جاتی
برتن مانجھ کر بھی ماں
تین چار بچے پال ہی لیتی ہے
مگر تین چار بچوں سے
ایک ماں پالی نہیں جاتی
یہ پڑھیں: پاکستانی حجاج کے مسائل اور سعودی وژن
صحابہ کرامؓ کا
اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک:
سیدہ اسماء بنت
ابی بکرw بیان کرتی ہیں کہ ’’فتح مکہ
کے موقع پر نبی کریمe جب مسجد حرام میں تشریف لائے
تو سیدنا ابوبکرt اپنے والد سیدنا ابوقحافہt
کو لے کر حاضر خدمت ہوئے‘ جب رسول اللہe
نے انہیں دیکھا تو سیدنا ابوبکرt سے فرمایا: ’’تم نے اپنے بوڑھے
باپ کو گھر ہی میں کیوں نہ رہنے دیا؟ میں خود ان کے پاس آتا۔‘‘ سیدنا ابوبکرt
نے جواب دیا‘ اللہ کے رسول! آپ کے جانے کے مقابلہ میں ان کا حق زیادہ
تھا کہ وہ خود آپ کے پاس آئیں‘ پھر نبی کریمe نے ان کے والد کو اپنے سامنے
بٹھایا اور ان کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور ان سے فرمایا: [اسلم] ’’اسلام قبول کر
لو‘ چنانچہ انہوں نے مسلمان ہونا قبول کر لیا۔ (مسند احمد: ۶/۳۴۹)
سیدنا عبداللہ بن
عمرw سے روایت ہے‘ وہ فرماتے ہیں:
میری ایک بیوی تھی‘ مجھے اس سے بہت محبت
تھی جبکہ سیدنا عمرt کو اس سے نفرت تھی‘ انہوں نے
مجھ سے فرمایا: ’’اسے طلاق دے دو۔‘‘ میں نے انکار کر دیا‘ تب سیدنا عمرt
نبی اکرمe کی خدمت میں حاضر ہوئے اور
اس بات کا ذکر کیا۔ آپe نے مجھ سے فرمایا: ’’اسے طلاق
دے دو۔‘‘ چنانچہ میں نے اسے طلاق دے دی۔ (ترمذی‘ باب ما جاء فی الرجل یسألہ ابوہ ان
یطلق زوجتہ: ۱۱۸۹)
اگر والدین کا حکم
طلاق‘ دینی واخلاقی بنیادوں پر یا کسی معقول عذر کی بنا پر ہو تو اس حکم کی اطاعت ضروری
ہے‘ اگر اس کے اسباب کچھ اور ہوں تو پھر والدین کو ادب واحترام سے سمجھایا جائے تا
کہ وہ بھی راضی ہو جائیں اور خواہ مخواہ عورت پر بھی ظلم نہ ہو۔
سیدنا عبداللہ بن عمروw
سے روایت ہے‘ نبی کریمe نے فرمایا: ’’رب کی رضا مندی
والدین کی رضا مندی میں ہے اور رب کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔‘‘ (ترمذی:
۱۸۹۹۔
السلسلۃ الصحیحۃ: ۵۱۶)
اس حدیث سے ثابت
ہوا کہ انسان اگر والدین کے ساتھ حسن سلوک کر کے انہیں خوش کر دے گا تو اس سے صرف والدین
ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ بھی خوش ہو جاتا ہے اور اگر انسان والدین کی نافرمانی کر
کے ان کو دکھ دے گا‘ ناراض کر دے گا تو اس سے رب العالمین کی ناراضی بھی اس انسان کے
حق میں آئے گی۔
ماں باپ بڑھاپے
میں اپنی اولاد سے امید رکھتے ہیں کہ ان کی اولاد ان کا ویسے ہی خیال رکھے گی جیسے
انہوں نے بچپن میں ان کا خیال رکھا‘ اولاد اگر نیک بخت ہوتی ہے تو ماں باپ کو اپنی
یہ امید پوری ہوتی دکھائی دیتی ہے اور اگر اولاد بد بخت نکلتی ہے تو بے چاروں کو اس
وقت اپنی قسمت پر آنسو بہانا کچھ کام نہیں دیتا۔
یہ پڑھیں: جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ
اللہ تعالیٰ تمام
مسلمان‘ خصوصاً شادی شدہ نوجوانوں کو ماں باپ کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے اور ماں
باپ کی آخری سانسوں تک ان کی نیک دعاؤں کے سایہ تلے زندگی گزارنے کی ہمیں توفیق عطا
فرمائے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment