اسلامیات کے نصاب کا جائزہ
(پہلی قسط) تحریر: جناب سید حامد الرحمن شاہ
پاکستان ایک اسلامی
اور نظریاتی مملکت ہے اور مسلمانان پاکستان کا اس بات پر ایمان ہے کہ اسلام ایک مکمل
ضابطہ حیات اور جامع نظام زندگی ہے۔ ہماری فلاح و کامیابی اور ہمارے ملک کی ترقی و
خوشحالی اسی نظام زندگی پر عمل کرنے میں مضمر ہے۔ ہم تقریباً دو سو سال غیر مسلموں
کے زیر تسلط رہے ہیں جن کی بناء پر ہم ہر شعبہ زندگی میں ان سے متاثر ہوئے ۔ ہمارا نظام تعلیم بھی اس قدر متاثر ہوا کہ ہم اب
تک اس کو اسلامی سانچے میں نہیں ڈھال سکے اور ہماری نوخیز نسل کو بھی اس نے مذہبی اور
اخلاقی اعتبار سے متاثر کیا ۔ اس لیے یہ ضروری ہو گیا کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو صحیح
اسلامی تعلیمات سے روشناس کرا سکیں ۔ اور ان کی تعلیم و تربیت کی طرف اس انداز سے توجہ
دیں کہ وہ دین کے سچے داعی بن سکیں ۔
یہ پڑھیں: جانور خصی کرنا ... احکام ومسائل
اسلام کا نظام تعلیم
و تربیت اس نقطہ نظر کے گرد مرتب ہونا ہے کہ یہ نظام ہدایت اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ
ہے اور نبی کریمﷺ کے ذریعے انسانیت تک پہنچا ہے اس لیے راقم نے اپنے موضوع تحقیق میں
ان تمام پہلوؤں کا تفصیل سے ذکر کیا ۔
آزاد کشمیر کے
سرکاری مدارس کی کلاس ششم تا ہشتم میں جو اسلامیات کا نصاب پڑھایا جاتا ہے اس کا تفصیلی
مطالعہ کر کے اپنے مقالہ کو اس قابل بنانے کی کوشش کی ہے کہ آنے والی نوجوان نسل اور
خصوصاً وسطانوی مدارس کے طلبا ء کو فائدہ پہنچے۔
اللہ تعالیٰ زندہ،
قیوم اور رحمت و شفقت کی ارزانیوں کا سر چشمہ اور مصور ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں
سے تعلق، بیگانگی اور اجنبیت کا نہیں بلکہ پیار اور محبت کا ہے۔ وہ ذات دنیا میں انسان
کی اصلاح اور تدبیر کا اہتمام کرتی ہے ۔
﴿وَ كَذٰلِكَ اَوْحَيْنَاۤ
اِلَيْكَ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَ مَنْ حَوْلَهَا وَ تُنْذِرَ
يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيْهِ١ؕ فَرِيْقٌ فِي الْجَنَّةِ وَ فَرِيْقٌ فِي السَّعِيْرِ۰۰۷﴾
(الشورٰی)
’’اسی طرح اے نبی e یہ قرآن عربی ہم نے تمہاری
طرف وحی کیا ہے۔ تاکہ آپ e بستیوں کے مرکز (شہر مکہ )اور
اس کے گرد وپیش رہنے والوں کو خبر دار کریں اور جمع ہونے کے دن سے ڈرائیں جس کے آنے
میں کوئی شک نہیں۔ ایک گروہ کو جنت میں جانا ہے اور دوسرے گروہ کو دوزخ میں۔‘‘
قرآن کریم وہ پہلا
دینی صحیفہ ہے جس نے نہ صرف نوع انسانی کو زندگی کا بہترین سانچہ بخشا بلکہ یہ بھی
بتایا کہ اس کا سابقہ ادیان سے کیا رشتہ ہے اور انبیاءo اور کتب سابقہ کے بارے میں
کیا موقف ہے ۔
﴿اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ
لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ
دِيْنًا﴾ (المآئدۃ)
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر
دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت
سے پسند کر لیا ہے ۔ ‘‘
اسلام کی تکمیل‘
حضورe کی بعثت‘ ان پرآخری کتاب قرآن
کریم کے نزول کے ساتھ ہوئی ۔ رسول اللہ e کو منصب نبوت عطا فرمانے کے
بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر جو پہلی وحی نازل فرمائی وہ سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات
ہیں۔
’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا جمے ہوئے
خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی ، پڑھو اور تمہار ا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم
کے ذریعے علم سکھایا انسان کو وہ علم دیا جو وہ نہ جانتا تھا۔ ‘‘
وحی اور ایحاء عربی
زبان کے الفاظ ہیں اور لغت میں ان کے معنی ہیں جلدی سے کوئی اشارہ دیناخواہ یہ اشارہ
رمز اور کنایہ استعمال کر کے کیا جائے خواہ کوئی بے معنی آواز نکال کر خواہ کسی عضو
کو حرکت دے کر یا تحریر ، نقوش استعمال کر کے ، ہر صور ت میں لغۃً اس پر یہ الفاظ صادق
آتے ہیں ۔
یہ پڑھیں: نبی کریمﷺ سے مشابہت رکھنے والے خوش نصیب افراد
وحی کی تعلیمات:
وحی اور ایحاء عربی
زبان کے الفاظ ہیں اور لغت میں ان کے معنی ہیں جلدی سے کوئی اشارہ کرنا ۔
الایحاء : خفیہ اشارہ کرنا
الموحی : وحی بھیجنے والا ، خفیہ اشارہ کرنے والا
الموحی لہ والیہ: جس کے پاس وحی آئی ہو ، پیغام آیا ہو۔
الوحی: دوسرے کو
دیا جانے والا اشارہ یا پیغام‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے پیغمبر e
کو القاء کیا جانے والا پیغام ، اشارہ خفی ، الہام
لوحاء: جلدی کرانے کے لیے کہتے ہیں
الوحاء: جلدی کرو جلدی کرو۔ (وحید الزمان، مولانا، القاموس
الوحید، ادارہ اسلامیات، پبلشرز بک سیلرز، ایکسپوٹرز، لاہور، اشاعت اول:1422ھ، 2001ء)
وہ وحی جو اللہ
تعالیٰ کی طرف سے انبیاءo کے ساتھ مخصوص ہے اس کی تشریح
صاحب المنار نے یوں کی ہے:
[وحی اللہ الیٰ انبیائہ ھو مایلقیہ الیھم من العلم
الضروری الذی یخفیہ عن غیر ھم بعد ان یکون اعد ارواحہم لتلقیہ بواسطۃ
او بغیر واسطۃ]
(المنار مطبوعہ مصر ج: 68:6)
’’وہ وحی جو اللہ تعالیٰ اپنے انبیاءo
کی طرف کرتا ہے اس سے مراد علم ضروری ہے جو من جانب الٰہی انبیاء
کے دلوں میں پیدا کر دیا جاتا ہے جس کو دوسرے لوگوں سے مخفی رکھا جاتا ہے اور اس وحی
کے القاء سے پہلے انبیاء کی ارواح میں ایسی استعداد پیدا کردیتا ہے چاہیے وہ وحی فرشتے
کے واسطے ہو یا بغیر کسی واسطہ کے۔‘‘
سورۃ بقرۃ کی ایک
آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمe کے درج ذیل فرائض نبوت کا ذکر
فرمایا ہے
1 اللہ تعالیٰ کی آیات تلاوت کرنا
2 کتاب اللہ کی تعلیم دینا
3 حکمت کی تعلیم دینا
4 مومنوں کو پاک کرنا
وحی کے ذریعے بندوں
کو ان باتوں کی تعلیم دی جاتی ہے جو وہ محض اپنی عقل اور حواس سے معلوم نہ کرسکیں۔
یہ پڑھیں: ولادتِ مصطفیٰﷺ اور بعثت کے مقاصد
حضورﷺ پر وحی کے
طریقے :
تاریخی لحاظ سے
عالم انسانیت کے تہذیبی ارتقاء پر نظر ڈالیے تو معلوم ہو گا کہ اس کی تمام تگ و دو
اور کامرانیوں کا حاصل ہمیشہ دو چیزیں رہی ہیں ایک کوشش جو تلاش حقیقت کے سلسلے میں
عقل و خرد کے بل بوتے پر اس نے از خود انجام دی۔
دوسرا اور بڑا فیضان
ربوبیت کا وہ کرشمہ جس نے ہر دور میں روحانی اور اخلاقی سطح کو رفعتیں عطا کیں اور
وحی اور الہام کی دست گیری کی۔
اللہ تعالیٰ نے
جب اس روئے زمین پر انسان کو آباد کیا تھا اس وقت سے ہی انسانیت کی ہدایت اور فلاح
و بہبود کے لیے انبیاءo کو معبوث فرمایا ۔ اپنی مخلوق
میں خاص کر انسان کو پیدا فرما کر یوں ہی نہیں چھوڑدیا کہ یہ صدیوں زندگی کے تضادات
سے نبرد آزما ہوتا رہے ۔ محنت ، تجربہ اور عقل و خرد کی کاوشوں سے اپنے لیے راہ عمل
دریافت کرے ۔
اگر ایسا ہوتا تو
اس کا یہ نتیجہ نکلتا کہ انسان آج بھی غاروں یا جنگلوں اور صحرائوں میں بھٹکتا پھرتا
اور تہذیب وتمدن سے قطعی محروم رہتا ۔ یہ اس ذات باری تعالیٰ کا کرم بے پایاں اور عنایت
ہے کہ اس نے تہذیب و ترقی اور اصلاح و تعمیر کے عمل کو انبیاء و رسل کے ذریعے تیز تر
کر دیا اور فکر و عمل کی ان تمام گہرائیوں کو جو خود ساختہ تھیں سے انسان کو بچا لیا
جو ممکن تھا کہ زندگی کے کسی موڑ پر اس کے لیے تباہ کن ثابت ہونگی۔
وحی متلو اور غیر
متلو :
ہمارے پیارے نبی
حضرت محمد e پر جو وحی نازل ہوئی وہ دو
قسم کی تھی:
وحی متلو: قرآن
کریم کی آیات جن کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھے اور جو قرآن
کریم میں ہمیشہ کے لیے اس طرح محفوظ کر دئے گئے کہ ایک نقطہ بھی نہ بدلا جا سکا ہےاور
نہ بدلہ جا سکتا ہے ۔ اس وحی کو علماء کی اصطلاح میں وحی متلو کہتے ہیں یعنی وہ وحی
جسکی تلاوت کی جاتی ہے ۔
وحی غیر متلو: اس
وحی کو کہتے ہیں جو قرآن کریم کا جز نہیں لیکن اس کے ذریعے سے آپe
کو بہت سے احکام عطا فرمائے گے ہیں ۔
عموماً وحی غیر
متلو یعنی قرآن کریم میں اسلا م کے اصولی عقائد اور بنیادی تعلیمات کی تشریح ہے۔ ان
تعلیمات کی تفصیل اور جزوی مسائل زیادہ تر وحی غیر متلو کے ذریعہ عطا فرمائے گئے ہیں
۔ یہ وحی غیر متلو صحیح احادیث کی شکل میں محفوظ ہے ۔ اور اس میں عموماً صرف مضامین
وحی کے ذریعے آپ e پر نازل کئے گئے ہیں۔
ان مضامین کو تعبیر
کرنے کے لیے الفاظ کا انتخاب آپ e نے خود فرمایا۔
[اوتیت القرآن و مثلہ معہ] (سنن ابی داؤد، کتاب السنہ،
بابی لزوم سنہ، حدیث: 4604، ج: 7، ص: 13)
’’مجھے قرآن بھی دیا گیا اور اس کے ساتھ اس جیسی
دوسری تعلیمات بھی ۔‘‘
صیح بخاری شریف
کی ایک حدیث میں سیدہ عائشہ صدیقہr فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت
حارث بن ہشام نے آنحضرت e سے پوچھا کہ آپe
پر وحی کس طرح آتی ہے تو آپe نے فرمایا:
[احیانا یا تینی مثل صلصلۃ الجرس و ھو اشدہ علی فیفصم
عنی و قد وعیت عنہ ما قال واحیا نا یتمثل الملک رجلا فیکلمنی فاعی مایقول.] (الجامع
الصیح، محمد بن اسماعیل البخاری، کتاب الوحی، باب: کیف کان بدء الوحی، الی رسول اللہﷺ،
دار طوق النجاۃ، الطبعۃ الاولیٰ، حدیث: 2، ج:
1، ص: 6، س ا: 1422ھ)
’’کبھی مجھے گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے
اور وحی کی یہ صورت میرے لیے سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے۔ پھر جب یہ سلسلہ ختم ہو جاتا
ہے تو جو کچھ آواز نے کہا ہوتا ہے مجھے یا د ہو چکا ہوتا ہے اور کبھی فرشتہ میرے سامنے
ایک مرد کی شکل میں آجا تا ہے۔‘‘
اس کی کیفیت کا
علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے یا رسول اللہe کو ۔ حدیث سے صرف اتنا ہی معلوم
ہوتا ہے کہ آپe کو وحی کے اس خاص طریقے میں
گھنٹیوں کی سی آواز آیا کرتی تھی ۔ اور ساتھ ہی حدیث میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ
وحی کا یہ طریقہ آنحضرت e پر سب سے زیادہ دشوار ہوتا
تھا ۔
یہ پڑھیں: رسول اللہﷺ معلم ومبلغ
فرشتے کا انسانی
صورت اختیار کرنا :
وحی کی دوسری صورت
جس کا اس حدیث میں ذکر ہے یہ تھی کہ فرشتہ کسی انسانی شکل میں آپe
کے پاس آکر اللہ کا پیغام پہنچا دیتا تھا ۔ ایسے مواقع پر عموماً
حضرت جبریلu مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی
کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے۔
علم کی اہمیت:
علم سے ہی اللہ
عزوجل کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اللہ عزوجل کی معرفت حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و زن
پر فرض ہے ۔
[طلب علم فریضۃ علیٰ کل مسلم] (سنن ابن
ماجہ، ابو عبداللہ محمد بن یزید، القزدینی، کتاب العلم، ح: 224، ج: 1، ص:
151)
’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘
علم کی نعمت سے
سرفراز لوگوں کے درجات کو اللہ تعالیٰ زہد اور تقویٰ کے برابر قرار دیتا ہے ۔ علم کی
اہمیت اس بات سے معلوم کی جا سکتی ہے کہ
نبی ﷺ فرمایا :
[العلماء ورثۃ الانبیاء.] (سنن ابن ماجہ،
ابوعبداللہ محمد بن یزید، القزدینی، باب: فضل العلماء والبحث علی طلب العلم، حدیث:
229، ج: 1، ص: 55)
’’علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔‘‘
تہذیب و تمدن کے
چراغ علم سے روشن ہوتے ہیں اور یہی ان کی قوت و شوکت کا راز ہے ۔ تعلیم اور علم کی
اہمیت سے کسی کو بھی انکار نہیں خواہ وہ کسی بھی قوم اور تہذیب سے تعلق رکھتا ہو۔ اسلام
نے علم کو بہت اہمیت دی ہے ۔
پروفیسر محمد سلیم لکھتے ہیں کہ قرآن پاک میں
لفظ ’’علم‘‘ 778مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ (دائرۃ المعارف، ج: 13، ص:447)
خود اللہ تعالیٰ
نے اپنی توحید پر اپنی ذات اور فرشتوں کے ساتھ ساتھ منصف مزاج اہل علم کو بھی گواہ
ٹھہرایا ۔ یہ نہایت غور طلب بات ہے:
﴿اِنَّمَا يَخْشَى
اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا﴾ (الفاطر)
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں صرف علم رکھنے
والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں ۔‘‘
﴿وَ قُلْ رَّبِّ
زِدْنِيْ عِلْمًا۰۰۱۱۴﴾ (طٰہٰ)
’’کہہ دیجئے اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘
یہ پڑھیں: خلیفۂ اول بلا فصل وبلا اختلاف سیدنا ابوبکر صدیق
ریاست جموں و کشمیر کا پس منظر اور پیش منظر
بچوں کی تعلیم و
تربیت میں سکول کا کردار اور عصر حاضر کےکشمیر میں سرکاری مدارس میں نصاب اسلامیات
کے جائزہ سے قبل ریاست جموں و کشمیر کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے:
ریاست
جموں و کشمیر کا تعارف:
ریاست جموں و کشمیر
ایشیا کے تقریباً وسط میں اور برصغیر پاک و ہند کے عین شمال میں واقع ہے ۔ چنانچہ اس
لحاظ سے ایشیا کا دل اور برصغیر کے تاج کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ (نذیر احمد تشنہ، پروفیسر،
سابق صدر شعبہ تاریخ گورنمنٹ ڈگری کالج بھمبر آزادکشمیر، غزنی سٹریٹ لاہور، 2005)
صابر آفاقی اپنی
کتاب تاریخ ’’کشمیر اسلامی عہد میں‘‘ لکھتے ہیں کہ مملکتوں کی خصوصیات ان کی گزشتہ
تاریخ کی طرح طبعی ماحول سے بھی متعین ہوتی ہیں ۔ غالباً برصغیر پاک و ہند کے کسی علاقہ
کے جغرافیہ نے اس کی تاریخ کو اتنا متاثر نہیں کیا جتنا کشمیر کو کیا ہے۔ (صابر آفاقی ، ڈاکٹر ،
تاریخ کشمیر اسلامی عہد میں ، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ، 2000، ص:32)
یہ وسیع اور حسین
ترین وادی ہمالیہ کے دامن میں واقع ہے ۔ کشمیر کے قدرتی خدو خال نے براہ راست کشمیر
کی تاریخ کو اتنا متاثر نہیں کیا جتنا اس کے اونچے اونچے پہاڑی سلسلے نے کیا ہے جنہوں
نے اسے گھیرا ہوا ہے ۔ کشمیر میں انسانی آبادی 3180قبل مسیح سے بھی ایک ہزار
سال کے عرصے سے پہلے کی ہے ۔ راج ترنگنی کے مصنف سمیت دیگر مؤرخین نے بھی یہ بات لکھی
ہے کہ کشمیر برفانی علاقہ تھا اور یہاں موسم گرما میں باہر سے انسان آتے تھے اور سردیوں
میں واپس چلے جاتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ برف پگھلی اور انسانوں نے یہاں سکونت اختیار
کی ۔ پہلا انسان بڑھاپے اور ضعف کے باعث یہاں ہی قیام پذیر ہو گیا اور وہ زندہ رہا
۔ اس کے رشتہ دار جو اس کو چھوڑ گئے اس کو زندہ دیکھ کر وہ بھی یہاں قیام پذیر ہو گئے
۔ راج ترنگنی نے اس کا نا م چندرا دیو لکھا ہے۔ (پنڈت کلہن، اردو ترجمہ، ٹھاکر اچھر
چند شاہ پوریہ، راج ترنگنی، ترنگ اول، اشوق، ویری ناگ پبلیشرز، 2018، 39-19)
کشمیر کی وجہ تسمیہ
:
ڈاکٹر غلام محی
الدین صوفی کے مطابق وادی کشمیر جو اس سے پہلے ’’ستی سر‘‘ جھیل کہلاتی تھی جس کا پانی
یعنی سر خارج کر کے اس کا نام ’’کاسمیرا‘‘ رکھا گیا۔ ’’کا‘‘ سے مراد پانی اور ’’سمیرا‘‘
سے مراد ایسی جگہ جہاں سے ہوا کے ذریعے سے پانی خارج کر دیا گیا ہو ۔ گویا کاسمیرا
سے مراد ایسی جگہ ہے جس کا پانی خارج کر دیا گیا ہو۔ ایک اور توضیح کے مطابق کشمیر
دو لفظوں ’’کس‘‘ اور ’’میر‘‘ کا مرکب ہے۔ ’’کس‘‘ سے مراد نالہ اور ’’میر‘‘ سے مراد
پہاڑ ہے۔ گویا ’’کس میر کا مطلب پہاڑوں اور نالوں کا ملک ہے۔‘‘
G.M Sufi ,Islamic Culture in
Kashmir , New Delhi Light life Publisher, 1973, (P:12)
ایک اور نظریہ کے
مطابق ایک قوم ’’کاش‘‘ نے سب سے پہلے اس جگہ کو آباد کیا جس کے حوالہ سے اس کا نام
’’کاشمیر‘‘ یا ’’کاس میر‘‘ پڑ گیا ۔ پنڈت کلہن کی بیان کردہ داستان کے حوالہ سے بعد
کے مؤرحین نے کشمیر کی وجہ تسمیہ کے بارے میں مختلف نظریات قائم کیےاور اس بات پر
تقریباً سبھی نے اتفاق کیا کہ کشمیر دو لفظوں یعنی ’’کشیپ‘‘ اور ’’میر‘‘ کا مرکب ہے
۔
سنسکرت زبان میں
میر سے مراد آبادی یا پہاڑی درے ہوتے ہیں ۔
مرزا شفیق لکھتے
ہیں ابتداء میں کشیپ اور میر کی ترکیب سے اس ملک کا نام کشیپ میر تھا جو وقت گزرنے
کے ساتھ ساتھ پہلے کیشپ میر اور پھر کاش میر اور آخر کار کشمیر کی صورت
اختیار کر گیا۔ (شفیق حسین ، مرزا، آزاد کشمیر ایک سیاسی جائزہ ، ص:14)
یہ پڑھیں: پیغام پاکستان کی روشنی میں ضابطۂ اخلاق
محل وقوع:
عر ف عام میں لفظ کشمیر ان تمام علاقوں کے لیے استعمال ہو تا ہے جو 84471مربع میل پر مشتمل ہے۔ بطور
خاص لفظ کشمیر اس وادی کے لیے استعمال ہو تا ہے جو 80 میل لمبی اور
34 میل چوڑی ہے۔ (نعیمی ، زاہد حسین، سید ، کشمیر جد
و جہد آزادی ، تاریخ ص:36، بحوالہ ایم ۔اے خان )
کشمیر کا رقبہ بقول امان اللہ خان 84494 مربع میل ہے۔ (خان ، ایم اے ، کشمیر تاریخ کے آئنے میں ، ص :23)
جی ایم میر لکھتے ہیں جموں و کشمیر کا کل رقبہ
84471مربع میل ہے۔ (آزاد ، محمود ، سید ، تاریخ کشمیر ، ص
:1، ج:36)
غیر مسلم دور حکومت
محمد دین فوق کے
مطابق کشمیر میں ہندو راجوں کے اکیس خاندان تھے جنہوں نے یکے بعد دیگرے حکومت کی۔ انہوں
نے چار ہزار پانچ سو سال تک بڑی شان وشوکت سے حکومت کی۔
رنچن کا قبول اسلام
:
شاہ میر جانتا تھا
کہ رنچن ایک عظیم سیاستدان اور خطرات میں کود پڑنے والا آدمی ہے ۔ شاہ میر اور رنچن
شاہ کے درمیان گفت و شنید ہوئی کہ آنے والی صبح کو سب سے پہلے جس آدمی کو دیکھے گا
اس کا مذہب قبول کرے گا ۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ رنچن شاہ کی نظر ایک مسلمان فقیر بلبل
شاہ پر پڑی تو وہ مسلمان ہو گیا اور صدر الدین نام اختیار کیا ۔ گویا رنچن نے ایک صوفی
بزرگ شرف الدین بلبل شاہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور اپنا نام صدر الدین رکھا۔ (فوق، محمد دین ، مکمل
تاریخ کشمیر ، مشتاق احمد ، مشتاق بک کارنرالکریم ، اردو بازار لاہور ، ص :24)
مسلم سلاطین کا
دور حکومت :
1323ء میں صدر الدین کی وفات کے بعد راجہ سہدیو کا
بھائی اودیان دیو حکومت پر قابض ہو گیا ۔ وہ
15 برس 1323ء تا 1338ء تک حکومت کرنے کے بعد
انتقال کر گیا تو اس کے ایک وزیر شاہ میر نے جو ہزارہ سوات کا رہنے والا تھا حکومت
پر قبضہ کر لیا ۔ شاہ میر نے سلطان شمس الدین کا لقب اختیار کیا وہ کشمیر کا پہلا باقاعدہ
مسلمان حکمران تھا جس نے کشمیر میں شاہ میر خاندان کی سلطنت کی بنیاد ڈالی
۔ (گلزار حجازی ، تاریخ تحریک آزاد کشمیر پر انقلاب پونچھ 1947، ص:32)
سکھ اور ڈوگرہ دو ر حکومت :
1819ء میں کشمیر پر مہارجہ رنجیت سنگھ نے حملہ کیا
اور افغان حکمرانوں کو شکست دے کر کشمیر پر قبضہ کیا ۔
1946ء تا 1947ء تک کا دور ڈوگرہ حکمرانوں
کا سیاہ دور تھا۔ (گلزار حجازی ، تاریخ تحریک آزاد کشمیر پر انقلاب پونچھ 1947، ص:32)
1832ء میں
ڈوگرہ نے ریاست پونچھ میں مظالم کی انتہا کر دی بطور خاص تحصیل سدھنوتی کے سدھن
سرداروں ’’سبز علی خان‘‘ اور ’’ملی خان‘‘ اور ان کے ساتھیوں کی زندہ کھالیں کھینچوائیں
۔ ان کی کھالیں سینہ تک ادھیڑ دیں گئیں خون ان کے بدن سے بہہ رہا تھا اور منگ کے پہاڑوں
میں اللہ اکبر کی صدا گونج رہی تھی ۔ اللہ کے ان مجاہدوں کی تاریخ آج سنہری حروف سے
لکھی ہوئی ہے ۔
گلاب سنگھ نے اپنے
دور میں اپنے سامنے زندہ انسانوں کی کھالیں کھینچوائیں لیکن اللہ کے فضل سے وہ لوگ
ثابت قدم رہے اور اپنے اکابرین کے نقش قدم پر رہے۔ (گلزار حجازی ، مختصر اور مستند
تاریخ کشمیر، ص:8)
یہ پڑھیں: عقیدے کی حساسیت اور اس کا تحفظ
تاسیس آزاد حکومت
:
24 اکتوبر 1947ءکو آزاد کشمیر حکومت کی
باقاعدہ تشکیل ہوئی جس کا صدر مقام جنجال ہل کے مقام پر رکھا گیا۔ جنجال ہل گاؤں ،
پلندری اور تراڑکھل کے درمیان ایک پہاڑی کی چوٹی پر قائم ہے ۔ جنجال ہل ایک نہایت ہی
پر فضا مقام تھا اور طرح طرح کے سرسبز درختوں کے گھنے جنگل میں گھرا ہوا تھا۔
آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا پہلا صدر بیرسٹر
سردار محمد ابراہیم خان کو نامز د کیا گیا۔ نومبر ، دسمبر 1947ء کے دوران چند محکموں کے
عارضی دفاتر بھی قائم کر دئے گئے۔ (طارق ، محمد شریف، جنگ آزادی کی کہانی ، تاریخ
کی زبانی ، فیض الاسلام پرنٹنگ پریس راولپنڈی ، اشاعت اول : 2003، ص 710، 711)
No comments:
Post a Comment