درسِ قرآن
جوابدہی کا تصور
ارشادِ باری ہے:
﴿سَوَآءٌ مِّنْكُمْ
مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَ مَنْ جَهَرَ بِهٖ وَ مَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۭ بِالَّيْلِ
وَ سَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ۰۰۱۰﴾ (الرعد)
’’تم سے کسی کا اپنی
بات کو چھپا کرکہنا اور بآواز بلند اسے کہنا اسی طرح رات کا چھپا ہوا اور دن کی روشنی
چل رہا (حرکت کرتاہوا) سب اللہ کے لیے یکساں ہیں۔‘‘
یہ پڑھیں: بھول چوک پر عدم مؤاخذہ
﴿وَ اَمَّا
مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى ۙ۰۰۴۰﴾ (النٰزعٰت)
’’البتہ جو شخص اپنے
رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے آپ کو خواہشات کی اتباع سے روکے
رکھتا ہوگا تو اس کا ٹھکانا جنت ہے۔‘‘
انسانی فطرت ہے کہ وہ ترغیب وترہیب سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ خسارہ اور نقصان
کی طرف لے جانے والے اسباب ومحرکات سے دور رہتا ہے۔ اگر اس کی طرف رہنمائی میسر ہو
جائے اور اپنے لیے مفید اور سود مند اشیاء کے حصول کے لیے تیار رہتا ہے- یہ الگ معاملہ
ہے کہ وہ اپنے ابدی اور حقیقی نفع کو پہچان پاتا ہے یا نہیں- اسلام کا تصور آخرت اور
اللہ کے سامنے جوابدہی کا تصور بھی انسان کو اپنے خسارہ حقیقی سے بچنے کا ایک اہم عنصر
ہے۔ یہی وہ تصور ہے جس کی وجہ سے تقوی اور احتیاط کا رویہ پیدا ہوتا ہے۔ قرآن پاک
میں کئی ایک مقامات پر لوگوں کی فکری ناپختگی اور علمی کجی کا باعث اس تصور کا نہ ہونا
قرار دیا ہے اور مومن کے متوازن ہونے کاسبب اس کے اسی احساس کو قرار دیا ہے:
﴿وَ قَالَ الَّذِيْنَ
لَا يَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَوْ نَرٰى
رَبَّنَا١ؕ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ وَ عَتَوْ عُتُوًّا كَبِيْرًا۰۰۲۱﴾
(الفرقان)
’’اور جولوگ ہم سے
ملنے کی امید نہیں رکھتے ہیں کہ ہم پر فرشتے کیوں نہ نازل کیے گئےیا ہم اپنی آنکھ
سے اپنے پروردگار کو دیکھ لیں‘ ان لوگوں نے اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھ رکھا ہے اور سخت
سرکشی کر لی ہے۔‘‘
اسی تصور سے نابلد قوم تاریخی حقائق سے عبرت حاصل کرنے اور اپنی اصلاح کی بجائے
ان سے اعراض کرتی ہے اور ان سے منہ موڑتی ہے
کیوں کہ جب انسان اپنے آپ کو شتر بے مہار سمجھنے لگے اورکسی اعلی اور ارفع
قوت کے سامنے جوابدہی کے تصورسے غافل ہوتو انسان میں تکبرو غرور اور سرکشی کے جراثیم
پیدا ہوتے ہیں:
﴿وَ لَقَدْ اَتَوْا
عَلَى الْقَرْيَةِ الَّتِيْۤ اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ١ؕ اَفَلَمْ يَكُوْنُوْا يَرَوْنَهَا١ۚ
بَلْ كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ نُشُوْرًا۰۰۴۰﴾ (الفرقان)
’’اور (یہ کفار مکہ)اس
بستی پر ہو گزرے ہیں جس پر بری طرح پتھر برسائے گئے تو کیا ان لوگوں نے اس بستی کو نہیں دیکھا بلکہ(اصل میں
) یہ لوگ مر کر دوبارہ جی اٹھنے کا تصور ہی نہیں رکھتے۔‘‘
یہ پڑھیں: بد اعمالی اور نعمتوں کی ناشکری کے اثرات
قرآن کریم کے مطابق یہ عقیدہ انسانی اخلاق کے لیے بنیاد کا کام دیتا ہے اور اس
تصور کے ذریعے انسانی مزاج کو دراصل پختہ کرنا مقصود ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو ذمہ دار
محسوس کرے۔
No comments:
Post a Comment