Tuesday, November 10, 2020

صرف نکاح ہی تو مسنون تھا

ھفت روزہ اھل حدیث, صرف نکاح ہی تو مسنون تھا, مسنون نکاح,


صرف نکاح ہی تو مسنون تھا

تحریر: جناب مولانا محمد بلال ربانی (سیالکوٹی)

گذشتہ روز ہمارے ہم زلف برادران کے واٹس ایپ گروپ میں محترم عبدالمجید صاحب نے تصاویر کا مکمل البم سینڈ کیا جو رنگ نور میں ڈھلا ہوا زمیں پر ستاروں کی کہکشاں کا مظہر محسوس ہوا صاف ظاہر تھا اس آرائش وزیبائش پر کافی پیسہ خرچ ہوا ہے جب اس کے ضمن میں تحریر پڑھیں تو معلوم ہوا کہ صرف اس تمام تر سجاوٹ پر سولہ کروڑ روپیہ خرچ کیا گیا ہے اور یہ آرائش و زیبائش صرف شادی کی تقریب کی خاطر رات کو حسین بنانے کے لیے چند دنوں یا لمحوں کے لیے برپا کی گئی ہے۔

یہ مضمون پڑھیں:      ہم پی ڈی ایم کا حصہ ہیں‘ نواز شریف اور پی ڈی ایم کا بیانیہ ایک ہے

’’ماسٹر ٹائلز‘‘ ملک پاکستان کی صنعت کاری میں ایک عظیم نام ہے یہ تمام تر اخراجات ماسٹر پینٹ والوں نے اپنی اولاد کو حجلہ عروسی میں بٹھانے کے لیے کیے۔ صرف سجاوٹ پر سولہ کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ ہوئی۔ جبکہ شادی کی راتوں کو مزید حسین بنانے کے لیے فنون لطیفہ سے وابستہ عاطف اسلم ، راحت فتح علی خان اور ان جیسے  پاکستان کے بڑے ناموں کو مدعو کیا گیا جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کے خوب جوہر دکھائے اور کروڑوں روپے وصول کیے۔

شنید ہے کہ اس شادی پر دو ارب سے زائد کی خطیر رقم خرچ ہوئی جبکہ خطبہ نکاح پاکستان کے مشہور مبلغ حضرت مولانا طارق جمیل صاحب نے ارشاد فرمایا۔ میدان خطابت کے عظیم شہسوار نے اپنی خداد صلاحیتوں کے خوب جوہر دکھائے موقع ہی ایسا تھا کہ جب سانپ گذر چکاتھا اس کے نشان ہی باقی تھے۔ لیکن ہمیں امید ہے مولانا طارق جمیل نے اپنی روایت کے مطابق اِک شاندار اصلاحی خطاب ارشاد فرمایا ہوگا جس کی تفصیلات عنقریب سوشل میڈیا کے ذریعے ہمیں موصول ہوجائیں گی۔

ماسٹر والوں کی شادی کا یہ واقہ ہمارے معاشرے میں فضول خرچی کی اِک مثال ہے اس جیسی مثالیں ہمیں اپنے گلی محلوں میں عام دیکھنے کو ملتی ہیں اور شادی کا ہر دعوت نامہ چیخ چیخ کر اس بات کا اظہار کررہا ہوتا ہے کہ اس تقریب میں جو کچھ ہوگا وہ چشم براہان اور متمنیانِ شرکت کی مرضی سے ہوگا۔  پوری تقریب میں اگر کوئی چیز مسنون ہو گی تو وہ صرف خطبہ نکاح ہوگا اور وہ بھی عربی میں۔

شادی کی خوشی سبھی کو ہوتی ہے کون ہے جسے عقد نکاح میں منتقل ہوتی اولاد اچھی نہ لگتی ہو؟ ہمارے ہاں تو ہماری مائیں بہنیں دلہے بھیا کے لیے شادی سے کئی دن پہلے سے ہی گنگنا رہی ہوتی ہیں:

’’آؤندیاں نصیباں نال اے گھڑیاں تیرے سہرے نو سجاواں لاکے پھول چڑیاں‘‘

یہ مضمون پڑھیں:      حکمرانوں کا کام جلسے نہیں‘ ایک کروڑ نوکریاں دس لاکھ گھر بنائیں

شادی کی خوشی ہونی چاہیے اور اس کا اظہار بھی ہونا چاہیئے لیکن اتنا بھی اظہار نہ ہو جائے کہ ہر حد ہی پار کر جائیں۔ دوارب روپیہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اک خطیر رقم ہے کہ جسے اگر انسانی فلاح پر خرچ کیا جاتا تو قریباً بیس لاکھ کے حساب سے دوسو گھروں کی تعمیر ممکن ہوتی اور اس جوڑے جیسے سینکڑوں جوڑے اپنی چھت پا کر سکون کی زندگی بسر کرنے کے قابل ہوجاتے۔

یہ شادی بیس لاکھ میں بھی ہوسکتی تھی لیکن نہیں ہوئی وجہ وہی اپنے مرتبے اور جاہ و جلال کے اظہار کی خواہش یا اپنے پیسے اور دولت کی نمائش تھی جس کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہوا اس میں قصور اس فیملی کا نہیں ہے جن کے بچے شادی کے بندھن میں بندھے۔ ہماری روایات کچھ ایسی ہی ہیں۔ وہ تو اک بڑا گھر تھا کہ جس کی دنیا میں اک پہچان ہے اور بڑے بڑے بزنس مین ان کا دم بھرتے ہوں گے۔

شادی کی مذکورہ تقریب میں مولانا طارق جمیل کا خطاب فقط اسی لیے تھا کہ اپنے اسلام کا اظہار بھی کرلیا جائے جی یہ تو عام سی بات ہے ایسا ہی تو ہوتا ہے ہمارے ہاں کہ جب ساری دولت رقاصاؤں اور مغنیاؤں پر خرچ کرکے تھک چکے ہوتے ہیں تب تقریب نکاح کا موقع آپہنچتا ہے۔ گلی محلے سے نکاح رجسٹرار کو لیا جاتاہے جو روایتی انداز میں عربی زبان میں خطبہ سناتا ہے ساتھ ہی خشک کھجوریں تقسیم کرکے نکاح پڑھنے کا اعلان ہوجاتا ہے اور پھر سے وہی دھماچوکڑی شروع ہوجاتی ہے جو پہلے جاری تھی۔

اس قدر شادی کی شہنائیوں میں مگن ہوتے ہیں کہ پڑوس کی مسجد میں ہونے والی نماز باجماعت کا احترام بھی نہیں ہوتا ایسی ہی اِک تقریب ہمارے محلے میں تھی بارات لیٹ ہوچکی تھی کہ اتنے میں نماز عصر کا وقت آن پہنچا ہماری مسجد میں عصر کی اذان گونج رہی تھی تو ادھر شہنائیاں سدھائی جارہی تھیں۔ اذان کے احترام میں خاموشی چھاگئی اذان ہوئی اذان کے بعد مؤذن نے انہیں یہ بتا کے نماز دعوت دی کہ نماز باجماعت کھڑی ہونے میں پندرہ منٹ باقی ہیں لہذا نماز ادا کر لو اتنا سننا تھا کہ وہی ہنگامی پھر برپا ہوگیا جو شادی کی خوشی میں پہلے ہی جاری تھا۔ اس پوری بارات میں سے اِک شخص بھی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں نہ پہنچا البتہ نکاح ان کا بھی مسنون ہی ہوا۔

یہ مضمون پڑھیں:      ریاست مدینہ میں بت کدے برباد کیے جاتے ہیں

ایسے واقعات اس امر کا غماز ہے کہ ہم انتہائی شاطر واقع ہوئے ہیں اور شاید ہماری قوم کو اپنے انجام سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے تمناؤں میں الجھی یہ قوم خود ہی کھلونوں سے بہل کے اپنی تمام تر حسرتوں اور ندامتوں سے چھٹکارا چاہتی ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی بھول ہے جو مزید ہماری تنزلی کا باعث بن رہی ہے اور ہم رفتہ رفتہ اپنے انجام کی طرف گامزن ہیں۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)