تبصرۂ کتب ... چاند پر اختلاف کیوں؟!
تحریر: جناب مولانا محمد سلیم چنیوٹی
نام کتاب: چاند
پر اختلاف کیوں؟!
مسئلہ رؤیت ہلال‘ تحقیقی وتنقیدی جائزہ
مؤلف: رانا محمد شفیق خاں پسروریd
ضخامت: ۱۸۹ صفحات
ملنے کے پتے: مرکز
اہل حدیث ۱۰۶ راوی روڈ لاہور
مکتبہ اہل حدیث پسرور
مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور
تبصرہ نگار: محمد سلیم چنیوٹی
اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق دن رات کا آنا جانا اور سورج چاند
کا طلوع وغروب اس کی قدرتِ کاملہ کے مظاہر ہیں جو ہر دیدہ ور دیکھتا اور محسوس کرتا
ہے۔ رؤیت ہلال‘ یعنی چاند کا دیکھنا اور دیکھ کر تواریخ بدلنا اور اپنے راستے ومقرر
کیے گئے شرعی امور سرانجام دینا اول روز سے چلے آرہے اعمال ہیں۔ رؤیت کا معنی دیکھنا
ہے اس بارے نبی کریمe کا
فرمان ملاحظہ فرمانے سے چاند کی رؤیت کی اہمیت واضح ہو رہی ہے کہ
’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند
دیکھ کر روزے ختم کرو اور عید الفطر مناؤ‘ سو اگر تم پر آسمان غبار آلود ہو تو شعبان
کے تیس دن پورے کر لو (پھر رمضان کے روزے رکھنا شروع کرو۔‘‘ (صحیح بخاری‘ حدیث: ۱۹۰۹)
جغرافیائی لحاظ سے ہر ملک‘ بلکہ ایک ہی ملک کے مختلف شہروں میں
سورج کے طلوع وغروب میں اختلاف اور وقت کے فرق کا ہر صاحب نظر کو ادراک ہے۔ اسی طرح
مطالع کا اختلاف ایک حقیقت ہے‘ اس کا انکار کرنے سے بھی نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح چاند
کے نظر آنے کی حقیقت بھی واضح ہو رہی ہے کہ اس کی رؤیت بھی مختلف اوقات میں ہو گی۔
کہیں ایک دن پہلے یا ایک دن بعد رؤیت کا ہونا سب کے علم میں ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض
دفعہ ہمارے ملک میں اختلاف مطالع کے پیش نظر دو عیدوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اس میں رؤیت
ہلال کے برعکس بعض دفعہ ہٹ دھرمی اور ضد کے پہلو بھی واضح ہوتے رہے ہیں اور ایک شرعی
مسئلے‘ یعنی رمضان المبارک کے آغاز اور خوشی کے تہوار عیدین پر اختلاف اور دو دو عیدوں
کا منایا جانا باعث افسوس وحیرت ہے۔
امسال بھی عید الفطر کے چاند نظر آنے نہ آنے پر اختلاف ہوا اور
ملک میں دو عیدیں منائی گئیں۔ ایک حکومتی وزیر نے اپنے محکمے کی سائنس کے جوہر بھی
دکھانا شروع کیے اور ایک کیلنڈر بنائے جانے کی ’’نوید‘‘ بھی سنائی کہ بغیر رؤیت کے
ہم سائنسی آلات کے ذریعے کئی سالوں پر مشتمل نئے چاند کی تواریخ کا اعلان کر سکتے ہیں
بلکہ یہ کیلنڈر منظر عام پر بھی لایا گیا ہے۔
حالانکہ رؤیت ہلال کمیٹی بھی حکومت ہی نے بنائی ہے اور وہی
اس کا اجلاس بلانے کا اعلان کرتی ہے۔ اس میں ہر مکتب فکر کے جید علماء وماہرین فلکیات
بھی شامل ہوتے ہیں اور مطلع دیکھ کر رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین باقاعدہ ٹی وی‘ ریڈیو
پر اعلان کرتے ہیں۔ اس طرح قومی سطح پر رمضان المبارک یا عید الفطر کے منانے کا فیصلہ
آ جاتا ہے۔
اس کے باوجود بعض جگہوں پر اس کمیٹی سے ہٹ کر خصوصا صوبہ خیبر
پختونخواہ میں رؤیت ہلال کے موضوع پر اختلاف کافی عرصے سے ہوتے آ رہے ہیں۔ شاذ ونادر
ہی انہوں نے قومی سطح پر بنی رؤیت ہلال کمیٹی پر اعتبار کیا ہو جو افسوس ناک بات ہے۔
ہر علاقے اور ملک کے مطالع مختلف ہیں‘ یہ بات بجا ہے‘ مگر قومی سطح پر قائم کی گئی
کمیٹی کے اعلان پر ہی چلنا زیادہ مناسب ہے اگر مضبوط دلائل اس کمیٹی کے خلاف نہ ہوں۔
بعض لوگ سعودی عرب کی رؤیت ہی کو اپنی رؤیت کے لیے کافی سمجھتے
ہیں‘ حالانکہ چاند کا آنکھوں سے دیکھ کر فیصلہ کرنا ہی مشروع امر ہے‘ یہاں سائنس کے
جوہر نہیں چل سکتے‘ بلکہ مطلع دیکھ کر چاند کو تلاش کرنا بھی سائنس ہی ہے۔ ہمارے قومی
کمیٹی کے ارکان جدید سائنسی آلات اور دور بین کے ذریعے ہی رؤیت کا اہتمام کرتے ہیں
اور پھر میڈیا کے سامنے آکر نئے چاند کے نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان کرتے ہیں۔ بعض
علماء‘ بیزار حکومتی ارکان ’’چاند‘‘ چڑھاتے اور مقتدر علماء پر تنقید کر کے دین اسلام
سے بیزاری کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ ان کی دین اور علماء دشمنی انہیں فائدہ تو کیا ہمیشہ
خسارے میں رکھتی ہے۔
محترم رانا محمد شفیق خاں پسروری ایک ادیب وخطیب اور صاحب مطالعہ
شخصیت ہیں‘ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے رکن‘ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے
رہنما اور پیغام ٹی وی کے سکالر ہیں۔ کئی ایک کتب کے مصنف ومؤلف ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب
کی تالیف بھی انہوں نے ایک اہم قومی مسئلے کی وضاحت اور اس پر تحقیقی وتنقیدی جائزے
پر مشتمل افکار اکٹھے کر کے کی ہے جو لائق تحسین بھی ہے اور ایک مضبوط مؤقف اور دلائل
کے انبار لیے ہوئے منظر عام پر آئی ہے۔
جس کے دل میں رؤیت ہلال کے متعلق اشکال پائے جا رہے ہوں وہ
یہ کتاب ضرور اپنے مطالعہ میں لائے اور اپنے موقف کو پرکھے‘ ان شاء اللہ فائدہ بھی
ہو گا اور معلومات بھی ملیں گی۔
No comments:
Post a Comment